شائستگی کی ایک منفرد روایت


اپنی پروفائل سے متعلق دستاویزی پروگرام پر ان کا یہ فیڈ بیک اس قدر فوری اور غیر متوقع تھا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ یہ کیوں کر ممکن ہوا۔ اس میں یہ پہلو مزید حیران کن تھا کہ انھیں گھر کا پتہ کیوں کر معلوم ہوا ( کہ اس کی وصولی اسی پتے پر ہوئی ) ۔ وقت کی پابندی خواہ وہ فیڈ بیک کے حوالے سے ہی کیوں نہ ہو، وہ تو بعد میں ان سے ہونے والی ملاقاتوں اور ان کے بارے میں ان کے نیوز کے ساتھیوں اور ٹیلی وژن کے تمام شعبوں سے بارہا سن کر سمجھ میں آنے والی بات لگتی تھی، مگر گھر کے پتے کا معمہ حل ہونے کو نہ آتا تھا۔

پہلے اس دستاویزی پروگرام سیریز کا پس منظر سنتے چلیں۔

پاکستان کے چالیس سالہ یوم آزادی کے حوالے سے 1997 میں پی ٹی وی کے تمام مراکز کو میری پہچان پاکستان کے نام سے پروفائل ڈاکیومینٹریز بنانے کے لئے کہا گیا تھا جن میں ملک کی ممتاز شخصیات کے کار ہائے نمایاں اور قابل قدر کردار کا احاطہ کیا جانا تھا۔ مزاح نگار شفیق الرحمان، ماہر بشریات احمد حسن دانی، احمد فراز، فاروق قیصر، گالف چیمپین تیمور حسن، مصور غلام رسول کے لئے ذمہ داریاں یہاں سپرد تھیں۔ مگر ایک دن پروگرامز مینیجر نے اس میں ایک اور نام کا اضافہ کرنے کو کہا جو شاید پہلے کسی اور ساتھی کے حوالے کیا گیا تھا۔

نام سنتے ہی یوں لگا جیسے کوئی دیرینہ آرزو پوری ہو گئی ہو۔ ہر چند کہ پی ٹی وی کے محکماتی تقسیم کی وجہ سے پروگرام اور نیوز، علیحدہ شناخت کے حامل شعبے تھے اس لئے ان سے، اپنی اپنی جداگانہ مصروفیات کی نوعیت کی وجہ سے کبھی ملاقات کا موقع میسر نہیں آیا تھا، یہ الگ بات کہ پاکستان میں ایسا کون ہو گا جو ٹی وی پر خبریں دیکھتا ہو اور ان کا معترف اور مداح نہ ہو۔

ان سے اجنبیت کا اندازہ، ان ہی دنوں ممتاز اداکارہ نرگس رشید کی ایک گفتگو سے بھی ہوا جو ان دنوں کسی ڈرامہ سیریل کا حصہ تھیں اور اس طرح دونوں کی مصروفیات کے سبب، میک آپ روم دونوں کے ملنے کی مستقل جگہ بن چکی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس دستاویزی پروگرام کے بارے میں یہ تحفظات تھے کہ اس سے قبل انھوں نے اپنے پورے کیریر میں پریس کو کبھی کوئی انٹرویو نہیں دیا تھا۔ ( تب یہی پریس درحقیقت میڈیا سے تعبیر ہوتا تھا ) یہ دستاویزی پروگرام عملی طور پر دیکھنے والوں کے لئے ان کا پہلا تعارف بننا تھا سو خدشات بھی تھے اور ( پوری دیانت داری سے ) ان کا بر ملا اظہار بھی، کہ جانے اس پروگرام کا نتیجہ کس شکل میں ظاہر ہو۔

اسی اجنبیت کے ساتھ پروگرام کے خد و خال کے حوالے سے، پہلی ملاقات پی ٹی وہی کے ٹیکنیکل ایریا میں ایک سٹوڈیو کے کنٹرول روم میں طے پائی۔ اس پروگرام سیریز میں ہیڈ کوارٹرز کی طرف سے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ اس کا فارمیٹ خود سینٹرز نے بنانا تھا کہ اس میں میزبان ہو یا نہ ہو۔ تمام مراکز میزبان کی شمولیت کے قائل ہوئے مگر اتفاق کہیے کہ یہاں اتفاق مونو لاگ پر ہوا۔ پچیس منٹ کے پروفائل پروگرام میں نو دس منٹ میزبان کی نذر کر دینا، منتخب شخصیت کے ساتھ بھی اور دیکھنے والوں کے ساتھ بھی، زیادتی محسوس ہوتی تھی جو شخصیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

یوں اس اتفاق رائے پر اجنبیت ذرا کم ہوئی۔ پروگرام پر مزید تفصیل کے تبادلے کے دوران ان سے جب یہ جاننے کی خواہش کی گئی کہ وہ کن شخصیات کی رائے، اس پروگرام میں شامل ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس پر انھوں نے اسلم اظہر، انیتا غلام علی، ریڈیو پاکستان کے سینئر انگریزی نیوز ریڈر محمد ریاض اور راحت کاظمی کے نام لئے۔ باقی تین نام تو نیوز اور براڈ کاسٹنگ سے ہی تعلق رکھتے تھے مگر راحت کاظمی کا نام بہ ظاہر اس فہرست میں مختلف لگتا تھا۔

شخصیت کے تحقیقی مرحلے میں یہ عقدہ کھلا کہ انھوں نے صرف ادب میں ٹاپ ہی نہیں کیا بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اتنے ہی کمالات دکھائے ہیں۔ ان ہی میں ایک اعزاز، ملک کی بہترین مقررہ ہونا بھی شامل ہے اور راحت کاظمی کی رائے کے لئے بھی اسی لئے کہا گیا کہ تب وہ بھی گورڈن کالج راولپنڈی کی طرف سے اس میدان کے نام ور شہسوار بھی تھے اور ( سی بی کالج راولپنڈی کی نمائندگی ) کے مد مقابل بھی! تاہم یہ خواہش اس لئے پوری نہ ہو سکی کہ اس دستاویزی پروگرام کی تکمیل کے دوران راحت کاظمی مسلسل ملک سے باہر تھے۔ اسی طرح انیتا غلام علی صاحبہ بھی اپنی مصروفیات کی وجہ سے، رائے دینے سے قاصر رہیں۔

مختلف موقعوں پر تبادلہ خیال کے دوران، انھوں نے پروگرام کے لئے اپنی پسند کی ایک انگریزی نظم پڑھنے کی خواہش کی۔ اس سے قبل اس پروگرام کے ابتدائی خاکے کے تحت اس کا اختتام ان کے آٹو گراف پر سوچا گیا تھا مگر اس تبدیلی نے ان کے زبان و ادب اور براڈ کاسٹنگ کی خوبیوں کو یکجا کر کے ان کی شخصیت کو مزید نمایاں کر دیا جو محض آٹو گراف سے غالباً ممکن نہ تھا، اور اب جسے اس پروگرام کی ترتیب میں ان کی نظم کی ادائیگی سے پہلے جگہ دے دی گئی تھی۔

گھر میں ریکارڈنگ کے دوران دیواروں پر سجی خوبصورت پینٹنگز کے بارے میں انکشاف ہوا کہ یہ سب آپ کی اپنی تخلیقات ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ باغبانی، اور وائٹ واش میں بھی کسی بیرونی مدد سے احتراز کیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس حالت میں کیا جاتا ہے کہ ( کالج کی ) تدریس اور ( ذرائع ابلاغ کی ) براڈکاسٹنگ بھی برابر ذمہ داری، خوش اسلوبی اور فرض شناسی سے جاری رہے۔

اس سے زیادہ ان خصوصیات کا اظہار کیا ہو گا کہ کسی بھی ادارے کی جانب سے ان پر تاخیر سے آنے کی شکایت، ہمیشہ حسرت ہی رہی۔ کالج کے لئے ہمیشہ خود ڈرائیونگ کی سو ان کا استدلال تھا کہ ڈرائیور ہو، تو الزام اس پر دھرا جا سکتا ہے، اس صورت میں جب اسٹیئرنگ پر خود ہوں تو دیر ہونے کا سوال، کیوں کر پیدا پوتا۔

پروگرام کی ریکارڈنگز کے دوران جب ان کے پرایڈ آف پرفارمنس کا تذکرہ ہوا تو یہ یادگار ریکارڈنگ تب نیوز لائبریری میں باوجود تمام تر کوشش کے دستیاب نہ ہوئی۔ یہ تاریخی اعتبار سے اس قدر اہم حصہ تھا کہ اسے نظرانداز کرنا کسی طور مناسب نہ تھا۔ ان سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ ریکارڈنگ ان کے پاس وی ایچ ایس ٹیپ پر موجود ہے جو انھوں نے وعدے کے مطابق اگلے روز بھجوا بھی دی۔ اسے تیکنیکی اعتبار سے مطلوبہ فارمیٹ پر منتقل کر لیا گیا تاکہ اس کی کوالٹی کو مقدور بھر بہتر کر لیا جائے۔

پرائڈ آف پرفارمنس پر مبنی، اس ٹیپ کی واپسی پر جب یہ احساس ہوا کہ اس کا کور اس پر موجود نہیں ہے اس لئے یہ مناسب سمجھا گیا کہ اسے اس حالت میں لوٹانے کی بجائے، کسی اور لفافے میں رکھ کر یہ ٹیپ واپس کی جائے۔ دفتر سے جلدی میں جو لفاف دستیاب ہوا، کسی نے اس میں وہ ٹیپ رکھ کر واپس بھیج دی۔ یہی وہ جلد بازی تھی جس کے سبب وہ معمہ حل ہوا کہ گھر کا پتہ کیسے منکشف ہوا۔

درحقیقت یہی وہ لفاف تھا جس پر درج پتہ، لاعلمی میں ان تک پہنچ گیا۔ جس کا انتہائی حاضر دماغی ( اور نہایت محبت ) سے استعمال کیا گیا کہ اس دستاویزی پروگرام کی ٹیم حیران تھی کہ اتنا فوری فیڈ بیک جو ایک تہنیتی کارڈ کی صورت میں تھا، کسی کے ہاتھ بھجوانا تو ممکن تھا، مگر عام ڈاک سے پروگرام کے آن ائر جانے کے دوسرے ( یا تیسرے ہی دن ) اس کا وصول پانا، وقت کا کوئی انتہائی پابند ہی ایسا کر سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments