بھٹو کی وارث۔ بے نظیر


جمہوری جدوجہد کی تاریخ جب مرتب کی جائے گی تو ساری دنیا میں جمہوریت کی سربلندی کے لئے قربانیاں دینے والی نمایاں ترین شخصیات میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا نام شامل ہو گا۔ 21 جون 1953 کو پیدا ہونے والی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی اس عظیم بیٹی نے کم عمری میں ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ سیاست کے اسرار و رموز سے آگاہ لوگوں نے مستقبل میں ایک عظیم رہنما کے آثار بینظیر بھٹو کی شخصیت میں دیکھنا شروع کر دیے تھے۔ بینظیر بھٹو ایک ایسا نام جسے مسلم دنیا سے لے کر جدید دنیا تک ہر شخص آج بھی یاد کرتا ہے۔ مگر آج سب سے زیادہ اگر کوئی بینظیر بھٹو کو یاد کر رہا ہے تو وہ ان کے اپنے پارٹی ورکرز ہیں، جنہیں بینظیر بھٹو نے اپنے بچوں، بھائیوں، بہنوں، بیٹوں کی طرح عزیز رکھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967 کو پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ بھٹو کی وراثت پیپلز پارٹی ہے، بھٹو کی اولاد کی طرح پیپلز پارٹی بھی اس کی وراثت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو قیام کے صرف 3 برس میں عام انتخابات میں غیر معمولی کامیابی ملی تھی مگر اقتدار کے پہلے دور کا اختتام ضیا الحق کے مارشل لا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھائے جانے سے ہوا۔ 1979 میں بھٹو کے پھانسی چڑھنے کے بعد بھٹو کے وارثوں کا اصل امتحان شروع ہوا۔

پیپلز پارٹی نے اپنی مزاحمت سے ثابت کیا کہ وہ ایک ایسی پارٹی ہے جو ملک کے چاروں صوبوں میں موجود ہے۔ مگر اسی وقت بھٹو کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو اور صاحبزادی بینظیر بھٹو نے بھی ثابت کر دیا کہ وہ بھٹو کی وراثت کو سنبھالنے اور آگے لے کر چلنے کی اہل ہیں۔ دونوں خواتین نے پارٹی کو نہ صرف سنبھالا بلکہ ایسی مزاحمت کی کہ جنرل ضیا الحق جیسے جابر حاکم کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

بینظیر بھٹو صرف 24 برس کی تھیں کہ بھٹو کو اقتدار کے سنگھاسن سے اتار کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ 24 سالہ بینظیر نے جسے بھٹو نے اپنے زیر سایہ تربیت دی تھی اپنی ماں کے ساتھ پارٹی کو بھرپور انداز میں سنبھالا اور آگے لے کر چلیں۔ نوجوان بینظیر بھٹو نے اس وقت پہلا بہادرانہ فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے انہی دشمنوں کو ساتھ ملایا جو بھٹو کے خلاف تحریک چلا کر اس کے خلاف مارشل لا لگوانے کا باعث بنے تھے۔ اپنے دشمنوں کو دوستوں کے روپ میں قبول کر کے ایک ایسی تحریک چلائی جس نے پاکستان میں بحالی جمہوریت کی راہ ہموار کی۔

ضیا الحق جیسے آمر مطلق کو کنٹرولڈ جمہوریت پر راضی ہونا پڑا۔ یہ وہ کنٹرولڈ جمہوریت تھی جو غیر جماعتی انتخابات کے راستے سے آئی مگر بہت جلد جماعتی سیاست میں بدل گئی اور ایک ایسی بنیاد رکھ دی گئی کہ جنرل ضیا الحق کو یہ محدود جمہوریت بھی قبول نہ ہوئی اور انہیں اپنے ہی وزیراعظم جونیجو کی حکومت کو گھر بھیجنا پڑا۔ یہی وہ وقت تھا جب بینظیر بھٹو کی اس محنت کا ثمر سامنے آیا جو انہوں نے 1982 میں پارٹی کی شریک چیئرمین بن کر شروع کی تھی۔ ضیا الحق کی طیارے حادثے میں ہلاکت کے بعد عام انتخابات میں بینظیر بھٹو اپنی جماعت کو کامیابی دلوانے میں کامیاب رہیں اور پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم بنیں۔

بینظیر بھٹو جنہیں ان کے والد نے اپنے ساتھ رکھ کر تربیت دی تھی اپنی جدوجہد اور سیاسی بالغ نظری سے ثابت کر دیا کہ وہ بھٹو کی اصل وارث ہیں۔ بھٹو کی سب سے بڑی صاحبزادی بینظیر بھٹو نے ثابت کیا کہ وہ بھٹو کی سیاست کو سب سے زیادہ بہتر سمجھتی ہیں اور پارٹی کو چلانے کی اہلیت بھی رکھتی ہیں۔ بینظیر بھٹو جیل کی کال کوٹھڑی سے ہاؤس اریسٹ تک ہر سختی ہر سزا بھگت کر اقتدار میں آئی تھیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں دونوں ادوار میں اقتدار مکمل نہیں کرنے دیا گیا، دونوں مرتبہ 58 ٹو بی کی تلوار ان پر گری۔

بینظیر بھٹو 1996 میں اقتدار سے فارغ ہوئیں تو انتخابات میں ان کی پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی سکڑ سمٹ کر 17 نشستوں تک محدود رہ گئی اور میاں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت دلا دی گئی مگر بینظیر بھٹو نے پارٹی کو اس طرح چلایا کہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان کی تعداد کتنی کم ہے۔ اس دور میں بینظیر بھٹو پر پاکستان کی زمین تنگ کر کے ان کی زندگی اجیرن کردی گئی جس کے بعد انہیں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اور وہ لاچار و ناچار ملک سے باہر چلی گئیں۔

بینظیر بھٹو نے دبئی میں اپنی جلاوطنی کے دوران بھی پارٹی کی قیادت اتنی جاندار انداز میں کی کہ 2002 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ایسی کامیابی ملی کہ جنرل پرویز مشرف کو ان کی پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک المعروف لوٹا بلاک بنانا پڑا۔ بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف سے چھٹکارے کے لئے مفاہمت کی سیاست کو اپنایا اور زندگی میں دوسری مرتبہ اپنے دشمنوں سے ہاتھ ملایا۔ 80 کی دہائی میں جنرل ضیا الحق سے نجات کے لئے بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والوں سے ہاتھ ملایا اور جنرل مشرف سے نجات کے لئے اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف اور اپنے خلاف مقدمے چلانے والے میاں نواز شریف سے ہاتھ ملایا۔

بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کر کے جنرل مشرف کو اقتدار سے نکالنے کی اس جدوجہد کا آغاز کیا جو عدلیہ تحریک کے نتیجے میں تیزی سے تکمیل کو پہنچی۔ بینظیر بھٹو پاکستان آئیں مگر اپنے باپ کی حقیقی وارث اور اپنے باپ کی سیاسی پارٹی اور جیالوں کو ساتھ لے کر چلنے والی بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 میں لیاقت باغ جلسہ کے بعد واپس جاتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور وہ صرف 54 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔

بینظیر بھٹو کی رخصتی کے بعد اب بھٹو اور بینظیر بھٹو کی وراثت آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو منتقل ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کا ورکر آج بھی بھٹو کے لئے گھر سے نکلنے اور قربانی دینے کو تیار ہے۔ جیالا آج بھی زندہ ہے، ان کے اندر کا بھٹو ابھی بھی زندہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو کو جدا نہیں کیا جا سکتا، بھٹو کے بغیر پیپلز پارٹی ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔ بھٹو کی پارٹی اور وراثت کو صرف بھٹوز لے کر آگے چل سکتے ہیں۔

بھٹو کی وراثت پر چلنا آسان نہیں ہے۔ بھٹو خاندان کو اس راہ میں بستر پر موت نہیں ملتی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ وقت کا کوئی بھی جبر انہیں جمہوری جدوجہد اور آمریت کے خلاف مزاحمت سے نہیں روک سکا۔ آج محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کے موقع پر پوری پاکستانی قوم ان جیسی بے مثال، نڈر، بہادر، دلیر اور بینظیر قائد کی کمی شدت سے محسوس کر رہی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہید بی بی کے سنہری افکار ملک کی تعمیر و ترقی، جمہوریت کے استحکام اور ملک کے عوام کی خدمت کے حوالے سے پاکستانی قوم کے لئے رہنما اصولوں کے طور پر تا ابد موجود رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments