فنکار گلی، ’بسکنگ‘ اور موسیقی کا عالمی دن


کراچی کی ’فنکار گلی‘ اب خواب ہوئی۔ کیونکہ اس کا وجود ریڈیو پاکستان ہی کے دم سے تھا۔ جب 28 اکتوبر 2007 ء کی صبح بندر روڈ کراچی (جو اب ’ایم۔ اے۔ جناح روڈ‘ بن چکی ہے۔ ) پر واقع ریڈیو پاکستان کی گنبد والی اصل پرانی عمارت کے اسٹوڈیو نمبر 14 میں عین اس وقت آگ لگی، جب وہاں سے بچوں کا ہفتہ وار پروگرام براہ راست نشر ہو رہا تھا، اس کے بعد سے ریڈیو پاکستان، گلشن اقبال بلاک 12 میں سوک سنٹر اور ’سوئی سدرن گیس کمپنی‘ کے صدر دفتر کے عقب میں سال 2000 ء میں تعمیر شدہ نئی عمارت ”نیو براڈکاسٹنگ ہاؤس“ (گول بلڈنگ) میں منتقل ہو گیا اور ریڈیو پاکستان کے پروگراموں کے معیار کی طرح اس کا ہر حوالے سے شاندار ماضی، جو اس صبح تک کم از کم ان قدیم در و دیوار کی بدولت ہی (کچھ نہ کچھ) محسوس ہوتا تھا، جاتا رہا۔

ریڈیو پاکستان کے وہاں سے شفٹ ہوتے کے ساتھ وہ ’فنکار گلی‘ مکمل طور پر بھی ویران ہو گئی (ہر چند کہ وہ ویران ہونا اس سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی)، جو اس کی اس پرانی عمارت کے صدر دروازے کے عین برابر والی گلی اور ریڈیو اسٹیشن اور اردو بازار کو منقسم کرنے والی رہگزر تھی۔ اب اس گلی کی تقریباً تمام دکانوں میں گاڑیوں کے ٹائر اور موبل آئل بکتا ہے۔ اسے ’فنکار گلی‘ اس لیے کہا کرتے تھے کہ اس گلی میں موسیقی کے نئے پرانے آلات اور ساز و سامان کی خرید و فروخت اور مرمت ہوا کرتی تھی اور نہ صرف یہ بلکہ گویے اور بجیے (گلوکار خواہ سازندے ) ہمہ وقت ان دکانوں پر خوش گپیاں کرتے نظر آتے۔

جس کی ریڈیو پاکستان پر ریکارڈنگ یا ریہرسل ہوتی، تو وہ اپنے کام سے پہلے وہیں پایا جاتا۔ پروڈیوسر اگر اس ریہرسل کے دوران کسی فنکار کو اسٹوڈیو میں نہ پاتا، تو اپنے ”چھوٹے“ کو بھگاتا کے ”جاؤ فنکار گلی سے فلاں کو پکڑ لاؤ!“ کیونکہ اسے یقین ہوتا کہ وہ ’فلاں‘ یا تو بشیر بھائی ہارمونیم میکر کے پاس بیٹھا گپیں مار رہا ہو گا یا پھر استاد کالے خان کی ستار اور سارنگی کی دکان پر بیٹھا مفت کی چائے کی چسکیاں لے رہا ہو گا۔

یہ پورا زمانہ ایسے خواب ہو گیا۔ کہ میں یہ سب لکھتے ہوئے یوں محسوس کر رہا ہوں کہ گویا فکشن کا کوئی سین لکھ رہا ہوں۔ حالانکہ یہ سب جس کسی نے بھی دیکھا (جو کہ ریڈیو سے ہی نہیں، کراچی سے متعلق بھی لاتعداد لوگوں نے دیکھ رکھا ہے۔ ) اس کی آنکھوں میں اب بھی یہ مناظر تازہ ہوں گے ۔ یہ ذوق موسیقی، لاہور اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں اور زیادہ تھا۔ کیونکہ لاہور، پاکستان کا اور حیدرآباد، سندھ کا ثقافتی دارالحکومت کہلاتا ہے۔ کراچی میں جس طرح یہ چیزیں زوال پذیر ہوئیں، وہاں بھی ہوئیں، مگر چونکہ وہاں یہ ذوق کراچی سے زیادہ موجود رہا، تو اس فطری اصول کے تحت، وہاں اب بھی اس کی باقیات بھی کراچی سے زیادہ ہی ہیں۔

کراچی میں فنکار مرا نہیں ہے۔ مگر اس کے مظاہرۂ فن کے انداز اور ڈھب میں تبدیلی آ گئی ہے۔ اب الیکٹرانک سازوں سے اصل (مینوئل) سازوں کی سب آوازیں نکالی جا سکتی ہیں۔ (گو کہ اصل ساز سے نکلنے والی آواز اور ’کی بورڈ‘ سے نکالی جانے والی آواز میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ) مگر چونکہ ہم ہر معاملے میں تخیل و تخلیق سے نظریں چرا کر ’شارٹ کٹ‘ اور ”جگاڑ“ کی طرف نکل پڑے ہیں، تو اس دور میں فنکاروں کی روزی روٹی غیر معمولی حد تک متاثر ہوئی ہے۔

اور آج کل کسی بھی گانے کا ’ساؤنڈ ٹریک‘ ایک ہی ’ارینجر‘ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ایک ہی ’کی بورڈ‘ کی مدد سے ریکارڈ کر لیتا ہے۔ (جس میں تمام سازوں کی آوازیں مصنوعی ڈال دی جاتی ہیں۔ ) اور اس پر گلوکار کی آواز (ووکل ریکارڈنگ) چھاپ کر، چند ہزار روپے میں اس کا گانا اس کی آواز میں، ’یو ایس بی‘ میں ڈال کر، اس کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ اب تو گلوکار کا سریلا ہونا بھی شرط نہیں رہی۔ کیونکہ ”آٹو ٹیونر“ جیسے متعدد سافٹ ویئرز نے اب ان کو بھی ”کلاکار“ بنا دیا ہے، جن کو (موسیقی کی زبان میں ) ”سا“ آلاپنا بھی نہیں آتی۔

اس روش کی وجہ سے لاتعداد ساز معدوم ہو گئے۔ بیسیوں ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان کے بجانے والے ہی ختم ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے وہ ساز بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پھر بھی کراچی میں اب آپ کو ’مینوئل‘ ہارمونیم، طبلے کی جوڑی، ستار یا سارنگی وغیرہ چاہیے تو وہ آپ کو ”نیپیئر روڈ“ کے علاقے میں موجود بازار سے مل جائیں گے۔ مگر اس بازار کی دکانیں بھی دن بدن بند ہوتی جا رہی ہیں اور وہ وقت شاید بہت قریب ہو! کہ یہ ”ساز بازار“ بھی ”فنکار گلی“ کی طرح معدوم ہو جائے اور اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی ایسا ہی لگے، جیسے ہم کسی افسانے کا کوئی منظر بیان کر رہے ہوں۔

ریڈیو پاکستان پر اب برسوں تک موسیقی کی کوئی ریکارڈنگ نہیں ہوتی اور اس کی نشریات میں یا تو وہی پرانے گیت نشر کیے جاتے ہیں، جو یا تو ریڈیو پاکستان نے خود ریکارڈ کیے، یا پھر پاکستانی فلموں کے لیے ریکارڈ کیے گئے۔ اور اگر نئے گیت نشر کرنے ہوں، تو بھلا ہو ’کوک اسٹوڈیو‘ کے متعدد سیزنز میں ریکارڈ کیے ہوئے نغموں کا، جن کو نشر کر کے نشریات کا پیٹ بھرا جاتا ہے۔ ریڈیو پاکستان کی طرح پاکستان ٹیلی وژن کا بھی وہی حشر ہے، کہ اس کی نشرگاہ کی پہلی منزل پر واقع ”آڈیو تھیٹر“ کے تالوں پر چڑھی دھول اس تھیٹر کے اس مصروف دور کو یاد کرتے ہوئے ٹسوے بہاتی ہے، جب پروڈیوسرز کو ’پلاننگ سیکشن‘ کی جانب سے اس تھیٹر میں ریکارڈنگ اور ریہرسلز کی ڈیٹ نہیں ملتی تھی۔ اب ٹیلی وژن پر صرف ان پروگرامز میں موسیقی ریکارڈ ہوتی ہے، جو ویژوئل اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہونے والے محفل کی طرز کے پروگرامز ہوں، جو بھی مہینوں میں ایک بار ریکارڈ ہوتے ہیں۔ ورنہ اللہ اللہ خیر صلا۔

اس طرز کے دیگر سرکاری ادارے جن کا کام موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی ترویج ہے، وہ بھی سمندر سے نالی کی طرح سکڑ گئے ہیں۔ ’پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس‘ کا کراچی دفتر (جو کسی زمانے میں ’پی آئی اے اکیڈمی‘ کی صورت کام کیا کرتا تھا اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت وزیراعظم اسے ’پی این سی اے‘ میں ضم کر دیا تھا۔ ) جن کے فنکاروں کے طائفے پاکستان کے سابق سربراہان مملکت کے ساتھ چارٹرڈ طیاروں میں، دنیا میں پرفارم کرنے جایا کرتے تھے، اب محض ایک ڈھائی کمروں کے دفتر میں اسی ریڈیو پاکستان کے نیو براڈکاسٹنگ ہاؤس میں اپنی حتمی موت کا انتظار کر رہا ہے۔

یہ وہ ادارہ ہے، جس کے ”نیشنل پرفارمنگ آرٹس گروپ“ میں 2011 ء تک کم از کم 6 سازندوں کا آرکیسٹرا اور 15 رقاص موجود تھے، جو ملک بھر کے تمام لوک رقص پرفارم کرنا جانتے تھے۔ ان سازندوں میں تمام کے تمام برصغیر کے مایۂ ناز سازندے تھے۔ جن میں پرائڈ آف پرفارمنس بانسری نواز استاد سلامت حسین سے لے کر طبلہ نواز عید محمد اجمیری (مرحوم) تک اور ستار نواز ساجد حسین سے لے کر شہنائی نواز غلام حسن شیخ تک تمام کے تمام اعلیٰ پائے کے فنکار تھے۔ اب وہ ادارہ فقط ایک عدد وارڈروب انچارج، ایک اسسٹنٹ، ایک لوئر ڈویژن کلرک، ایک مالی، دو چوکیداروں اور دو نائب قاصدوں کو پالنے کا قصد کر رہا ہے۔ البتہ فن کی خدمت اور موسیقی و ثقافت کا فروغ تو خیر ہوا سو ہوا!

ان حالات میں، مجھے اس بات سے شاید غرض نہ ہو کہ ہر سال 21 جون کو منایا جانے والا ”موسیقی کا عالمی دن“ سب سے پہلے 1982 ء میں فرانس میں ”فے ٹے ڈی لا میوزیکا“ کے طور پر منایا گیا تھا۔ ”فے ٹے ڈی لا میوزیکا“ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معٰنی ”موسیقی کے تہوار“ کے ہیں۔ جس کو منانے کا آغاز اس وقت کے فرانسیسی وزیر فن و ثقافت ’جیک لینج‘ اور ’موریس فلوریٹ‘ نامی ایک فرانسیسی موسیقار نے پیرس سے کیا۔ جن دونوں نے دیکھا کہ اس وقت تک میوزیکل کنسرٹس نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کے نمائندہ نہیں تھے۔

انہوں نے ’سینوگرافر کرسچن ڈوپاویلون‘ نامی ایک فرانسیسی آرکیٹیکٹ کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا، تاکہ شوقیہ اور پیشہ ور موسیقاروں کو سڑکوں پر اکٹھا کیا جا سکے۔ بعد میں، 1985 ء میں موسیقی کے یورپی سال پر، دیگر اقوام نے بھی موسیقی اور تمام فنکاروں کی پذیرائی کے لیے اس سالانہ کنسرٹ کا انعقاد معمول بنایا۔ اس کے بعد ، 1997 ء میں بوڈاپیسٹ میں ’یورپی میوزک فیسٹیول‘ نامی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ تب سے یہ دن بین الاقوامی سطح پر ’عالمی یوم موسیقی‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

مگر میری یہ غرض ضرور ہے کہ میرا فنکار بھوکا مر رہا ہے۔ وہ برادری، جو اگر اشرافیہ کا دل بہلانے اور ان کی جانب سے منعقد کی جانے والی محافل غزل کی زینت بننے تک کی خوش قسمتی حاصل کر لے، تو تو وہ معزز کہلاتی اور سمجھی جاتی ہے، البتہ وہ اگر گلی کوچوں میں گانے والے ہیں، تو ہم انہیں حقارت سے ’میراثی‘ اور ’گانے بجانے والا‘ جیسے القابات سے نواز کر ان سے نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ (حالانکہ ”میراثی“ ایک معتبر لفظ ہے، جس کا مفہوم ”میراث کا وارث“ ہے۔ وہ میراث شاہی ہو یا گدائی، اس کو پانے والا میراثی ہی ہوتا ہے۔ ) وہ یا تو کسمپرسی کی زندگی گزار کر بستر مرگ سے وزارت ثقافت کو ماہانہ وظیفے یا علاج کے لیے مالی امداد کی اپیلیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ یا پھر گمنامی کی موت مر کر کسی اخبار کے آخری صفحے کی ”سنگل کالم“ خبر بن جاتے ہیں۔ جن کے جنازوں میں ان کے پورے پڑوسی بھی شریک نہیں ہوتے۔ وہ اگر زندہ ہوتے ہیں، تو گلی گلی گا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی کوشش میں اپنی عزت نفس کا روز قتل کر رہے ہوتے ہیں۔

مغربی دنیا میں چھوٹے موٹے فنکار بھی اپنا پیٹ پالنے کے لیے سرکاری محافل موسیقی کا انتظار نہیں کرتے، بلکہ وہاں ”بسنگ“ ایک صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ ”بسکنگ“ وہ عمل ہے، جس کے تحت آپ یورپ اور امریکا میں جابجا گانے یا بجانے والوں کو سر راہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے دیکھتے ہیں۔ اور وہاں کے راہگیر اس قدر باذوق ہوتے ہیں، کہ وہ نہ صرف رک کر انہیں سنتے ہیں، بلکہ انہیں داد دے کر اپنی مرضی سے کچھ نہ کچھ نقد کی صورت (کم یا زیادہ کی کوئی قید نہیں!) بخشش یا عطا کے طور پر دیتے بھی ہیں۔ جو رقم ان کے سامنے انہی کی بچھائی ہوئی چادر یا رکھی ہوئی ٹوپی میں ڈال دی جاتی ہے۔ یہ آمدنی ’بھیک‘ نہیں سمجھی جاتی، بلکہ ان کے فن کے اعتراف میں نذرانہ گردانا جاتا ہے۔ ”بسنگ“ کے لیے ان تہذیب یافتہ معاشروں میں شہر کے میئر کے پاس باقاعدہ ایک رجسٹریشن فارم بھرا جاتا ہے۔ جس میں فنکار اپنی خواہش کے مطابق دو چار مقامات کے آپشنز دیتا ہے، جہاں جہاں پر وہ پرفارم کرنا چاہتا ہے۔ اور اس فارم کے جمع ہونے کے بعد وہاں کی مقامی میونسپل انتظامیہ فنکار کی خواہش والے مقامات کی دستیابی کی بنا پر اسے مخصوص دنوں کے مخصوص اوقات میں وہ جگہ الاٹ کرتی ہے، جس کے علاوہ کسی اور جگہ اور ان اوقات سے تجاوز کرتے ہوئے کوئی بھی اپنے فن کا مظاہرہ اس طرح اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا۔

کیا ہمارے ملک میں بھی جس طرح ’پاکستان چوک‘ کراچی پر ’آرٹ گلی‘ جیسی روایات قائم کی جا سکتی ہیں، آرٹس کونسل میں ’کوچۂ ثقافت‘ جیسے کامیاب تجربے کیے جا سکتے ہیں، قاری کی قلت والے ملک میں تواتر کے ساتھ لٹریچر فیسٹیولز منعقد ہو سکتے ہیں، تو کیا ہم اپنے فنکاروں کے لیے ”بسنکنگ“ کو ایک باضابطہ صنعت بنا کر فنکاروں کی ایک کثیر تعداد کو اس طرف راغب کر کے، انہیں گمنامی خواہ قبل از وقت حیاتیاتی موت سے نہیں بچا سکتے؟

وہ حضرات، جو ”بسکنگ“ کے ہمارے یہاں امکانی طور پر ناکام ہونے کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ”ہمارے یہاں باذوق سامعین ہیں ہی نہیں، جو ہمارے فنکاروں کی قدر شناس بن کر ان کی اس طرح مالی مدد کریں!“ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ذوق، پیدا کرنے سے آتا ہے۔ اپنے آپ نہیں آ جاتا۔ جب ہمارے پاس ایک ہی ریڈیو اور ایک ہی ٹی وی چینل تھا، تب بھی اسی عوام نے روشن آرا بیگم، مہدی حسن، ملکۂ ترنم نورجہاں، زیڈ اے بخاری، ضیا محی الدین، افتخار عارف، عبیداللہ بیگ، قریش پور، مستنصر حسین تارڑ، لئیق احمد، غازی صلاح الدین وغیرہ کو نہ صرف سنا، بلکہ پسند بھی کیا اور سراہا بھی، تو یہی عوام ان فنکاروں کی پذیرائی کیونکر نہیں کریں گے؟

آئیے! اپنے بچے کھچے سچے فنکاروں کو اس ”فنکار گلی“ کی طرح مرنے سے بچا لیں اور ”موسیقی کے عالمی دن“ کے تقاضوں کا صحیح معنوں میں حق ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments