ہم کب بدلیں گے


پوری دنیا معاشی بدحالی کا شکار ہے اور بدترین قحط کی پیشگوئیاں ہو رہی ہیں مگر ہمارے ہاں یہ شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پا گئے اور وہاں سے عنقریب ہمیں ڈالرز مل جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال کرنا ہمارے لیے ناگزیر تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کب تک ہم محتاجی کی زندگی گزارتے رہیں گے؟ پون صدی گزر چکی ہماری معیشت اب تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکی، قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم دنیا کی جنگوں اپنی خدمات کے عوض ملنے والی رقم سے گزر بسر کرتے رہے۔

کسی نے نہیں سوچا جب دنیا کو ہماری ضرورت نہ رہی تو پھر گزر بسر کس طرح ہو گا۔ اس مرتبہ آئی ایم ایف سے پروگرام بحال کرنے کے لیے پورا بجٹ ہی اس کی خواہشات کے مطابق ترتیب دینا پڑا اندازہ کر لیں اگلی بار کاسہ گدائی اٹھا کر جب ہم اس چوکھٹ پر دستک دیں گے تو کیا صورتحال ہوگی؟ بار بار کی یہ ذلت ہمیں گوارا ہے مگر ہم اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔ کسے نہیں پتا کہ وطن عزیز کے مسائل کیا ہیں؟ ہر شخص اپنے مسائل اور محرومیوں سے با خبر ہے۔

کتنی بار لکھ چکے ہیں کہ آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح نہایت تشویشناک ہے۔ آبادی میں اس تیز رفتار اضافے پر قابو نہ پایا گیا تو دو ہزار پچاس تک پاکستان کی آبادی تیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اتنی بڑی آبادی موجودہ وسائل میں کس طرح گزارا کرے گی؟ اس وقت ملک میں موجودہ آبادی کو تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی، روزگار اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہیں۔ آبادی میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو آنے والے وقت میں غربت اور بیروزگاری کس نہج پر ہوگی سوچ کر خوف آتا ہے۔

ملک میں اس وقت بھی زچہ و بچہ کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ وطن عزیر میں چالیس فیصد بچے ایسے ہیں ناقص غذا کے سبب جن کے دماغ کی نشو نما مکمل نہیں ہو رہی۔ گاؤں، قصبوں حتی کہ شہروں تک میں ہر سال ہزاروں مائیں زچگی کے دوران مناسب کیئر نہ ملنے کے سبب جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ تعلیمی میدان میں وطن عزیز کا مقابلہ تیسری دنیا کے ممالک سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وطن عزیز میں ڈھائی کروڑ بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں۔

اسی طرح ایک کروڑ پچیس لاکھ بچے چائلڈ لیبر کی دلدل میں دھنسے ہیں۔ یہ بچے اینٹوں کے بھٹوں ورکشاپس اور ہوٹلز پر کام کرنے یا گداگری پر مجبور ہیں۔ ان میں سے بیشتر بچوں کی عمریں دس سال سے کم ہیں اور یہ کل ملکی آبادی کا پانچ فیصد بنتا ہے یعنی ہر سو پاکستانی بچوں میں سے کم از کم دس اسی قسم کی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ آئی تھی جس میں لکھا تھا کہ پانچ سے نو سال کی عمر کے جو بچے اسکول نہیں جا رہے ان کی تعداد پچاس لاکھ ہے، جبکہ دس سے چودہ سال کے ایک کروڑ چار لاکھ بچوں نے کبھی کسی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔

اور غربت و پسماندگی کے باعث تعلیم سے دور رہنے والے 52 فیصد بچوں میں 58 فیصد بچیاں شامل ہیں۔ انتہائی دکھ افسوس اور شرم کی بات ہے کہ دنیا میں نائیجیریا کے بعد ”ایٹمی صلاحیت کا حامل پاکستان“ وہ بد قسمت ملک ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے کی عمر والے بچے اس حق سے محروم ہیں۔ حالانکہ ملکی آئین کے آرٹیکل 25 کی شق الف ریاست کو اس بات کی پابند کرتی ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔

جوں جوں آبادی بڑھ رہی ہے پاکستان پانی کی سنگین کمی سے دوچار ممالک کی فہرست میں تیزی سے اوپر جا رہا ہے۔ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں فی کس آبادی کے تناسب سے پانی کا ذخیرہ 1000 کیوبک میٹر سالانہ رہ جائے تو اسے پانی کی کمی کا شکار تصور کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں ابتدائی برسوں میں آبادی کے تناسب سے دستیاب پانی کی شرح فی کس پانچ ہزار چھ سو پچاس کیوبک میٹر سالانہ تھی جو اب آٹھ سو کیوبک میٹر سالانہ کی سطح سے بھی گر چکی ہے۔

اس وقت پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی محض 30 دن کی ہے۔ دنیا بھر میں دستیاب پانی کا کم از کم 40 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے پاکستان دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب بارشیں یا بہت کم ہوتی ہیں یا پھر بہت زیادہ بارشوں سے طوفان آ جاتے ہیں۔ پاکستان میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں 15 سے 20 فیصد کمی آئی ہے۔ ماہرین کے مطابق تربیلا ڈیم میں یومیہ پانچ لاکھ ٹن مٹی پانی کے ساتھ آتی ہے۔

اسی طرح تربیلا ڈیم میں اگر مٹی آتی رہی تو 30 سال کے بعد تربیلا میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔ یہ ایک انتہائی خطرناک اشارہ ہے اور صورتحال اگر، جوں کی توں رہی تو آئندہ دس برس میں ملک میں غذائی قلت کے ساتھ پینے کے پانی کی کمی سے اموات کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت جو تھوڑا بہت پانی عوام کو مل رہا ہے وہ بھی صاف نہیں۔ آلودہ پانی پینے کے باعث لاکھوں لوگ ہر سال ہیپاٹائٹس اور پیٹ کی موذی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

ان حالات میں نہ ہمارے پاس سرمایہ کاری آ سکتی ہے اور نہ ہی برآمدات بڑھانے کے لیے مطلوبہ توانائی کے ذرائع ہمیں دستیاب ہیں۔ زرعی شعبے سے کچھ عرصہ قبل تک ہم تھوڑا بہت ایکسپورٹ کر لیتے تھے اب اس میدان میں بھی ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ آج سے چند سال قبل تک پاکستان گندم، کپاس، چینی اور دیگر اجناس میں نہ صرف خودکفیل تھا بلکہ یہ اجناس بڑی مقدار میں ایکسپورٹ بھی کی جاتی تھیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ اب ہمارا زرعی شعبہ ملکی ضرورت پوری کرنے سے بھی قاصر ہو چکا ہے۔

ہر سال اربوں ڈالرز کی یہ اجناس امپورٹ کی جاتی ہیں۔ ہر سال تیرہ چودہ ارب ڈالرز زرعی اجناس امپورٹ کی امپورٹ پر ضائع ہو رہے ہیں۔ زرعی شعبے کی وجہ سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑی سپورٹ مل جاتی تھی سب سے تشویشناک بات کاٹن کی پیداوار میں کمی ہے۔ ملک کی ایکسپورٹ میں حصہ ڈالنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کا انحصار کاٹن کی پیداوار پر ہے۔ دو ہزار اٹھارہ تک کاٹن کی اوسط ملکی پیداوار 13 ملین بیلز تھی جو پچھلے تین برسوں میں سکڑ کر پانچ ملین بیلز تک گر چکی ہے جو گزشتہ تیس برسوں میں کم ترین پیداوار ہے۔

کسی حد تک ناقص بیج ریسرچ کے فقدان اور مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کا زرعی شعبے کے زوال میں ہاتھ ہے لیکن اس تنزلی کی اصل وجہ بھی بڑھتی آبادی کے سبب زرعی رقبہ گھٹنا اور پانی کی کمی ہے۔ ہر حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی ہے ہمیں لمبے چوڑے انقلابی اقدامات کی ضرورت نہیں بڑھتی آبادی کے مسئلے پر قابو پالیں، پانی جیسی نعمت کی قدر کر لیں اور زراعت کو تھوڑی سے توجہ سے جدید خطوط پر استوار کر لیں تو ہم دنیا کی محتاجی سے بچ سکتے ہیں۔ ان مسائل کی نشاندہی اور محرومیوں کے ازالے کی دہائی ہم ایسے روزانہ کی بنیاد پر دیتے رہتے ہیں۔ مسائل حل کرنا اور محرومیوں کا ازالہ کرنا مگر ہماری ذمہ داری ہے اور نہ ہم میں اتنی طاقت ہے۔ سوال اصل یہی ہے کہ یہ کون کرے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments