مظلوم شہید بینظیر بھٹو


اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو ان کی 69 ویں سالگرہ کے موقعے پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ پہلی بار آپ 1988 ء میں پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو 21 جون، 1953 ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی پیدائش پر آپ کے خاندان میں جشن کا سماں تھا آپ کا نام بینظیر رکھا گیا اور آپ نے اپنی زندگی میں بتایا کہ آپ اپنے نام کی طرح بینظیر۔ نام بینظیر، کام بینظیر، تاثیر بینظیر۔

بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول (Lady Jennings Nursery School) اور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری (Convent of Jesus and Mary) کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ (Rawalpindi Presentation Convent) میں بھی تعلیم حاصل کی، جبکہ انھیں بعد میں مری کے جیسس اینڈ میری میں داخلہ دلوایا گیا۔ انھوں نے 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اپریل 1969 ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے Radcliffe College میں داخلہ لیا۔ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard University) سے 1973 ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ اکسفورڈ یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے درمیان کافی مقبول رہیں۔

آپ نے اپنی زندگی میں بے تحاشا سختیاں اور مصیبتیں برداشت کیں۔ لیکن کبھی عوام کا ساتھ اور صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ آپ اپنے والد شہید بھٹو صاحب کے کافی قریبی تھیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں دنیا کی ہر وہ پریشانی اور مصیبت برداشت کی جس سے ہر انسان پناہ مانگتا ہو۔ شاید یہ اللہ کی طرف سے آپ کا امتحان ہی تھا کہ بھری جوانی میں جہاں آپ کو اپنے والد کی شہادت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا اور ان کے بعد پارٹی کو مضبوط بنانے اور قائم رکھنے کے لئے محنت کی وہاں دوسری طرف آپ کے جوان بھائیوں کی موت بھی کسی قیامت سے کم نہ تھی۔

آپ کی بھائیوں کو شہید کرنے میں بھی اس وقت کے سیکورٹی ادارے ملوث تھے جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے اور محترمہ شہید کو اپنے انڈر کرنے کے لئے بے تحاشا کوششیں کیں لیکن ناکام رہے۔ دکھ کی گھڑی کا وقت تو تب آیا جب جھوٹے پروپیگنڈے کر کہ اور مخالفین نے پاکستان کے قومی خزانوں سے پیسہ لگا کر یہ باتیں عوام میں پھیلائیں کہ بینظیر بھٹو شہید نے اقتدار کی ہوس کے لئے اپنے بھائیوں کو شہید کروا دیا۔ کیونکہ آپ کے بھائی کی شہادت کے وقت آپ حکومت میں تھیں تو اس بات کا مخالفین نے مکمل فائدہ اٹھایا۔

آپ عورت ہو کر بھی آمر اور ایسی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہیں جو پاکستان پیپلز پارٹی کو جڑوں سے ختم کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے بھائیوں کی شہادت کے بعد آپ کو کافی تنقید کا سامنا رہا۔ لیکن بھٹو خاندان کا بھٹو شہید کی بیٹی اور بھٹو خاندان سے محبت کا انوکھا انداز کہ عوام نے مخالفین کی ہر سازش کو ناکام بنانے میں آپ کا ساتھ دیا۔ مشرف کے مارشل لاء کے بعد جب وہ وعدے کے مطابق دوبارہ الیکشن کروانے کی بجائے خود ملک پر مسلط ہو گیا اور آئین پامال کیا تو اس وقت بھی بینظیر بھٹو شہید واپس ملک میں آ کر آمر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کو دوبارہ الیکشن کروانے کے لئے مجبور کیا۔

دوسری طرف اپنے مخالف حریف نواز شریف کو بھی پاکستان واپس لانے میں ان کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی دوران آپ کو سیکورٹی تھریڈ بھی رہا اور خفیہ ایجنسیز کی رپورٹ کے مطابق آپ کو بار بار پاکستان آنے کے لئے منع کیا گیا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ لیکن آپ بھی بھٹو شہید کی بیٹی تھیں آپ نے مخالفین کو بتایا کہ میں اس مٹی کی پیداوار ہوں اور اسی میں دفن ہونا پسند کروں گی مجھے پاکستان کی عوام سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔

آپ جب پاکستان آئین تو تاریخ نے دوبارہ بتا دیا کہ عوام آپ کے استقبال کے لئے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئی۔ یہ سارا ماحول دیکھ کر بی بی شہید کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آپ نے اپنی عوام کے لئے بے تحاشا ایسے کام کیے جو مدتوں یاد رکھے جائیں گے آپ نے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے بھی بہت سے منصوبے بنائے لیکن کبھی کریڈٹ حاصل کرنے کی لالچ میں عوام کا پیسہ ضائع نہ کیا۔ آپ نے اپنے ورکرز و جیالوں کو اپنا بھائی بیٹا اور بزرگ مانتے ہوئے ان کے دکھ سکھ میں برابر شریک رہنے کو ہی ترجیح دیا۔

اس کی ایک مثال جب سانحہ کارساز ہوا۔ آپ کو بار بار دھمکیاں مل رہی تھیں کہ آپ کو مار دیا جائے گا اس سانحہ میں درجنوں ورکرز و جیالے شہید ہوئے لیکن آپ نے ہمت نہ ہارتے ہوئے اسی وقت اپنے ورکرز و جیالوں کے درمیان جانا ہی مناسب سمجھا۔ سیکورٹی اداروں کے منع کرنے بعد بھی آپ عوام میں رہی اور ان کے دکھ درد میں شامل ہوئیں۔ اس سانحہ میں جن ورکرز جیالوں کا کوئی وارث نہیں بنا آپ نے ان لوگوں کی سرپرستی کرتے ہوئے ان تمام شہداء کو گڑھی خدابخش میں دفن کروایا اور ان کی پہچان کے لئے کتبہ لکھا گیا ”میں بھٹو ہوں“ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ساری زندگی اپنے دکھوں کو سائیڈ پر رکھ کر عوام و ملک کی بھلائی کے لئے کام کیا۔

26 دسمبر 2007 کی رات جب بے نظیر بھٹو ایک لانگ ڈرائیو کے بعد اسلام آباد کے زرداری ہاؤس پہنچیں تو وہ بہت تھک چکی تھیں لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج کا پیغام ان تک پہنچا تھا کہ وہ ایک اہم کام کے لیے ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ ملاقات رات ڈیڑھ بجے ہوئی اور بے نظیر بھٹو شہید کے علاوہ ان کے سلامتی کے مشیر رحمان ملک بھی اس میں شامل تھے۔

ندیم تاج نے انھیں بتایا کہ اس دن کوئی انھیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج کو اپنے ذرائع سے اتنا یقین تھا کہ وہ خود دیر رات بے نظیر کی اسلام آباد رہائش گاہ پہنچے تھے۔

یہ سننے کے بعد بھی بینظیر بھٹو شہید نے کسی خوف کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ ان سے کہا اگر آپ کو معلوم ہے تو آپ ان کو گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے اتنی بڑی خبر کے بعد بھی خود کو گھر میں بند نہ کیا بلکہ عوامی رابطہ بنائے رکھنے کو ترجیح دی۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

آج کے دور میں معجزے اور کرامتیں کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں لیکن پھر بھی تصور کر لیتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو کیا کیا ہوتا اور کیا کیا نہ ہوتا۔ جس وقت آپ جلسہ کر کے واپسی کے لئے نکلنے لگی تو آپ پر گولی سے حملہ کیا گیا اور بعد میں خودکش دھماکے بھی کیے ۔ حملہ آور نے خود کو بھی خودکش جیکٹ سے اڑا لیا اور اس طرح بھٹو کی بیٹی بھٹو کے پاس پہنچ گئیں ساری پریشانیاں اور اپنی عوام کو روتے ہوئے ان سے جدا ہو گئیں۔

پوری دنیا میں آپ کی شہادت پر مظاہرہ کیے گئے جگہ جگہ لوگوں نے آپ کی محبت میں مظاہرے کیے لیکن یہ ایک کڑوا سچ تھا جس کو پینا ضروری تھا۔ عوام اور بھٹو خاندان کا آپسی رشتہ آج بھی اتنا ہی مضبوط ہے جتنا پہلے تھا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ہمارے سارے سماج اور سرکار سب کا حصہ ہے جس کی جو ذمہ داری تھی اس نے نہیں نبھائی عدالتوں کو اس مقدمے کو جو ترجیح دینی چاہیے تھی وہ انھوں نے نہیں دی ہر کوئی اپنی ذمہ داری سے بھاگا۔

فرض کرتے ہیں کہ یہ حادثہ نہ ہوتا سیکورٹی محترمہ پر دوسرا حملہ ناکام بنا دیتی۔ محترمہ الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن جاتیں تو محترمہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا رزمیہ کردار بن کر ابھرتیں۔ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سالہاسال جو تساہل برتا گیا بیانیے میں جو الجھاؤ رہا وہ محترمہ کے آنے سے دم توڑ جاتا اور جو کامیابی ہم نے آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر سالوں میں حاصل کی وہ ہم شاہد مہینوں میں کر لیتے۔ لیکن ان کی شہادت کے بعد ملک سالوں سال پیچھے کی طرف چلا گیا۔

بے نظیر زندہ ہوتیں تو پاکستان پر طالبان اور انتہا پسندوں کی در پردہ امداد کا الزام نہ لگتا۔ محترمہ زندہ ہوتیں تو انتہا پسندوں کے خلاف فتح یاب ہو کر دنیا بھر کے دورے کرتیں دنیا بھر سے پاکستان کی خوشحالی اور ایڈ نہیں ٹریڈ جیسے بیانیہ پر مکمل کام کرتیں۔ لیکن افسوس وہ اب ہم میں نہیں اور ہم بس افسوس ہی کر سکتے ہیں یا ان کے ان کی آخرت میں ان کے سکون کے لئے دعا۔ اسلامی دنیا کی سب سے پاپولر لیڈر بے نظیر بھٹو، عالم اسلام کے لبرل نظریات کا استعارہ بھی تھیں۔ محترمہ کے بعد غریبوں اور مزدوروں کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں رہا۔ میڈیا کی آزادی اور عدالتوں کے فیصلوں پر کوئی بات کرنے والا نہیں رہا۔ پاکستان کی غلط خارجہ پالیسی اور سٹرٹیجک غلطیوں پر روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں رہا۔

وہ زندہ ہوتیں تو بہت کچھ مختلف ہوتا۔ مگر سب سے زیادہ کمی ان کے نہ ہونے کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments