امرا پر یک مشت ٹیکس کے منصوبہ پر عمل کیا جائے


کابینہ اجلاس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں متوازی معاشی نظام کی بات کی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ عالمی منڈیوں میں پیٹرول اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے اگرچہ پاکستان میں بھی قیمتیں بڑھی ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے لیکن حکومت بہر صورت غریب طبقات کو سہولت پہنچانے اور انہیں مہنگائی کے طوفان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے گی۔

وزیر اعظم کی یہ یقین دہانی خوش آئند ہے لیکن اب ضرورت ہے کہ شہباز شریف خود کو عبوری وزیر اعظم سمجھنا بند کریں اور محض یہ کہہ کر کام چلانے کی کوشش نہ کریں کہ ’ملکی مفاد میں مشکل فیصلے کیے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید مشکل فیصلے بھی کیے جائیں گے‘ ۔ اس قسم کے اعلانات سے لوگ یا تو یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی باتیں ملک میں ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کے لئے کی جا رہی ہیں یا پھر یہ قیاس آرائیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے اب حکومت عالمی مالیاتی ادارے کی مزید شرائط ماننے پر مجبور ہے۔ اسی لئے پیٹرول، بجلی و گیس کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کو مہنگا کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حالانکہ حکومتی نمائندے مسلسل عوام کی سہولتوں میں اضافے، یوٹیلٹی اسٹورز پر کم قیمت میں اشیائے صرف کی فراہمی اور کم آمدنی والے خاندانوں میں دو ہزار روپیہ ماہانہ تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔

شہباز شریف نے بھی آج اسلام آباد میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پرگرام میں وسعت اور 7 کروڑ کم آمدنی والے گھروں کو دو ہزار روپے ماہانہ اضافہ کرنے کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ اس حکومتی پیشکش کا یہ پہلو تو قابل فہم ہے کہ کچھ نہ ہونے سے تھوڑی ہی سہی لیکن مسلسل امداد کی فراہمی سے معاشرے کے غریب ترین خاندانوں کو کچھ سہولت تو حاصل ہوگی۔ لیکن پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں لگ بھگ سو روپے فی لیٹر اضافہ کے بعد عام گھر کی معیشت اور انفرادی مصارف پر بڑھنے والے مصارف اس معمولی امداد سے پورا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ہر گھر کے کچھ افراد روزی کمانے یا تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے اور ٹرانسپورٹ کی سہولت سے استفادہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں براہ راست پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ناقابل برداشت اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ ملک میں ابھی تک سرکاری سطح پر عوام کو مواصلت کی سہولت دینے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یوں بھی ایسی سہولتوں پر دی جانے والی ’سبسڈی‘ کو آئی ایم ایف والے تنقیدی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اس معاملہ کا یہ پہلو بھی قابل قبول ہے کہ 7 کروڑ لوگوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ دے کر حکومت کو اربوں روپے ماہانہ کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ ایک ایسا ملک جو مالی خسارہ پورا کرنے کے لئے بیرونی قرضوں کا محتاج ہو چکا ہو، اس کے لئے ایسے مصارف برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔

ملکی آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لئے ماہانہ امداد کی سہولت قابل تحسین ہونے کے باوجود ناکافی ہے اور قومی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لئے دوسری مدات میں کمی کرنا پڑے گی، جس کی بالواسطہ طور سے قیمت عوام ہی کو ادا کرنا ہوگی۔ اس دوران حکومتی تساہل اور بے یقینی کی وجہ سے ملکی معیشت کو فنانس کرنے کے کسی منصوبہ پر پوری طرح کام شروع نہیں ہوسکا۔ اول تو شہباز شریف کو حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی علم ہونا چاہیے تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیے بغیر ملکی معیشت فعال نہیں ہو سکتی اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی و منجمد کرنے کے فیصلہ سے عالمی ادارے کے ساتھ طے شدہ امور کی خلاف ورزی سے مملکت پاکستان کے لئے شدید مشکلات پیدا کی گئی تھیں۔ اگر کسی وجہ سے مان لیا جائے کہ یہ ساری صورت حال وزیر اعظم بننے سے پہلے شہباز شریف کے علم میں نہیں تھی تو حکومت سنبھالنے کے پہلے ہفتے کے دوران ہی انہیں آئی ایم ایف سے تعلقات بحال کرنے کی اہمیت کا پوری طرح علم ہوجانا چاہیے تھا۔ اس کے باوجود اتحادی حکومت نے اہم معاشی فیصلے کرنے میں چھے ہفتے صرف کردیے۔

اس تساہل ہی کا نتیجہ ہے کہ مارکیٹ صرف قیاس آرائیوں اور اندازوں کی زد پر رہی اور اس کے نتیجہ میں ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اس وقت ایک ڈالر 212 پاکستانی روپوں کی حد عبور کرچکا ہے۔ اسٹک ایکسچینج بے یقینی کا شکار ہے، نیا سرمایہ آنا تو کجا ملکی سرمایہ دار بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ان کے وسائل بیرون ملک موجود ہیں تو انہیں فوری طور سے واپس پاکستان نہ لایا جائے۔ معیشت سے نابلد شخص بھی جانتا ہے کہ سرمایہ کاری اور زرمبادلہ وسائل کے بغیر پاکستانی معیشت بھیانک طوفان کی زد میں ہوگی۔ ملکی درآمدات 70 ارب ڈالر اور برآمدات محض 30 ارب ڈالر ہیں۔ یہ وسیع فرق پورا کرنے کے لئے تارکین وطن کے روانہ کردہ زر مبادلہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ میسر نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں مرکزی حکومت اگر فیصلے کرنے میں تاخیر کرے گی تو اس کا ملکی معیشت اور اس کے پسماندہ طبقات کی مالی حالت پر ناقابل برداشت بوجھ بڑھتا ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے اسی بوجھ کو کم کرنے کے لئے دو ہزار ماہانہ کی امداد کا چرچا کیا جا رہا ہے لیکن انہیں اپنی حکومت کی سست روی اور بے یقینی پر بھی غور کرنا چاہیے۔

صورت حال کا اندازہ ہونے کے باوجود وزیر اعظم محض دعوے کرنے اور مشکلات کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈالنے میں قوت تقریر صرف کر رہے ہیں حالانکہ حکومت اگر کوئی ایسا اچھا کام کرے گی جس سے عوام کی اکثریت کو فائدہ ہو گا تو اس کا چرچا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ موجودہ مالی حالات کا تقاضا ہے کہ تقریروں اور الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے اور ٹھوس اقدامات کے اشارے دینے یا وعدوں کی بجائے، باقاعدہ منصوبہ کے ذریعے ان پر عمل درآمد شروع کیا جائے۔ سرکاری مشینری کو فعال بنانے اور اس پر اٹھنے والے غیر ضروری مصارف میں فوری کمی ایک اہم قدم ہو سکتا تھا لیکن حکومت ابھی تک کوئی بولڈ اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اتحادی جماعتیں سیاسی ماٹو کے طور پر یہ اعلان کر سکتی تھیں کہ موجودہ مالی حالات کی وجہ سے حکومت کا کوئی سیاسی عہدیدار نہ تو تنخواہ لے گا اور نہ ہی دیگر سہولتوں سے استفادہ کرے گا۔ اس میں سیکورٹی پر اٹھنے والے اخراجات کو بھی شامل کیا جاتا۔ جس لیڈر کو اپنی زندگی عوامی بہبود اور ملکی معاشی حالت سے زیادہ پیاری ہے، اس سے کہا جاتا کہ وہ سیاسی خدمت گزاری کی بجائے کوئی اور کام کرنے کی کوشش کرے۔

اس قسم کا اعلان شاید قومی خزانہ کے بوجھ میں تو کوئی قابل ذکر کمی نہ کرلاتا لیکن اس کا نفسیاتی اور جذباتی اثر ضرور دیکھنے میں آتا۔ حکومت ملک کے عوام و خواص سے یکساں طور سے ’ایثار‘ کا تقاضا کر رہی ہے۔ حکومتی عہدیداروں کو سہولتوں و مراعات سے محروم کر کے کم از کم یہ علامتی تاثر قائم کیا جاسکتا تھا کہ قربانی مانگنے والی حکومت کے تمام ارکان اس ’ایثار‘ میں سب سے آگے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی سیکورٹی کی ذمہ داری بھی خود ہی قبول کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ہمارے برسر اقتدار طبقہ میں شامل سب ہی لوگ اس مالی حیثیت کے حامل ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام بھی خود ہی کر سکتے ہیں۔ جن کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں، یقین کرنا چاہیے کہ انہیں کسی سیکورٹی گارڈ کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں سیاسی لیڈروں کی سیکورٹی ایک اہم مسئلہ کے طور پر سامنے آئی ہے لیکن پاکستان میں سیکورٹی کے نام پر پروٹوکول دینے اور مراعات فراہم کرنے پر ان گنت وسائل صرف کیے جاتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی رکاوٹ سیاست دانوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے اور ملکی قیادت کو لوگوں کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

اسی طرح وزیر اعظم نے آج میڈیاسے باتیں کرتے ہوئے ملک کے امیر طبقات کو قومی خزانہ میں زیادہ حصہ ادا کرنے کا پابند کرنے کی بات بھی کی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ’ون ٹائم ٹیکس‘ عائد کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس طرح سینکڑوں ارب روپے جمع کیے جائیں گے۔ لیکن وفاقی کابینہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ منصوبہ بنانے اور اسے نافذ کرنے کے طریقہ کار کا اعلان کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ پاکستانی حکومت کی آمدنی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ ملک کے عوام و خواص، غریب و امیر یکساں طور سے ٹیکس ادا کرنے سے بچنا چاہتے ہیں۔ قومی وسائل میں اضافہ کا مزاج استوار نہیں کیا جا سکا۔ اس کی ایک وجہ حکمران طبقہ کا شاہانہ طریق زندگی ہے اور دوسری اہم وجہ سیاست دانوں پر بدعنوانی کے الزامات کا سلسلہ ہے جس سے عام لوگ ذمہ داری کی بجائے سرکاری وسائل میں خرد برد کو ضروری سمجھنے لگتا ہے اور اسے جائز حرکت بھی قرار دیتا ہے۔ بجلی چوری سے ہونے والے نقصانات اس حوالے سے صرف ایک مثال ہیں۔ سیلز ٹیکس کی مخالفت اور اس سے بچنے کے لئے اکاؤنٹس میں ہیرا پھیری دوسرا بڑی مثال ہے۔

یہ سماجی علتیں دور کرنے کے لئے اعتماد بحال کرنے کے علاوہ دوررس سرکاری اسکیموں پر عمل کرنا ہو گا جس میں اقربا پروری کو مکمل طور سے ختم کرنا پڑے گا۔ تاہم یہ سب طویل المدت منصوبہ بندی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ لیکن امیر طبقہ سے ون ٹائم ٹیکس یا محصول وصول کر کے فوری طور سے غریبوں کو دی جانے والی سہولتوں میں اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کو یہ بات بین السطور کرنے کی بجائے کھل کر حوصلہ سے کرنی چاہیے اور حکومت فوری طور سے فیصلہ کرے کہ کتنے اثاثے رکھنے والوں کو کتنے فیصد یکمشت ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ نادرا اور ایف بی آر کے پاس تمام ضروری اعداد و شمار موجود ہیں۔ ان کی بنیاد پر ایک فیصلہ کیا جائے اور چند روز کے اندر یہ ٹیکس وصول کر کے سرکاری خزانہ میں جمع کروایا جائے۔

شہباز حکومت کا ایک ایسا قدم ملکی معیشت کے لئے بوسٹر ڈوز کے مترادف ہو گا البتہ ان کی اپنی صفوں میں شامل سرمایہ داروں کو ضرور تکلیف پہنچے گی۔ کیا شہباز شریف یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک قومی مفاد سیاسی ضرورتوں سے زیادہ اہم ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments