معیاری سوالات طلبہ کے سیکھنے کا اہم ذریعہ (حصہ اول)


امتحان زندگی کے کسی پہلو کا ہو یا تعلیمی سفر کا، انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ زندگی امتحان پہلے لیتی ہے اور سکھاتی بعد میں ہے، جب کہ تعلیم سکھاتی پہلے ہے اور امتحان بعد میں لیتی ہے۔

جانچ یا امتحان طلبہ کے حاصلات تعلم کے تعین اور ان کے حصول میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ جس طرح کا امتحانی نظام متعارف ہو گا اسی طرح ہی کمرۂ جماعت میں درس و تدریس ہوگی اور سیکھنے کا عمل ہو گا۔ اگر ایک امتحان میں صرف حقائق پوچھے جائیں گے تو اس کا اثر اساتذہ اور تعلیمی اداروں پر یہ پڑے گا کہ وہ صرف حقائق ہی یاد کروائیں گے۔ دوسری طرف اگر امتحانی نظام کسی مضمون کے مختلف تصورات کی بہتر تفہیم، عملی زندگی میں ان کے اطلاق، جائزے، تخمینہ لگانے، تجزیے اور تخلیق کی حوصلہ افزائی کرے تو یقیناً اساتذہ اور طلبہ بھی سکھانے اور سیکھنے کے عمل میں اسی طرح کی حکمت عملی اپنائیں گے۔ مؤخر الذکر طریقۂ کار وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ طلبہ روایتی نظام تعلیم سے نکل کر تنقیدی سوچ رکھنے والے اور اختراعی صفات کے حامل شہری بن سکیں۔

مختلف امتحانات کے الگ الگ تشخیصی اجزا (assessment tools) ہوتے ہیں، مثلاً: تحریری امتحانات، زبانی امتحانات، عملی امتحانات، مشاہدات، گروہی امتحانات، پورٹ فولیو وغیرہ۔ اگر تحریری امتحانات کے اجزا کی بات کریں تو اس میں معروضی سوالات (مثلاً: خالی جگہیں پر کرنا، درست اور غلط جوابات والے سوالات، دو ایک جیسی چیزوں یا صفات کو ملانے والے سوالات اور کثیر الانتخابی سوالات) ، مختصر جوابات اور طویل جوابات والے سوالات شامل ہیں۔ ذیل میں ہم کثیر الانتخابی (حصہ اول) ، مختصر جوابات اور طویل جوابات والے سوالات، اور مارکنگ اسکیم (حصہ دوم) کا تذکرہ کریں گے۔

کثیر الانتخابی سوالات (Multiple Choice Questions۔ MCQs)

عام طور پر ایم سی کیو میں کوئی مسئلہ، صورت حال، بیان، منظر نامہ، گراف، ڈائیگرام، تصویر، ڈیٹا، مختصر اقتباس، تصور وغیرہ (مثالیں آخر آئیں گی) دیا جاتا ہے جسے ماہرین اسٹیم (stem) کہتے ہیں۔ اسٹیم کے بعد سوال یا ہدایات دی جاتی ہیں کہ طلبہ کو اس سوال میں کرنا کیا ہے۔ البتہ ہر ایم سی کیو میں اسٹیم کا ہونا ضروری نہیں ہے، کچھ ایم سی کیوز میں براہ راست سوال یا ہدایات بھی دی جاتی ہیں، جنہیں لیڈ ان (lead-in) کہا جاتا ہے۔

لیڈ ان کے بعد طلبہ کو درست جواب کا انتخاب کرنے کے لیے کچھ اختیارات (options) دیے جاتے ہیں۔ یہ اختیارات تین سے پانچ تک ہو سکتے ہیں، تاہم! دنیا بھر میں زیادہ تر چار اختیارات والے ایم سی کیوز رائج ہیں۔ یہ اختیارات جتنے زیادہ ہوں گے طلبہ کے لیے اندازہ (تکہ) لگانے کا تناسب کم تر ہوتا جائے گا۔ درست جواب کے علاوہ باقی اختیارات بہ ظاہر معقول اور قرین قیاس ہوتے ہیں (جنھیں انگریزی میں distractors کہتے ہیں ) جو کہ طلبہ کی اس مخصوص سوال یا تصور کے حوالے سے توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ distractors عام طور پر زیر بحث عنوان کے بارے میں غلط فہمی، غلط رائے یا غلط وضاحت پر مبنی ہوتے ہیں۔ چوں کہ یہ باہمی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ طلبہ کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ان قریبی distractors میں سے درست جواب کون سا ہو گا۔

ایم سی کیوز بنانے سے قبل درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔
1۔ سوالات کس سطح کے طلبہ کے لیے بنا رہے ہیں؟
2۔ کس مضمون کے سوالات بنا رہے ہیں؟
3۔ کس حاصل تعلم کو جانچنا مقصود ہے؟

4۔ سوال کی علمی سطح کیا ہوگی؟ [مثلاً: (جاننا) ، (سمجھنا) ، (اطلاق) ، (تجزیہ) ، (تخمینہ لگانا) یا ( تخلیق) ]؟

5۔ سب سے ضروری بات یہ کہ ایک ایم سی کیو میں ایک ہی تصور کی جانچ کی جائے۔
ایم سی کیوز بناتے وقت یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ:
1۔ آپشنز کی لمبائی کم و بیش ایک جتنی ہو۔
2۔ قطعی اور مطلق الفاظ مثلاً: ہمیشہ، کبھی نہیں اور تمام وغیرہ کا استعمال نہ ہو۔

3۔ کچھ مبہم تعددی اصطلاحات مثلاً: شاذ و نادر، اکثر، کبھی کبھار وغیرہ بھی ایم سی کیوز کا حصہ نہ بنائیں تو سوال کا حسن نمایاں ہو گا۔

4۔ ”درج بالا تمام“ ، ”الف اور ج دونوں“ یا ”درج بالا میں سے کوئی نہیں“ جیسے الفاظ ایک کم زور ایم سی کیو کی علامات ہیں۔

5۔ سوالات ترتیب دیتے ہوئے قواعد اور الفاظ کی آپس میں مطابقت کے حوالے سے بھی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ورنہ لسانی اشاروں سے طلبہ بغیر سوچے سمجھے جواب تک پہنچیں گے۔ مثلاً:

Q: Babar Azam is an
A.best fielder.
B.wicket keeper.
C.eminent batter.
D.very fast bowler.

اس سوال کا جواب آرٹیکل an کی وجہ سے کوئی بھی بندہ دے سکتا ہے کیوں کہ واویل سے شروع ہونے والا ایک ہی لفظ eminent آیا ہے۔ اصولاً اس سوال میں an کے ساتھ آرٹیکل a بھی آنا چاہیے تھا۔ مزید یہ کہ آپشنز میں ایک اور واویل والا لفظ شامل کرنا چاہیے تھا تاکہ aاور an کے لیے آپشنز کا توازن برقرار رہتا۔

ایم سی کیوز کے فوائد:
1۔ ایم سی کیوز چیک کرنے، بچوں کی تفہیم جانچنے اور نتیجہ اخذ کرنے کا تیز ترین موقع فراہم کرتے ہیں۔
2۔ اس میں طرف داری (یعنی معروضی طور پر) کے بغیر نمبر دینے کا موقع ملتا ہے۔

3۔ ایم سی کیو کو علمی صلاحیتوں کے وسیع دائرۂ کار کی پیمائش کے لیے تقریباً تمام سطحوں پر موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

4۔ صحیح اور غلط والے معروضی سوالات کے مقابلے میں ایم سی کیوز میں اندازہ لگا کر جواب دینے کا تناسب کم ہوتا ہے۔

5۔ ایم سی کیوز میں مختلف آپشنز کی موجودگی کی وجہ سے طلبہ کو موثر رائے (فیڈ بیک) فراہم کر سکتے ہیں۔
6۔ آن لائن امتحانات کے طور پر آسانی سے نافذ العمل ہے۔
مثال نمبر 1 : ”مرزا غالب دوستوں کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے تھے۔“
درج بالا جملے کے خط کشیدہ حصے میں کون سی اصطلاح استعمال ہوئی ہے؟
A۔ تشبیہ
B۔ محاورہ
C۔ استعارہ
D۔ مجاز مرسل

مثال نمبر 2 : ’پاکستان میں 10.9 فیصد آبادی 0۔ 4 سال کی عمر کے درمیان بچوں کی ہے اور 21.2 فیصد آبادی 14۔ 5 سال کے عمر کے لوگوں کی ہے۔ ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے افراد پر مشتمل ہے جیسا کہ 61.4 فیصد لوگ 69۔ 15 سال کی عمر کے درمیان موجود ہیں‘ ۔

(اکنامک سروے آف پاکستان 17۔ 2016 (
درج بالا شماریات واضح کرتی ہے کہ معاشی ترقی میں اضافے کے لیے حکومت کو کس کی ترقی پر خرچ کرنا چاہیے؟
A۔ شاہراہوں اور بنیادی ڈھانچے پر
B۔ ریڈیو اور مواصلات کے شعبوں پر
C۔ اسکولوں اور پیشہ ورانہ اداروں پر
D۔ ہسپتال اور بزرگوں کے مراکز کی تعمیر پر

مثال نمبر 3 : انسانی جسم کے خلیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک ملحد سائنسدان نے خدا کو مان لیا۔ اس نے دیکھا کہ ڈی این اے کوڈ ایک کمپیوٹر پروگرامنگ لینگوئج سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے۔ اسی طرح ہمارے جسم کے ہر خلیے میں بھی ایک مفصل ہدایت والا کوڈ ہوتا ہے، جو آدمی کے جسم کی رہنمائی اسی انداز سے کرتا ہے، جس طرح اسے بڑھنا چاہیے۔

دیے گئے بیان کے مطابق اس ملحد سائنسدان نے ڈی این اے کوڈ سے متعلقہ معلومات کو قرار دیا ہے کہ یہ
A۔ خلیہ جسم کا بنیادی جزو ہے۔
B۔ سائنس کی ایک بڑی دریافت ہے۔
C۔ خدا کے موجود ہونے کی دلیل ہے۔
D۔ خدا سے متعلق اپنے پرانے نظریے کی تصدیق ہے۔

مثال نمبر 4 :
درج بالا تصویر اشیا کے بدلے اشیا کی مبادلہ کاری کی نشان دہی کرتی ہے اور یہ جانی جاتی ہے بحیثیت
A۔ نو آبادیاتی نظام کے۔
B۔ مبادلہ کاری کے تجارتی نظام کے۔
C۔ تحریری (charter) سند کے معاشی تجارتی نظام کے۔
D۔ بین الاقوامی دوطرفہ تجارتی نظام کے۔

مثال نمبر 5 : اسلم اور شمشیر نے شراکت داری کی بنیاد پر ایک کاروبار شروع کیا۔ اسلم نے اپنی محنت اور شمشیر نے دفتر کے لیے اپنی عمارت کی حصہ داری کی۔ معاہدہ شراکت داری کے تحت دونوں کاروبار میں ملازم ہیں اور صلہ خدمت حاصل کر رہے ہیں۔

درج ذیل میں سے کون سا جزو اسلم اور شمشیر کے ذریعۂ وصولی کی صحیح عکاسی کرتا ہے؟

مثال نمبر 6 :
درج بالا خط رسد میں نقطہ Xسے نقطہ Yمیں کس تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے؟
A۔ رسد کا پھیلاؤ
B۔ رسد میں اضافہ
C۔ رسد میں کمی
D۔ رسد کا سکڑاؤ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments