العجل تو کہتے ہیں، آ گئے تو کیا ہو گا؟


سردیاں اب ہمارے ملک میں کم ہی ٹھہرتی ہیں۔ اور جتنی ہوتی ہیں، وہ بھی خشک اور سموگ میں لپٹی ہوئی۔ گرمی چھ سے نو مہینوں تک پھیل چکی ہیں اور بہار اور خزاں کے موسم ویسے ہی انسانوں کی نادانیوں میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور اگلے کچھ سالوں میں شاید ہم یہ کہنے کے قابل نہیں رہیں گے کہ پاکستان الحمدللہ چار موسموں سے نوازا ہوا ہے۔

گرما طویل ہو رہا ہے اور بارشیں روٹھ رہی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں یہ رحمت گھٹتے گھٹتے 200۔ 250 ملی میٹر سالانہ بارش تک چلی گئی ہے۔ حدت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب مئی کے مہینے میں بچوں کا اسکول جانا اور چھوڑنا محال ہوتا ہے۔ موسمی تعطیلات پیچھے ہوتے ہوتے اب جلدی شروع ہونے لگی ہیں اور اگست میں جب دوبارہ تعلیمی ادارے کھلتے ہیں تو بھی گرمی اور حبس عروج پر ہوتا ہے۔

جو صاحب استطاعت ہیں وہ اے۔ سی، کولر لگائے رکھتے ہیں۔ سولر سسٹم لگوا لیتے ہیں۔ جس سے گھر، دفتر اور دکانیں اندر سے تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں لیکن باہر کا درجہ حرارت مزید دہکنے لگتا ہے۔ باقی عوام گرمی کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کے بے قاعدہ ہنگامے کو بھی ہر پل سہتی ہے۔ کنکریٹ کی بادشاہت نے گرمی کی لہریں اس قدر بڑھا دی ہیں کہ ادھر بجلی رخصت ہوئی، ادھر بند کمروں اور گھروں میں وقت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یو۔ پی۔ ایس کی بیٹری لوڈ شیڈنگ کی طوالت کے سامنے ہار کر دم توڑ جاتی ہے۔ اور جہاں یہ عیاشی نہیں، وہاں گھر کی خواتین ہاتھ کے پنکھے جھل جھل کے بیزار ہوتی ہیں اور مردوں کی اکثریت گھر کے باہر ہوادار جگہوں کا رخ کرتی ہے۔

نہ پودوں کا پانی پورا ہوتا ہے۔ نہ فصلیں بارآور ہوتی ہیں۔ سبزیاں سورج کی تپش اور ماحول کی خشکی کی وجہ سے مرنے لگتی ہیں۔ موسمی پھلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ جس کے شاہد پچھلے سالوں کے اعداد و شمار ہیں۔ 2020 میں لکھے جانے والے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق 2040 تک ملکی زرعی پیداوار انھی وجوہات کے سبب 8۔ 10 فیصد کم ہو گی۔ موسمی تغیر کی وجہ سے متاثرہ ممالک میں ہمارا ملک پانچویں نمبر پر ہے۔

انسانوں کے سب حیلے جب بے زار ہونے لگتے ہیں تو اللہ کی رحمت سے امید بندھنے لگتی ہے۔ کہ بارش ہو جائے۔ گرمی کا توڑ بس یہی ہے۔ پودوں کی مٹی دھل جائے گی۔ پانی کے ذخائر بڑھیں گے۔ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گی۔ اجناس میں اضافہ ہو گا۔ اے۔ سی کا استعمال کم ہو جائے گا۔ لیکن گرما کے دن طویل ترین ہوتے جاتے ہیں اور راتیں بے رونق۔ اور دو بوندیں نہیں برستیں۔ جگہ جگہ نماز استسقا ادا کی جاتی ہیں۔ بار بار دعائیں کی جاتی ہیں لیکن بدلتے موسمی حالات کی وجہ سے مون سون میں تاخیر ہوتی جاتی ہے۔

اور جب بارش برستی ہے تو ہمارے شہروں کی منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیت اس قدر کم ہے کہ دو سے تین دن کے اندر اندر مسلسل بارش اربن فلڈنگ کا سبب بن جاتی ہے۔ نشیبی علاقے، تنگ گلیاں، نکاسی اور سیوریج کے ناقص نظام اور کسی بھی آفت کی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اچھے اچھے علاقے زیر آب جاتے ہیں۔ نشیبی اور پرانے علاقوں کی تو بات ہی نہ کی جائے۔ گٹر ابل پڑتے ہیں اور سڑکیں ڈوب جاتی ہیں۔ گھروں کے اندر پانی داخل ہو کر تہہ خانوں کو پانی سے بھر دیتا ہے۔

انسان بھی مرتے ہیں اور جانور بھی۔ املاک کا نقصان اس کے علاوہ۔ گھروں کے اندر رہنا دو بھر ہوتا ہے اور گھر سے نکلنا ناممکن۔ تیر کر ہی کوئی کنارا مل سکتا ہے۔ کیونکہ گلیاں اور سڑکیں تو پانی میں ایسی ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں کہ گاڑی تو دور، آپ پیدل بھی کہیں نہیں پہنچ سکتے۔ سابقہ پانچ سالہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان اربن فلڈنگ سے کس طرح متاثر ہو رہا ہے۔ کبھی کراچی میں ستر سالہ بارش کا ریکارڈ ٹوٹ رہا ہے اور کہیں راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی گنجان آباد علاقے زیر آب آ جاتے ہیں۔ باقی بڑی اور چھوٹی آبادیوں کے بھی یہی احوال ہیں۔ یعنی ہماری حکومتی ادارے، عوام اور شہری کسی بھی چیز کے لئے تیار نہیں۔ نہ بارش کی عدم موجودگی میں سخت موسم کے اور نہ بارشوں کے ہونے پر ان سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے۔ نہ ہو تو عذاب اور اگر ہو جائے تو زحمت۔

بھل صفائیاں، نکاسی اور سیوریج کے طریقوں کی مرمت، کھلی نالیوں کی تفصیلی بہتری، گٹرز کی فعالی، رہ گزروں اور شاہراہوں کے کھڈوں کی بھرائی، بارش کے اضافی پانی کو بچانے کا انتظام، موسمیاتی پیشن گوئی کی بنیاد پر ریڈ الرٹ علاقوں کے لئے پلان بی کا خیال، ننگی اور لٹکتی بجلی کی تاروں کی کوئی محفوظ حل، ٹرانسفارمرز سے ہونے والے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے امکانات اور ایسے کئی پہلو جن پر اداروں کی نظر بارش سے پہلے ہونی چاہیے۔ سب نظر انداز ہو رہے ہیں۔

اس لئے پیارے لوگو! ابر رحمت کی دعا بھی سوچ سمجھ کے مانگیں کیونکہ پاکستان میں آب و ہوا تیزی سے تبدیل اور تباہ ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے یا تو مون سون ہی دیر سے ہو گی یا پھر بے تحاشا پری مون سون۔ اور دونوں صورتیں خشک سالی، قحط یا اربن فلڈنگ کا سبب بنتی ہیں۔ جس کے لئے بحیثیت انفرادی اور مجموعی ہماری کوئی تیاری نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments