مریم اورنگ زیب کے دو ہزار روپوں میں روسی حکومت کی دلچسپی


مملکت خداداد میں موسم اور حکومتیں کب بدل جائیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ محکمہ موسمیات والے، کہ جن کے افسران ٹھنڈے کمروں سے باہر ہی نہیں نکلتے اور آج تک کوئی قابل ذکر ایجاد اس حکومتی سفید ہاتھی نے نہیں کی، لاکھ فرماتے رہیں کہ پری مون سون یا مون سون آ رہا ہے لوگو بچاؤ کر لو، کوئی یقین نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح حکومتی ترجمان (وہ بھی ٹھنڈے کمروں سے باہر نہیں نکلتے ) بھلے لاکھ سر پٹختے رہیں کہ ان کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ مگر ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے (یا ”وہ“ چاہتے ہیں ) ۔ یہی تاریخ دو ماہ پہلے دہرائی گئی اور جناب عمران خان صاحب کی حکومت تبدیل ہو کر جناب شہباز شریف کے پاس آ گری۔

دیہاتی پس منظر سے واقف لوگ جانتے ہوں گے کہ تماشا دکھانے والے کے پاس کئی طرح کے دلچسپ کھلونے اور جانور موجود ہوتے ہیں۔ وہ ڈگڈگی بجاتا جاتا ہے اور سدھائے ہوئے جانور ویسا ہی کرتے جاتے ہیں جیسا ان کا مالک اشاروں سے ان کو سمجھتا جاتا ہے۔ ان جانوروں میں سر فہرست بندر یا بندریا، ریچھ، بکری یا بکرا اور کبھی کبھار طوطا بھی شامل ہوتے ہیں۔ تماشا دیکھتی پبلک سمجھتی ہے کہ بے چارے جانور کتنی مشکل سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

بندر سٹول پے چڑھ کے سب کو سلام بھی کرتا ہے اور بکری چاروں ٹانگوں کو ایک مربع شکل کی لکڑی پر اکٹھا کر کے کھڑی ہو جاتی ہے، عوام تالیاں پیٹتی ہے اور تماشا دکھانے والا پیسے اکٹھے کرتا ہوا واپس چلا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جب سارے جانور اور تماشے والا اپنے گھر واپس جاتے ہیں تو سب اکٹھے ہو کر جمع شدہ رقم سے اپنے کھانوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اور ان کی روزی روٹی اسی طرح چلتی رہتی ہے اور بے وقوف صرف عوام بنتی ہے۔

معاف کیجئے گا تحریر لمبی ہو گئی، مگر آج بات سابق اور موجودہ وزراء اعظم کے متعلق نہیں ہے بلکہ دونوں کے ان تماشا دکھانے والے کرداروں کی ہے کہ جن کی صرف پوزیشنز بدلی ہیں اور کچھ نہیں، جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے تک جناب فواد چوہدری صاحب جس لہجے اور جس طنطنے سے پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے آج کل محترمہ مریم اورنگ زیب اسی طنطنے اور رعب سے پریس کانفرنسیں کرتی ہیں، فرق صرف وزن کا ہے (میں باتوں کے وزن کی طرف اشارہ کر رہا ہوں دونوں کے اپنے اپنے وزن کی نہیں ) باقی باتیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔

فواد چوہدری صاحب کی نظر تازہ تازہ ٹھیک ہوئی ہے اور اب ان کو کچھ دنوں سے قریب اور دور سے مہنگائی نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ اور پٹرول مہنگا لگنا شروع ہو گیا ہے۔ غریب بھی کہیں کہیں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جبکہ اس کے بالکل الٹ محترمہ مریم اورنگ زیب صاحبہ کی قریب اور دور کی نظر حکومت ملتے ہی خراب ہونا شروع ہو گئیں ہیں اور پٹرولیم لیوی، ٹیکسز، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، حتی کہ کھاد اور ڈیزل کی وجہ سے کسانوں کی آنکھوں کے آنسو بھی نظر آنا بند ہو گئے ہیں۔ اور وہ اپنے مخصوص طنطنے سے جب پریس کانفرنس کرتی ہیں تو دیکھنے والے سبحان تیری قدرت کرتے رہ جاتے ہیں۔ کہ یہ وہی خاتون ہیں جن کی آنکھوں میں آنسو (مگرمچھ کے ) آ جاتے تھے جب اپوزیشن میں تھیں کہ غریب تو اس ملک میں مارا گیا ہے۔

کچھ دن پہلے جناب وزیراعظم صاحب کو خواب میں آشکار ہوا کہ پٹرول تو بہت مہنگا ہو گیا ہے اور غریب آدمی تو پس رہا ہے (یاد رہے یہ خواب تب آیا تھا جب پٹرول کی قیمت 206 روپے تھی آج 235 روپے ہے ) تو غریب کو ریلیف دینا تو مسلم لیگ نون کا شیوہ ہے۔ فوراً ٹیلی فون گھمایا اور فرمان جاری کیا کہ غریب کو خوشخبری سنائی جائے۔ چونکہ اس طرح کی خوشخبریاں وزارت اطلاعات ہی دیتی ہے اس لیے قرعہ فال اطلاعات کے کرتا دھرتا لوگوں کے نام نکلا اور اگلے دن مریم اورنگ زیب صاحبہ نے خاص طور پر مینی کیور کروا کر ایک پریس کانفرنس کی جس میں وہ مریم اورنگ زیب سے شہنشاہ اورنگ زیب بن گئیں اور حاتم طائی کی قبر کو لات مارتے ہوئے دو انگلیاں (جس کے لیے مینی کیور کروایا گیا تھا) اٹھا کروی کا نشان بناتے ہوئے اور دو کا اشارہ کرتے ہوئے فرمان جاری کیا کہ ”حکومت دو ہزار کی مدد ان خاندانوں کی کرے گی جو چالیس ہزار روپے مہینے کے کما رہے ہیں“ کیونکہ ہمارے پیارے وزیر اعظم رات سے سو نہیں سکے اس لیے کہ پٹرول مہنگا ہو گیا ہے۔

اس ساری کہانی میں ستم ظریفی دو ہزار روپے کے مدد کے اعلان پر نہیں ہے بلکہ اس کے آفٹر ایفیکٹس پر ہے۔ سنا ہے کہ ہیرے کی کانوں کے سوداگروں، تیل اور گیس کی عالمی منڈی کے بیوپاریوں، بل گیٹس اور ایلون مسک کے ایجنٹوں اور تو اور روس کے محترم صدر جناب پیوٹن کے پاکستان میں موجود افسروں نے بھی پاکستانی عوام سے رابطے بڑھانا شروع کر دیے ہیں کہ ان کے پاس دو دو ہزار کی امداد آ رہی ہے، اور عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنے پیسوں کا کیا کریں۔

تازہ خبر یہ ہے کہ پاکستان میں موجود محترم روسی سفیر نے کچھ لوگوں کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ ہو سکے تو ان لوگوں سے رابطہ کیا جائے اور ان کو تیل اور گیس کے ذخائر خریدنے کا مشورہ دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ یہ دو ہزار روپے کہیں حکومت امریکہ یا چائنہ کی انوسٹمنٹ میں نہ چلے جائیں۔ اور حکومت پاکستان کے اس ناقابل یقین کارنامے کا نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ روسی عوام تک بھی فائدہ پہنچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments