ہم دیوالیہ پن کے قریب ہیں مگر عوام کو ہنسی مذاق سے فرصت نہیں


پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے یہ مشکل ترین دور اب صرف جملہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ ہمارے ملک کے داخلی معاملات تو اکثر خراب رہتے تھے مگر اب پاکستان کے معاشی معاملات بھی مشکل ترین معاملات تک پہنچ گئے ہیں۔ یعنی پاکستانی ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ نئی حکومت کچھ کچھ سیریس تو لگ رہی ہے مگر عوام کو ابھی بھی اس بارے میں احساس نہیں ہو رہا۔

سمجھدار پاکستانی بھائیوں بہنوں پاکستانی معیشت اس وقت دیوالیہ کی لائن کے بہت قریب ہے اور آپ کو مذاق لگ رہا ہے۔ ہر چیز میں مذاق بنائیں گے تو زندگی مذاق بن جائے گی۔ ہمیں سنجیدہ ہونا پڑے گا ورنہ یہ مذاق اتنا بھیانک ہو سکتا ہے جس کے نتائج آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارے جو جو بڑے ہیں سب معاشی طور پر صحت مند ہیں، وہ عیش و آرام والی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ان لوگوں نے پاکستان سے بہت سارا پیسہ کما لیا ہے اور باہر رہ کر بھی بہت جدید اور لذیذ زندگی گزار سکتے ہیں۔ تو آپ سب سے پہلے آپ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ یہ بڑے بڑے لوگ بڑا پن دکھائیں گے۔

بہرحال حکومت اور فیصلہ سازوں کو تھوڑے سے ٹائم کے لئے سائیڈ میں رکھیں۔ اپنے آپ کو دیکھیں اپنی لگی بندھی آمدن دیکھیں، آپ کو خود اپنے آپ پر فوکس کرنا ہو گا اور نواب پنے سے دور ہونا ہو گا۔ ہم لوئر کلاس ہو یا مڈل کلاس وہ اپنی عیاشی تو دیکھ ہی نہیں رہیں کیونکہ ہم جو کر رہے ہیں اسے ہم عیاشی نہیں سمجھتے۔ ہم بولتے ہیں مہنگائی ہو گئی ہے بالکل ہو گئی ہے مگر اپنے سائیڈ کے خرچے تو دیکھئے نہ۔ ہم خود روزانہ 50، 100 روپے خرچ کر دیتے ہیں مگر وہ گنتی میں نہیں آتے اور وہ ہی 50، 100 مہینے کے آخر میں 5، 6 ہزار روپے بن جاتے ہیں۔

جی جناب، 5، 6 ہزار پاکستانی روپے اور یہ صرف ایک طرف کا معاملہ بتا رہا ہوں۔ ہمارے ایک دوست ہیں جو روزانہ سگریٹ کے نام پر 250 روپے خرچ کر ڈالتے ہیں اور ایک اور دوست ہیں جو پسے تمباکو کا کوئی آئٹم کھاتے ہیں جس پر ان کے روزانہ 180 روپے لگتے تھے مگر اب وہ بھی مہنگی ہو گئی اور اب 210 روپے لگ جاتے ہیں۔ یعنی ایک دوست کے مہینے میں سگریٹ کا خرچہ ساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ ہے اور دوسرے دوست کا خرچہ 6 ہزار کے قریب ہے۔ یہ وہ خرچہ ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ تو چھوڑئیے کراچی میں روزانہ رات کو چائے کے ہوٹل پر لاکھوں چائے کے کپ فضول ترین گفتگو کے سات اڑا دیے جاتے ہیں۔

پاکستانی ہر چیز میں مذاق مستی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک وفاقی وزیر احسن اقبال نے چائے کم پینے کا بیان دیا اور یہ بیان ہمیشہ کے طرح مذاق مستی میں بدل گیا۔ ہم ہر چیز میں مذاق مستی تلاش کرلیتے ہیں لیکن اس بیان کی حقیقت کو کوئی نہیں سمجھنا چاہتا۔ مختصر سنئے پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں 83 ارب روپے کی چائے پی گئی اور اس سے پچھلے سال 70 ارب روپے کی پی گئی تھی۔ یعنی اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی 13 ارب روپے زیادہ خرچہ آ رہا ہے۔ ذرا معلوم کیجئے کہ چائے امپورٹ ہوتی ہے اور امپورٹ ہونے کی وجہ سے اچھا خاصا ڈالر باہر چلا جاتا ہے۔ یہ ہی حال چیز کا ہے ہم کروڑوں اربوں روپے کی امپورٹڈ چیز سالانہ کھا جاتے ہیں۔ یہ صرف دو آئٹمز ہیں سیکٹروں مزید ہیں جس پر ہم اربوں ڈالر پھونک دیتے ہیں۔

ایک گھر کی مثال لیجیے جہاں مہنگائی کی وجہ سے آمدنی کم پڑنے لگتی ہے تو خود با خود خریداری کو کم پڑنا پڑتا ہے اور جب تک آمدنی نہیں بڑھ جاتی اس وقت تک یہ بچت یا احتیاط جاری رہتی ہے۔ لیکن ہم پاکستانی بہت سارے عیاشیوں میں لگے ہیں اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو رہا ہے کہ نہ صرف ہمیں اس کا نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ ہماری معیشت کو بھی اس کا نقصان پہنچ رہا ہے اور اس نقصان میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس پاکستانی بھی شامل ہیں۔ پاکستان اس وقت واقعی مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے اور اگر ملک دیوالیہ ہو گیا تو پھر ہم کس نہج پر پہنچ جائیں گے جس کا ہمیں اندازہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments