بیوگا کی حقیقی جہد مسلسل


کارخانوں، سرکاری محکموں اور اداروں میں یونینوں یا تنظیموں کی موجودگی نئی نہیں۔ ان تنظیموں کے نمائندے تجارتی اداروں کے ساتھ ساتھ ریاستی محکموں کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف ہمیشہ رکاوٹ بنے رہے ہیں۔ یہی پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے یونینز ہیں جس نے دنیا بھر میں محنت کش طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے انتھک جدوجہد سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

اٹھارہویں صدی میں برطانیہ میں محنت کشوں نے مزدوروں کے حقوق کے لیے طبقاتی نظام اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ کوسٹا ریکا میں اٹھارہویں صدی کے آخر میں، ٹریڈ یونینز پہلی بار بننی شروع ہوئیں جبکہ امریکہ میں مزدور یونینز 1889 میں منظر عام پر اپنی شروع ہوئیں جنہوں نے 1950 کی دہائی کے وسط میں، اور پھر 1960 کی دہائی میں ایک مضبوط شکل اختیار کی۔

برصغیر پاک و ہند میں یونین سازی کا عمل ریلوے اور زراعت کے آغاز کی بدولت ابھرا اور یہی ٹریڈ یونینز کے تحریک کے آغاز کا باعث بنا۔ تاریخی طور پر برصغیر میں قائداعظم محمد علی جناح مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے علمبرداروں میں صف اول کے رہنما تھے۔ وہ 1925 میں آل انڈیا پوسٹل اسٹاف یونین کے منتخب صدر تھے جس کے کارکنوں کی رکنیت 70,000 تھی۔ محمد علی جناح نے ٹریڈ یونین ایکٹ، 1926، اور تجارتی تنازعہ ایکٹ، 1929 کے نفاذ میں اہم کردار ادا کیا انہی دونوں ایکٹ نے بعد میں یونینوں کی تشکیل کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ یاد رہے کہ اکتوبر 1920 میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کے بانی اجلاس میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح شریک ہوئے تھے۔

1919 میں محنت کش طبقے کے تحفظ کے لیے، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے پوری دنیا میں یونین تحریک کی ترقی کو دوام بخشنے کے ساتھ ساتھ ورکروں کے حقوق کے لئے توانا آواز بنی۔ جب ہم پاکستان میں محنت کش اور تنخواہ دار طبقے کے اتحاد پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ پاکستان، ورکرز کنفیڈریشن، پاکستان ورکیز فیڈریشن، پاکستان لیبر فاؤنڈیشن، ریلوے، ورکرز یونین وغیرہ جیسی کئی ٹریڈ یونینز اور تنظیمیں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ میں پیش پیش رہی ہیں۔

جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس (BEWGA) تعلیم، زراعت، سول سیکرٹریٹ، لیکچرر ایسوسی ایشن، جنگلات، محنت، صحت اور دیگر محکموں سے تعلق رکھنے والی 50 سے زائد تنظیموں اور یونینوں کی 2 لاکھ 18 ہزار کے قریب ملازمین پر مشتمل نمائندہ تحریک ہے جو ملازمین کے حقوق کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح آواز بلند کرتی چلی اتی رہی ہے۔

تاریخی طور پر بیوگا کی جدوجہد آئین کے دائرہ کار میں ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے رہی ہے جس کے لیے بیوگا کی قیادت اور محنت کشوں نے بار بار قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مظالم کو برداشت کیا۔ ان پر آنسو گیس فائر کی گئی۔ صوبائی حکام نے انہیں مارا پیٹا اور بے شرمی کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا اور مئی 2021 کا حالیہ واقعہ اس کی تازہ نظیر ہے کہ کس طرح ملازمین کو گھسیٹا اور مارا پیٹا گیا اور ان کا خون بہایا گیا۔

بیوگا کے بنیادی مطالبات میں ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد الاؤنس کا اضافہ شامل رہا ہے بنیادی طور پر یہ اضافہ مہنگائی کی لہر کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں نے بھی کیا تھا۔ مزید برآں، بیوگا نے یونینوں سے پابندی ہٹانے، کئی سالوں سے کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کرنے، تنخواہ دار طبقے کے خلاف آئی ایم ایف کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے، ریٹائرڈ اور فوت ہونے والے ملازمین کے لواحقین کے لیے کوٹہ بڑھانے کا مطالبہ کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں کے اعلان کے مطابق ایم فل اور پی ایچ ڈی الاؤنس بڑھانے، ٹیچنگ، ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل سٹاف کی اپ گریڈیشن، ٹائم سکیل کی تجدید جیسے بنیادی مطالبات بھی شامل ہیں۔ جس کے لیے بیوگا کی قیادت نے صوبائی سطح پر ان مطالبات کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا۔ وزیر اعلی سیکریٹریٹ کے سامنے دھرنا دینے، صوبائی حکومت کو بار بار اپنے کیے گئے وعدوں کی یقین دہانی کروانے کے ساتھ ساتھ معزز ہائی کورٹ میں بھی بیوگا نے ملازمین کا کیس بہترین انداز میں پیش کیا

میرے نزدیک متوسط، تنخواہ دار اور محنت کش طبقے کی آواز گونج کو اقتدار کی بیوروکریسی کے گرم اور ٹھنڈے کمروں تک پہنچانے کے علاوہ۔ بیوگا تحریک کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس نے ان تمام اقوام کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ بلوچستان ایک مخلوط صوبہ ہے جہاں بلوچ، پختون، ہزارہ اور اردو بولنے والے آباد ہیں۔ بیوگا نے جو بہترین کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے ان کے اتحاد کے لیے ایک پلیٹ فارم اور ایک ہی اسٹیج فراہم کیا ہے اور ساتھ ساتھ میں ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں تمام قوموں کے نمائندوں بشمول مارکسسٹ، مذہبی لوگ، قوم پرست اور ترقی پسند شامل ہیں کو نمائندگی دی گئی ہے۔

ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے وہ سب ایک مشترکہ مقصد کے لیے واحد نکتے پر متفق ہیں۔ نہ کوئی مذہبی منافرت، نہ کوئی سیاسی چال اور نہ ہی کوئی قومی تعصب دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ سب ایک اسٹیج اور ایک پلیٹ فارم سے بغیر کسی رنگ و نسل یا فکری امتیاز کے بیٹھے ملازمین کے حقوق کے لئے لڑ رہے تھے۔

اتار چڑھاؤ، ناکامی اور کامیابی کسی بھی تحریک، یونین یا تنظیم کا لازمی جز ہوا کرتی ہے۔ اہم نکتہ اگرچہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کو ایک مقصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کے لیے اکٹھا کرنا، مختلف اقوام کے درمیان سماجی ہم آہنگی لانا اور انہیں ایک مقصد کے لیے ایک اسٹیج پر بٹھانا کسی بھی تحریک اور تنظیم کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔ اتحاد اور اتفاق کے یہ تمام عوامل ہم بیوگا کی جدوجہد میں دیکھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments