ایک دو تین


اللہ بخشے اس بندے کو جس نے اڑھائی تین سو سال قبل مسیح ہندسوں کا مربوط نظام وضع کیا۔ جس نے بھی کیا اپنی طرف سے تو اچھا کیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ ان کو ایجاد کرنے والا کوئی مسلمان تھا، ہندو یا عیسائی۔ ماہرین تاریخ میں ابھی تک اس بارے خوب کھینچا تانی جاری ہے۔ البتہ کچھ شواہد ملے ہیں کہ صفر جسے انگریزی میں زیرو، ہندی میں شونی اور پنجابی میں انڈے کا کچھ عجیب سا بگاڑ کہتے ہیں اور اس کو علامتی طور پر 0 یعنی ایک گول دائرہ جسے امیر لوگ سونے کا سکہ غریب لوگ روٹی یا کالا کلوٹا توا اور ماہرین فلکیات سورج، چاند اور دیگر گول مٹول سیاروں اور ستاروں سے تشبیہ دیتے ہیں، اسے ہندو بنیا اپنی ایجاد گردانتے ہیں۔

ویسے میں ہندو بنیے کی اس چالاکی پر داد دیتا ہوں۔ کہ پوری گنتی میں یہ اہم ترین پرزہ ہے۔ گنتی کے ساتھ زیادہ کھلواڑ اسی ہندسے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان کی بہی کھاتوں خصوصاً ہندستانی مسلمانوں کو دیے گئے قرضہ جات میں اس شونی کی وجہ سے کافی برکت آجاتی تھی۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی گنتی کے لیے جانوروں کی ہڈیوں پر خراشیں اور نشانات لگا کر چاند کی تاریخوں اور مختلف مقاصد کی گنتی کی ضرورت کو پورا کیا جاتا تھا۔

انسان کی اپنی انگلیوں پر زیادہ سے زیادہ گنتی بیس تک ہی گنی جا سکتی تھی۔ پر نئے چاند کو دیکھنے کے لیے انتیس تیس تک گننا مجبوری تھی۔ پھر اس دور میں شاید چاند کی پوجا پاٹ بھی ہوتی ہو گی۔ اب اگر سچ پوچھو تو خدا جھوٹ نہ بلوائے مجھے یہ جانوروں اور بالخصوص بندر کی ہڈی والی بات کچھ مشکوک سی لگی۔ سوچا کسی سیانے سے بندے سے پوچھتے ہیں کہ اس کہانی میں کس حد تک حقیقت ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ کس سے پوچھوں۔ یوں تو محلے میں ایک پروفیسر صاحب بھی رہتے تھے پر ان سے تو بچنا ہی بہتر تھا۔

فلسفہ پڑھاتے تھے کسی یونیورسٹی میں۔ پر کیا بتاؤں ان کے اپنے شاگرد ہی ان سے تنگ تھے۔ کہتے تھے کہ ہماری ہمت نہیں ہو پاتی کہ ان سے کچھ دریافت کر سکیں۔ اچھے خاصے دماغ کی دہی بنا دیتے ہیں۔ سو میری ہمت بھی نہ ہوئی۔ شہر کے پرلے کنارے پر استاد پنوں اپنی دکان چلاتے تھے۔ چلتے پھرتے سائیکل سے ہزار نقص نکال لیتے تھے۔ پھر ایک دو پنکچر تو کہیں گئے نہیں۔ پرانے دور کے میٹرک پاس تھے۔ واپڈا میں میٹر ریڈر بنتے بنتے بال بال بچ گئے تھے۔

اس وقت کوئی ساٹھ پینسٹھ کے پیٹے میں تھے۔ جہاں دیدہ اور گزیدہ آدمی تھے۔ ہر قسم کے بابو لوگوں اور شہر آنے جانے والے ذہین اور چالاک لوگوں سے ان کا واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ میرے اپنے ذاتی خیال بلکہ یقین کامل کے مطابق دور حاضر میں ان تمام مطلوبہ معلومات اور اس سے جڑی بحث کے لیے وہ مناسب ترین بلکہ معقول ترین آدمی تھے۔ جب ان سے اس بابت پوچھا تو انہوں نے تو یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ لوگوں کو کیا ضرورت پڑتی اس فضول کام کے لیے پہلے کسی بندر کو پکڑتے پھر اسے مارتے اور اس کی ہڈیوں پر لکیریں مار کر گنتی کا حساب بناتے۔

ذرا خود سوچو آج کے ترقی یافتہ سائنس، کمپیوٹر اور روشنیوں کے دور میں بھی جب ایک انسان کی قدو قیمت کچھ نہیں ہے۔ آج ہم انسانی جان اور نعش کے ساتھ کیا نہیں کرتے۔ اپنی انا کی تسکین کی خاطر قبر تک تو کھود دیتے ہیں۔ تو اس دور کے غاروں میں رہنے والے جنگلی وحشی انسان سے کیا توقع کی جا سکتی تھی کہ محض چاند کی تاریخیں گننے اور دیگر فضول کاموں کے لیے صرف جانوروں کی ہڈیاں ڈھونڈی جاتی۔ استاد پنوں کی منطق نے میرے دماغ کی کئی بتیاں روشن کر دیں۔

واقعی جب آج کے جدید معاشرے میں دو چار سو انسانوں کو کسی بم سے اڑا دینا کوئی خاص مسئلہ نہیں سمجھا جاتا تو اس دور کا وحشی انسان خواہ مخواہ جنگلوں میں بندروں کے پیچھے کیوں ہلکان ہوتا۔ استاد پنوں کی بات تو سیدھی دل کو لگی۔ سوچا لگے ہاتھوں باقی معلومات بھی استاد پنوں سے ہی لے لوں۔ پر میرے لیے بنیادی سوال یہی تھا کہ آخر اتنی لمبی چوڑی گنتی ایجاد کرنے کی ضرورت کٔیوں پیش آئی۔ جبکہ ہفتے کے دن سات مہینے بارہ، مہینے کے دن تیس اور سال کے دن 365 ہی تو تھے۔

میرے اس سوال کے جواب میں استاد پنوں نے مجھے اپنے موجودہ معاشرے سے ۂی چند مثالیں دے کر میرے چودہ طبق روشن کر دیے۔ وہ فرما رہے تھے کہ اگر یہ ہندسے ایجاد نہ ہوتے تو سوچو آج سائنس بھلا اتنی ترقی کر سکتی۔ وضاحت طلبی پر فرمانے لگے کہ اگر یہ گنتی نہ ہوتی تو نجومی لوگ ستاروں کی چالیں ان کی منازل کے مختلف خانہ جات اور قسمت کے زائچے کیسے بناتے۔ حروف ابجد کی قیمتیں اور اعداد کیسے معلوم ہوتے اور پھر پیروں عاملوں کے حساب اور تعویز گنڈے تو ادھورے رہ جاتے۔

ذرا سوچو اگر تعویزات نہ ہوتے تو ہر گھر میں صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتیں اور یوں انسانی آبادی کے تناسب میں پیدا ہونے والے بگاڑ اور اس کے ضمن میں مزید شماریاتی پیچیدگیاں اور پھر سرکار کی ساری منصوبہ بندیاں دھری کی دھری رہ جاتی۔ ذرا سوچو بنکوں میں سود کا نظام کیسے چلتا۔ تعزیرات میں جرائم کی گنتی کسے مکمل ہوتی۔ اگر آئین کی شقوں کو نمبر نہ لگتے تو ارکان اسمبلی کس بات پر لڑائی جھگڑے، دنگا فساد اور گالم گلوچ کرتے۔

سوچو اگر یہ اعداد اور ہندسے نہ ہوتے تو کچہریوں میں جج تاریخ پر تاریخ کیسے دیتے۔ ہم انتخابی حلقوں کے نمبر کیسے شمار کرتے اور تو اور ووٹوں کی گنتی اور اس پر دھاندلی کا بازار کیسے گرم کرتے۔ اگر گنتی کا حساب نہ ہوتا تو ملاں لوگ بیویوں اور بچوں کی تعداد کیسے گنتے۔ وہ ستر ستر حوریں کون گنتا اور اور نیکیوں پر ثواب کے سات سے ستر گنا اور سات سو گنے کیسے گنوائے جاتے۔ جیلوں میں قیدیوں کی ٔ سزاؤں کا حساب کیسے رکھا جاتا۔

آج اگر گنتی ہے تو عوامی اور ملکی وسائل سے حاصل ہونے والا پیسہ بجٹ میں اڑا دیا جاتا ہے ورنہ اتنا پیسہ اگر ملکی ترقی پر خرچ ہوتا تو یہ ملک سونے کا بن جاتا۔ یہ سب ہندسوں کا ہی تو کھیل ہوتا ہے۔ استاد پنوں کا ایک ایک لفظ میرے ذہن اور دماغ میں بجلیاں دوڑا رہا تھا۔ واقعی اگر یہ گنتی کا نظام اور ہندسہ دانی نہ ہوتی تو یہ سود خور اور حرام خور، چور لٹیرے ڈاکو اور بد قماش لوگ اور رشوت خور افسر، منشیات فروش اور سیاسی لوٹے کرنسی نوٹوں کی تھدیاں کیسے گنتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments