پاکستان کی حقیقی ترقی کا راز


ملک کے موجودہ ابتر سیاسی و معاشی صورتحال کی وجہ سے ہر پاکستانی مہنگائی کی دلدل میں روز بروز دھنستا ہی جا رہا ہے جہاں سے اسے نہ نکلنے کی مایوسی کھائے جا رہی ہے۔ ایسے مایوس کن بلکہ تباہ کن حالات میں ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ اس سیاسی و معاشی عدم استحکام کی بنیادی وجہ کیا ہے، کون اس کا ذمہ دار ہے، اس اہم ترین سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قائد اعظم کے بعد پاکستان کی عوام عرصہ دراز سے حقیقی سیاسی لیڈر سے محروم چلی آ رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا کارکن اپنے پارٹی لیڈر کو ہی مسیحا سمجھتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے۔ لیکن یہاں ہم حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قائد اعظم کے بعد سیاسی جمہوری قائدین جن میں سر فہرست جناب ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو اور عمران احمد خان نیازی ان تمام کے سروں پر کسی نہ کسی جنرل کا شفقت بھرا ہاتھ ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس نے بھی پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا سوچا اس کو اقتدار سے فارغ کر دیا گیا۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہی ملک میں پیدا ہونے والی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر حکمران نے اپنے دور اقتدار کو پورے دھیان سے اور دل جمی سے نہیں گزارا بلکہ اسے یہی ڈر لگا رہا کہ اب کہیں سے عدم اعتماد کی تلوار اس کے اقتدار کی ڈور کاٹ دے گی یا کہیں سے کوئی حکم آئے گا اور اس سے اتحادی اس کا ساتھ چوڑ دیں گے یا کوئی آمر کسی بھی وقت اس کو لولی لنگڑی حکومت اس سے چھن کر مسند اقتدار پر قابض ہو جائے گا ور وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس سانحہ عظیم کے خلاف ایک بیان تک نہیں دے سکے گا۔

جس ملک میں حکمران اتنے کمزور اور ناتواں ہوں وہاں کی عوام کو اپنے حقوق مانگنے کے بجائے ماتم ہی کرنا چاہیے اور ایسے مجبور اور محکوم ملک کے سیاستدانوں کو اپنے ملک کی عوام کو سہانے خواب اور سبز باغ دکھانے کا گناہ کبیرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جب کسی ملک کے سیاسی حالات اتنے بدتر ہوں تو وہاں کے سیاستدانوں کا زور کسی طاقتور کے بجائے اپنے جیسے کمزور سیاستدانوں پر ہی چلتا ہے۔ اور جو سیاستدان اپنے اقتدار کے لئے اور اقتدار مل جانے کے بعد اس کو چند گھڑی کا دوام بخشنے کے لئے جو جو حیلے بہانے سازشیں منافقتیں کرتا آیا ہوتا ہے وہ انہی تمام خباثتوں کا غلاظتوں کا ٹوکرا اپنے سامنے والے سیاستدان کے سر پر ڈال دیتا ہے اور شور مچا دیتا ہے کہ دیکھو دیکھو اس نے یہ چوری کی اس نے یہ کرپشن کی اس نے یہ غداری کی، یہ چور ہے یہ ڈاکو ہے، یعنی چور مچائے شور۔ یہ نعرہ لگانے کی دیر ہی ہوتی ہے اور جس پر الزام لگایا جا رہا ہوتا ہے اس کی عزت کی دھجیاں اڑانے کا باقی کام بڑی ایمانداری سے ہمارا بکاؤ میڈیا کر دیتا ہے۔

یہ نعرہ اس وجہ سے مقبولیت حاصل کر جاتا ہے کیونکہ کچھ مخصوص وجوہات کی بنا پر ہمارا سیاسی ڈھانچہ گزشتہ 75 برسوں میں ایک عام آدمی کو کچھ ڈیلیور نہیں کر پایا، اس کی وجہ کچھ بھی ہو اور الزام بے شک جمہوریت مخالف طاقتوں پر ہی کیوں نہ ڈال دیا جائے لیکن جمہوری تنزلی کا سلسلہ تھمتا محسوس نہیں ہو رہا۔ عام آدمی کیونکہ اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والی سازشوں سے لاعلم ہوتا ہے لہذا جو میڈیا پر انہیں دکھایا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ جو پارٹی اپنا بیانیہ میڈیا پر سچ ثابت کر پاتی ہے وہ پارٹی کامیاب کہلاتی ہے۔

دوسری طرف جہاں سیاستدان میڈیا کو اپنی کامیابی کے لئے استعمال کرتے ہیں وہیں کچھ سر پھر اصل سیاسی حقیقت عوام تک لاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگ جمہوریت، ڈکٹیٹر شپ یا پھر ’ووٹ کو عزت دو ‘ جیسے نعروں سے بے نیاز اور ماورا ہو کر یہ دیکھنے لگے ہیں کہ اقتدار میں آنے والوں کی کاریں بڑی سے بڑی ہوتی جاتی ہیں، ان کی کوٹھیاں وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہیں اور ان کے بینک بیلنس بھاری سے بھاری تر ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایسے سیاستدانوں یا اشرافیہ کی پشت پناہی کون کر رہا ہے۔

جب عام آدمی کی حالت نہیں بدلے گی اور صرف صاحب اقتدار شخصیات کی ہی بدلتی رہے گی تو اس نعرے میں مزید تقویت آ جائے گی کہ ’یہ سب چور یا ڈاکو ہیں‘ ۔ جب عوام ایسا سوچنا شروع کر دیں تو ان کے لیے جمہوری یا غیر جمہوری رویے معنی نہیں رکھتے، وہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا نا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدان خود کو تو طیب اردگان سمجھتے ہیں لیکن عوام کو ترکی کی عوام جیسی سہولتیں دینے سے ڈرتے ہیں اس قسم کے طیب اردوان کی حکومت جانے کے بعد فوج آئے تو لوگ ٹینکوں کے سامنے نہیں لیٹتے بلکہ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔

پاکستان کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔ بے روزگاری ہے، قانون کی عدم دستیابی، غربت ہے، لوڈ شیڈنگ ہے۔ یہ نسل دولت، اختیارات اور اقتدار کی غیر منصفانہ تقسیم پر سوال کھڑے کر رہی ہے۔ یہ بدعنوانی، کرپشن اور اقرباء پروری سے تنگ ہے۔ توانائی سے بھرپور اور حالات سے مایوس ایسے نوجوان چلتے پھرتے بم بنتے جا رہے ہیں۔ سیاسی اور فوجی اشرافیہ کو سوچنا ہو گا کہ اب نوے کی دہائی کا زمانہ نہیں رہا۔ اکیسویں صدی کا نوجوان معاشرہ اپنا موازنہ ترقی یافتہ مغربی ممالک سے کرتا ہے۔ ان کے دل میں آسائشیں حاصل کرنے کی آرزو ہے، ترقی کرنے کی خواہش ہے، آگے بڑھنے کی جستجو ہے، انصاف کی طلب ہے، ایک اچھی زندگی گزارنے کی طلب ہے۔

نوجوانوں کو باور کرائیں کہ سبھی چور اور ڈاکو نہیں ہیں، ان کے معاشی حالات بہتر کیجیے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل فوج اور کسی ایک سیاسی جماعت کے ایک پیج پر آنے سے حل نہیں ہوں گے، ان کے حل کے لیے جمہوری روایات کو فروغ دینا ہو گا اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف ملک کا سوچنا ہو گا۔ پاکستان کو کتنا لوٹیں گے اسے کتنا کھائیں گے ساری دنیا میں پاکستان اور اس کی عوام کو کتنا بدنام اور بے عزت کریں گے آپ کے پاس تو دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی شہریت بھی ہوتی ہے ساری دنیا میں جہاں آپ کو بے عزت کرنے کے لئے پاکستانی ظاہر کرنے کی کوشش کی جائے تو آپ بڑی ڈھٹائی سے دورے ملک کی شہریت دیکھا کر اپنی بے عزتی پر پردہ ڈال لیتے ہیں عوام کیا کرے کچھ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ اب پانی سر سے گزر چکا اب پاکستان کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ جو سیاستدان یہ سمجھتے ہیں انہیں سیاست چھوڑ کر پاکستانی عوام کی حالت پر رحم کرنا چاہیے کیونکہ بطور ایک مخلص پاکستانی میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ہر دور میں پاکستان کے حکمرانوں کی زبان سے یہ جملہ ضرور سننے کو ملتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پے ہیں۔ یقین کریں جو حکمران یہ بات کرتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے اور اس احمق کو پاکستان اور اس کی عوام کی بھلائی اور ترقی کی ذرا بھر فکر نہیں بلکہ وہ فوج کو اپنے ساتھ ایک پیج پر اس لئے رکھنا چاہتا ہے تا کہ اس کی حکومت قائم و دائم رہے۔

یاد رکھیں جب تک پاکستان کو ایسا لیڈر نہیں ملتا جس کا یہ نظریہ ہو، یہ سوچ ہو، یہ فکر ہو اور یہ عزم ہو کہ۔ حکومت، اپوزیشن، فوج اور عدلیہ ایک پیج پر ہونے چاہیے اور وہ اپنے عمل اور سچی نیت سے اپنے ملک کے ان تمام اداروں کو ایک پیج پر رکھنا جانتا بھی ہو تب جا کر پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام پا سکے گا ورنہ خالی اعلانات او ر نیا پاکستان بنانے کے سوکھے اور بانجھ نعروں سے پاکستان کی عوام میں تفریق کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہی رہے گا جس کی وجہ سے پاکستان میں معیشت کی کشتی کو ڈوبنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پاکستانی عوام سے گزارش ہے کہ اپنے اپنے حلقوں میں ایسے سیاستدانوں کو آگے لے کر آئیں جو دل و جان سے پاکستان اور اس کی عوام سے مخلص ہوں اور جو آئندہ اس نیت سے سیاست کریں کہ حکومت جس پارٹی کی بھی ہو آنے والے دنوں میں حکومت، اپوزیشن، فوج اور عدلیہ مل کر ایک پیج پر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ملک و قوم کے لئے کام کریں گے، تو یقین کریں کہ پاکستان کو دنیا کا ترقی یافتہ ملک بلکہ سپر پاور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).