حضور ایک ایٹمی طاقت کی سربراہی کا معاملہ ہے


پاکستان کی سیاسی قیادت، سیاست دانوں اور عوام سے گزارش ہے کہ آپ سب کو یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ آپ ایک ایٹمی قوت رکھنے والی ریاست کے شہری ہیں اور یہ اسلامی دنیا کی واحد ریاست ہے جو ایٹمی طاقت کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ اہلیت نہ صرف ذمہ دارانہ رویے کا تقاضا کرتی ہے بلکہ یہ دنیا کے ایوانوں میں توجہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ بہت ساری امیدیں، تحفظات، مفادات، خدشات اور اختلافات بھی وابستہ کیے ہوئے ہے جو انتہائی محتاط انداز کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔

میں پاکستان کے تمام عوام کی نمائندگی کو یقینی بنانے کیے مذہب کا ذکر نہیں کرنا چاہتا مگر دنیا میں چونکہ پاکستان کو ایک اسلامی ایٹمی طاقت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لہذا اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ملک کی سربراہی کے لئے اپنے اندر قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار پر عمل بھی ضروری ہے۔ اس قوت کی سربراہی ایک لحاظ سے اسلامی دنیا کی نمائندگی ہے اور قیادت پر اٹھنے والے سوالات نہ صرف ہماری ریاست بلکہ اس نظریے کو بھی متاثر کرتے ہیں جن کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا لہذا ہمیں ایک ایسی مثال قائم کرنا ہوگی جو قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ اپنے نظریے کی سربلندی کا بھی سبب بنے جس کی توجہ انسانیت ہو اور اس کو دنیا کے نظریات میں پذیرائی بھی حاصل ہو۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ ریاست مذہبی اقلیتوں کی حقوق کی محافظ ہے۔

ایک جمہوری ریاست ہونے کے ناتے ہمیں بحیثیت شہری اس بات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ طاقت کا سرچشمہ ہم عوام ہیں اور ہماری سوچ اور اختیار ہی اس بات کی بنیاد ہے کہ ہم کس قسم کی قیادت چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے پاس اختیار ہے کہ ہم اس ملک کی قیادت کے کردار کو طے کریں۔ اگر بنیاد سے طاقت کا استعمال صحیح سمت میں ہو گا تو اس سے وجود میں آنے والی سربراہی سے فیصلے بھی ٹھیک ہوں گے اور اگر طاقت کی سمت ذاتی انا، مفادات اور ضد پر رکھ دی گئی تو پھر اچھے فیصلوں کی توقع بھی فضول ہوگی۔

بحیثیت قوم ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا اور انا، ذاتی مفادات اور تعصبات سے بالا تر ہو کر سیاست کرنا ہوگی۔ سیاست انتخابات میں حصہ لینا اور ملکی معاملات کی ذمہ داری اور سربراہی حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ سب سے اہم بنیاد عوامی نمائندوں کا ذمہ دارانہ انتخاب ہے جو نہ صرف سیاسی جماعتوں سے ذمہ دارانہ رویے کا تقاضا کرتی ہے بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقے سے نمائندے کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کو مد نظر رکھے کہ کیا وہ اس قابلیت اور صلاحیت کا حامل ہے کہ ہمیں اچھی سربراہی دینے میں مدد دے سکے۔

اور یہ اس وقت تک صحیح معنوں میں ذمہ داری ادا نہیں ہو سکتی جب تک ہمارے اندر اس ریاست کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا نہ ہو جائے۔ ہمیں ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا ہو گا جو عوام کی صحیح نمائندگی اور ملکی قیادت کے چناؤ کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہوں تب ہی ہم ان سے اچھے سربراہ کی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔

میرے خیال میں ان نمائندوں کے اندر قائدانہ صلاحیتوں : عوامی مسائل و قومی معاملات سے واقفیت اور ان کے بارے ایک واضح سوچ، ایمانداری، خود اعتمادی، قومی جذبہ خدمت سے سرشار دل، آئین و قانون کی پاسداری کی عملی مثال، شہریوں کے حقوق کی پاسداری اور حصول میں مدد کا تجربہ، اعلیٰ اخلاق، قانونی سازی کے عمل سے واقفیت و تجربہ اور سب سے بڑھ کر وہ کسی عہدے یا اختیار کے حصول کی خواہش نہ رکھتا ہو، کا ہونا ضروری ہے۔

سرچشمے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دفعہ سربراہی یا حکمرانی کا اختیار دے دیا اور ذمہ داری ختم۔ نہیں ایسا نہیں بلکہ طاقت کا سرچشمہ ہی اس طاقت کا اصل مرکز ہوتا ہے اور تواتر سے طاقت وہاں سے ہی مہیا ہو رہی ہوتی ہے اور اگر اس طاقت کی برقی شعاعیں کٹ گئیں تو طاقت کی افادیت کا عمل متاثر ہو گا اور اس کا اثر اس کے فیصلوں پربھی پڑے گا لہذا قیادت اور سربراہی کو طاقت کی رسائی اور ساتھ ساتھ اس کی نگرانی کا عمل بھی جاری رکھنا ہے۔ ان کو یہ احساس دلائے رکھنا ہے کہ تمھاری حقیقی طاقت کی بنیاد ہم ہیں اور اگر یہاں سے برقی طاقت کٹ گئی تو تم ایک دن بھی اس ذمہ داری پر فائز نہیں رہ سکتے۔

اصل بگاڑ ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عوام اور ان کی قیادت کے درمیان رابطہ کٹ جائے تو وہ اپنی طاقت کی بنیاد کہیں اور جوڑ لیتے ہیں جس کی وجہ سے عوام اور ان کے درمیان فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب عوام کا کردار ختم ہو گیا ہے اور وہ حکمران بن گئے ہیں ان کا کام حکم چلانا ہے اور عوام کا کام حکم کی تعمیل ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو قومی خدمت کی ذمہ داری دے کر بھیجا گیا ہے اور اگر انہوں نے اس میں کوتاہی برتی تو ان سے طاقت واپس لے لی جائے گی۔

عوام کو ان کی شب و روز کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی ہوتی ہے تب جا کر ان کے اندر قومی احتساب اور جوابدہی کا احساس موجود رہے گا۔ عوام کو قانون سازی سے لے کر ترقیاتی منصوبوں تک کے عمل کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ اور سارے عمل کی نگرانی کرنی ہوتی ہے۔

کیسے؟ یہ سارا عمل اور اس کا طریقہ کار پاکستان کے آئین و قوانین کے اندر موجود ہے جس سے واقفیت ضروری ہے اور اس کی مشق کے لئے ہمیں اپنی بنیادی سطح پر سماجی تنظیموں کی صورت میں ماڈلز کی ضرورت ہے جن میں اچھے کردار اور شہرت کے لوگوں کو آگے آنا چاہیے جو عوام کو مسلسل راہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کی ایما پر بہتری کے لئے عمل پیرا بھی رہیں۔

ایسا نہیں کہ ہمارے اندر اس عمل کو چلانے کے لئے اچھے کردار اور شہرت کے لوگ موجود نہیں بلکہ دراصل ان لوگوں کو ان عہدوں اور اختیارات کی خواہش نہیں اور پبلک کی جب سوچ بدلے گی تو وہ ایسے لوگوں کو زبردستی اپنی نمائندگی اور نگرانی کے لئے میدان میں لے کر آئے گی لیکن اس کی شرط ہماری سوچ کی مثبت سمت میں تبدیلی ہے۔

جب یہ انقلابی سوچ پیدا ہو جائے گی تو عوامی نمائندگی سے لوگ بھاگیں گے کیونکہ یہ ایک بہت ہی ذمہ داری کا کام ہے اور پبلک پکڑ پکڑ کر اچھی شہرت اور کردار کے لوگوں کو مجبور کر رہی ہوگی اور ان کو یہ احساس دلا رہی ہوگی کہ ہم سب اس دنیا میں ان معاملات کو چلانے کے لئے اپنی اپنی قابلیت اور اہلیت کی نسبت سے جواب دہ ہیں۔

یہ اچھی قیادت کا حصول اور جمہوریت، تسلسل کوشش کا نام ہے جب یہ عمل ایک صحیح سمت جاری ہو جاتا ہے تو پھر منزل دور نہیں ہوتی۔

آخر میں پھر ایک بار عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ریاست خداداد اس مالک کا فضل ہے جس نے ہمیں وسائل سے مالا مال کیا اور دنیا میں سربلندی عطا کی۔ اگر ہم اس کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں شوق سے اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا اور اس بارے ہم سے جوابدہی بھی ہوگی۔

اگر ہمارے اندر قومی غیرت اور نظریاتی حمیت موجود ہے تو پھر ہم کبھی بھی اس ریاست کی باگ ڈور، غیر سنجیدہ، ناپختہ، نا اہل، بد اخلاق، مفاد پرست اور حواس باختہ لوگوں کے ہاتھ میں جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اور ایک ذی شعور انسان اور ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے اس بات کا ثبوت دیں گے کہ اپنی حد تک ہم اس میں کوتاہی نہ برتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments