کیا آپ کی جوان بیٹی آپ سے دل کی باتیں کرتی ہے؟



اس سال فادرز ڈے پر میری کینیڈین بیٹی ایڈرئینا ڈیوس نے مجھے نہ صرف ایک محبت بھرا کارڈ دیا بلکہ ایک مہنگے ٹرکش رسٹورانٹ میں ڈنر کی دعوت بھی دی۔ ڈنر کے بعد کہنے لگی

’ میں آپ سے کچھ دل کی باتیں کرنا چاہتی ہوں اور مشورے بھی مانگنا چاہتی ہوں‘
’ میں ہمہ تن گوش ہوں‘

کہنے لگی اگلے مہینے میرا ماسٹرز کا پروگرام ختم ہو جائے گا اور میں سوشل ورکر بن جاؤں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ میرا بھی آپ جیسا ایک سائیکوتھیرپی کلینک ہو۔ آپ کی اس حوالے سے کیا رائے اور کیا مشورہ ہے؟

میں نے کہا بٹیا ماسٹرز کرنے کی مبارک۔ لیکن یہ وہ مقام ہے جہاں ایک راستہ اور مرحلہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہوتا ہے۔

یہ طالب علمی کی انتہا لیکن عملی زندگی کی ابتدا ہے۔

اس پیشے میں تجربہ سب سے اہم ہے۔ جو ابھی تمہیں نہیں ہے۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ تم تجربہ حاصل کرنے کے لیے کسی نفسیاتی ہسپتال میں کام اور ساتھ جزوقتی کلینک بھی شروع کرو۔ جوں جوں تمہارا تجربہ اور اعتماد بڑھے گا توں توں تم ہسپتال میں کام کم اور اپنے کلینک میں کام زیادہ کر سکتی ہو۔

ایک سٹوڈنٹ کے طور پر جب تم میرے کلینک میں ٹریننگ لے رہی تھی تو میں نے دیکھا تھا کہ مریض تمہاری ذہانت سے بہت متاثر تھے۔ اس لیے مجھے پورا اعتماد ہے کہ تم ایک کامیاب تھراپسٹ بنو گی۔ مجھے اس بات کی خوشی اور فخر ہے کہ تمہارے لیے دولت سے زیادہ خدمت اہم ہے۔ تم بے گھر لوگوں کے ساتھ کام کر چکی ہو اور تم نفسیاتی مسائل کے مریضوں کے بارے میں ہمدردانہ رویہ رکھتی ہو۔ یہ بہت قیمتی جذبہ ہے۔

پھر ایڈرئینا نے شادی اور محبت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ کہنے لگی میرا بوائے فرینڈ گیورگی مجھ سے بہت محبت کرتا ہے اور میرا خیال رکھتا ہے۔ وہ مجھے اپنے ماں باپ سے ملوانے بلگیریا بھی لے گیا تھا۔ انہوں نے میرا اپنی بیٹی کی خیال رکھا اور مجھے مقامی کھانے کھلائے۔ یہ علیحدہ بات کہ انہیں انگریزی نہ آتی تھی اور مجھے رومینیا میں پیدائش کے باوجود بلگیرین نہ آتی تھی۔ گیورگی میرے اور اپنے والدین کے درمیان ایک مترجم ایک ٹرانسلیٹر تھا۔

میں نے ایڈرئینا سے کہا کہ ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ جو لوگ زندگی کے دو صحیح فیصلے کرتے ہیں وہ خوش اور کامیاب رہتے ہیں۔

پیشے کا فیصلہ
اور
شریک سفر کس فیصلہ
مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ تم نے دونوں فیصلے صحیح کیے ہیں۔

پھر ایڈرئینا کہنے لگی آپ میرے حقیقی باپ نہ ہوتے بھی میرے جذباتی اور ذہنی باپ ہیں۔ میں سہیلیوں سے کہتی ہوں کہ آپ میرے دوست بھی ہیں اور باپ بھی اس لیے میں آپ کو اپناFRIENDLY FATHERسمجھتی ہوں۔

جب میں ڈنر سے واپس آ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ پچھلے چند برسوں میں میں نے ایک انکل اور ماموں بن کر باپ کا کردار کیا ہے اور میں اس رول سے بہت محظوظ بھی ہوا ہوں اور مسحور بھی۔ میں نے ان جوان بچوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

جب میری بہن عنبر نے عہد جوانی میں مجھ سے پوچھا تھا کہ آپ نے بچے کیوں نہیں پیدا کیے تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھو کہ یہ تو تمہارے چار بچے ہیں ان میں سے دو تمہارے ہیں اور دو میرے۔ جب میں یہ کہہ رہا تھا اس وقت مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ برسوں بعد عنبر کے دو بچے ذیشان اور وردہ کینیڈا میرے پاس آ کر رہیں گے۔

پہلے میرا بھانجا ذیشان کئی سال میرے پاس رہا اور پھر میری بھانجی وردہ میرے پاس رہی۔ ہم نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔

پچھلے ہفتے عنبر نے جب بتایا کہ ذیشان اور وردہ دونوں کو اپنے محکمے سے بہت انعام و اکرام ملے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔

میں ایڈرئینا کو اپنی کینیڈین بیٹی اور وردہ کو اپنی پاکستانی بیٹی کہتا ہوں۔ وہ دونوں ایک دوسری کی دوست بھی ہیں اور بہنیں بھی۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ وردہ کی بیٹی الیزا (جسے میں پیار سے مونالیزا کہتا ہوں ) ایڈرئینا کو اپنی خالہ سمجھتی ہے اور ایڈرئینا الیزا سے بہت پیار کرتی ہے۔

جب وردہ میرے ساتھ رہتی تھی اور سکول جاتی تھی تو ہم مل کر کھانے بھی پکاتے تھے اور گپ بھی لگاتے تھے۔ وردہ بہت خوش مزاج بچی ہے۔ ایڈرئینا کی طرح جب اس نے گریجوایشن کی تو نہ صرف مجھ سے دل کی باتیں کیں بلکہ مجھے اپنے گریجوایشن پر بھی بلایا۔ اس دن میں نے ایک نثری نظم لکھی جو آپ کی خدمت میں حاضر ہے

عورت کی ڈگری اور چار نسلیں
آج ایک اہم دن ہے
آج میں بہت خوش ہوں
آج میری بھانجی وردہ کی کونووکیشن ہے
میں بڑے فخر سے اس تقریب میں شرکت کر رہا ہوں
وہ گاؤن پہن کر
سٹیج پر ڈگری وصول کر رہی ہے
اور میں سوچ رہا ہوں
میری نانی سرور کی تعلیم دو جماعتیں تھی
وہ صرف اپنا نام لکھ سکتی تھیں
میری والدہ عائشہ نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی
انہیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا لیکن
ان کے روایتی والد اور بھائی نے کہا
تم نے شادی کرنی ہے
بچے پیدا کرنے ہیں
کھانا پکانا ہے
سلائی کرنی ہے
زیادہ پڑھائی نہ کرو
رشتہ ملنا مشکل ہو جائے گا
میری بہن عنبر کی گیارہویں جماعت مین شادی کر دی گئی
اسے سسرال بھیج دیا گیا
وہ بچے پالتی رہی اور ساری عمر
’ حور‘ ’زیب النسا‘ اور ’خواتین ڈائجسٹ‘ کے افسانے پڑھتی رہی
میری بھانجی وردہ کینیڈا میں چار سال میرے ساتھ رہی
وہ کالج گئی
اس نے بڑی محنت سے ڈگری حاصل کی
آج میں
اس کی گریجوایشن کی تقریب میں شرکت کر رہا ہوں
اور سوچ رہا ہوں
ہمارے خاندان میں
عورت کو ڈگری حاصل کرنے میں
چار نسلیں لگ گئی ہیں
وردہ بخوبی جانتی ہے
اس کی ڈگری تعلیم کی وہ کنجی ہے
جس سے اس کے لیے
زندگی کے بہت سے دروازے کھل جائیں گے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments