ہمارے مقدر کی تبدیلی


زندگی بھی اتنی ہی بے ثبات ہے جتنی پاکستانی سیاست۔ اگر کسی کو پاکستان کی تین چوتھائی صدی پر محیط سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہو تو وہ محض پچھلی ایک دہائی کا مشاہدہ و مطالعہ کر لے اسے پتا چل جائے گا کہ ہم آج جہاں کھڑے ہیں کل بھی وہیں کھڑے تھے اور اگر ایسے ہی چلتے رہے تو کل بھی یہیں کھڑے رہیں گے جہاں سے چلے تھے۔

مشرف دور میں دونوں بڑی جماعتوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت جلا وطن ہونے کی وجہ سے قومی سیاسی دھارے میں مرکزی قیادت کا فقدان پایا جاتا تھا جسے عمران خان اور قاضی حسین احمد مرحوم بساط بھر پر کیا کرتے تھے۔ عمران خان مشرف کے ریفرینڈم میں حصہ لینے کی وزیراعظم کی کرسی کا جھوٹا خواب دکھاتی غلطی پر قوم سے معافی مانگ کر یہ کہہ چکے تھے کہ آئندہ کوئی آمر فرشتے کے روپ میں بھی آیا تو اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔

فرشتہ آمریت کے اس 2011 میں جب عمران خان صاحب نے نون لیگ کے تخت لاہور کے سینے میں موجود مینار پاکستان گراؤنڈ کو بھرا تو نون لیگ کے سیاسی کان پر خطرے کی پہلی جوں رینگی۔ عمران خان کا اس تاریخی جلسے میں ایک جملہ پورے ملک میں سوپر ہٹ ہوا کہ ”میاں صاحب جانڑ دیو ہنڑ ساڈی واری آنڑ دیو“ اور یہی وہ وقت تھا جب راقم الحروف کے اندر چھپے سیاسی کارکن نے آنکھ کھولی۔ خان صاحب نے بڑے بڑے ناموں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا شروع کر دیا اس وقت نہ اتنا مطالعہ تھا مشاہدہ اور نہ ہی تجربہ کہ یہ دیکھا جا سکتا کہ یہ الیکٹیبلز کو کسی جماعت کی طرف ہانکنے کی ہوا چلتی کہاں سے ہے۔ جنہیں جیتنے والے گھوڑے یعنی وونگ ہارس کہا جاتا ہے ان کا اصطبل آخر ہے کہاں؟

2013 کے انتخابات سے قبل دو تہائی اکثریت کا لکھ کر دینے والے خان صاحب کو سیٹیں ملیں 33۔ یعنی ”ممتحن“ نے پاسنگ مارکس دے کر اگلی جماعت میں بیٹھنے کے لائق بہرحال بنا دیا۔ یہاں سے میوزیکل چیئر کا ایک ایسا کھیل جاری ہوا کہ آپ آمدہ سطور میں اس کی جزئیات پر حیران بھی ہوں گے پریشان بھی۔

کرکٹ سے شہرت پانے والے خان صاحب کا 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ ایک سال کے بعد اس دھرنے میں تبدیل ہو گیا جس کے بارے میں پاکستان کے سب سے بڑے صحافیوں میں سے ایک حامد میر پہلے سے بتا چکے تھے۔ اور چوہدری نثار اس ضمن میں ایک بہت ہی معنی خیز بات 2013 کے الیکشن سے پہلے حامد میر صاحب ہی کے پروگرام میں کہہ چکے تھے کہ اگر نون لیگ کی حکومت آئی اور ہم ایک سال میں قومی مسائل حل نہ کر سکے تو میں مستعفی ہو جاؤں گا۔ اب بھی آپ کو چوہدری نثار صاحب کا عمران خان صاحب کے دھرنے کو خلاف وعدہ پارلیمان تک آنے دینا، کنٹینر پر سے عمران خان صاحب کا چوہدری نثار صاحب کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دینا، میر صاحب کا دھرنے کے بارے میں الیکشن سے پہلے خبر دینا اور خان صاحب کا اپنے دھرنے کے شرکا کو 24 سے 48 گھنٹوں میں امپائر کی انگلی اٹھنے کے دعوے کا درمیان ربط سمجھ میں نہ آئے یہ ہو نہیں سکتا۔

امپائر کی انگلی دھرنے میں نہ اٹھنی تھی نہ اٹھی۔ چوہدری نثار اور ان کے ساتھ اتنے اتنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی افواہوں کا اختتام 28 اگست 2014 کی رات دھرنا شرکا پر ریاستی قانون کی یلغار سے ہوا جب خان صاحب نے کہا فیلڈ مارشل چوہدری نثار میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا اور جو تین لاشیں میں نے اپنے ہاتھ سے اٹھائیں ان کا خون میرے پہ قرض ہے۔ اور پھر وہ کچھ عرصے بعد اس قرض کو قرض حسنہ قرار دے کر دوبارہ چوہدری نثار کا انتظار کرنے لگے لیکن چوہدری نثار کو بھی امپائر کی انگلی کا انتظار رہا۔

دھرنے کی اس رات جب خان صاحب ”شکریہ راحیل شریف“ کہنے ثالثوں کے پاس جا رہے تھے جس طرح ان کا چہرہ کھلا ہوا تھا بالکل ایسے ہی تب کے وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب کا رخ روشن بھی کپتان کو ایک خاص پیغام دینے کی لاٹیں مار رہا تھا جب 56 ملکوں کی تلواروں کے رقص والی فوج کے سربراہ راحیل شریف ان کے ڈرائیور بنے۔

ڈان لیکس کے بعد پانامہ عمران خان کی احتجاجی سیاست میں نئی روح پھونکنے کے لیے آیا۔ 2013 انتخابات میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں مسلسل پیشیوں سے عمران خان صاحب کو محض انتخابی اصلاحات کا ایک ہومیو پیتھک نسخہ ملا لیکن پانامہ پر انہیں وزیراعظم بننے کے لیے بہرحال میاں صاحب کا اقامہ پکڑا دیا گیا۔

وزیراعظم بن کر خان صاحب نے ساڑھے تین سال دو جملوں کی ترتیب بدل بدل کر کہا ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے اور ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا“ ۔ ان ساڑھے تین سال میں اگر آپ نے صرف خان صاحب کے پہلی تقریر کے اس جملے کی عملی شکل دیکھنی ہو کہ ”پاکستان میں وہ گورننس سسٹم لے کر آؤں گا جو اس سے پہلے کبھی آیا ہی نہیں۔ تو یہ دیکھ لیں کہ خان صاحب نے جن پر 22 سال تنقید کی انہی کی بیساکھیوں سے انقلاب کی راہ پر لڑھکنے لگے۔ اور یوں زرداری اور مشرف دور کے وزرا خزانہ خان صاحب کے ساتھ بیٹھ کر“ پچھلی حکومتوں ”کی پالیسیوں پر تنقید کرنے لگے۔

چند دن پہلے نواز شریف کی جیل سے اے سی اتارنے کی دھمکی دے کر انہیں علاج کے لیے باہر بھیجنے کو اللہ سے اپنے عہد کی خلاف ورزی اور رسول اللہ ص کی حدیث کے مطابق قوم کی تباہی کا باعث قرار دینے والے کپتان نے پلیٹلیٹس کی کمی کی ”پکی رپورٹ“ آنے پر بھی راستہ مذہب ہی سے نکالا کہ وہ رحم دل ہیں اس لیے انہیں ترس آ گیا۔ اور پھر ٹھیک کچھ دن بعد دوبارہ منہ پر ہاتھ پھیر کر نواز شریف کو برطانوی وزیراعظم سے بات کر کے واپس لانے کا عزم کرتے پائے گئے کیونکہ ان کے بقول ان کے ساتھ دھوکہ ہوا۔

خان صاحب کی نرگسیت اگر ذہن کے کسی گوشے میں سیاسی فہم و فراست کو تھوڑی سی جگہ بنانے دیتی تو خان صاحب کہیں رک کر سوچتے کہ جہانگیر خان ترین سے لے کر علیم خان تک ان کے دست و بازو ان سے علیحدہ کیے جانے کا مقصد کیا ہے لیکن مسئلہ وہی ”میں اور بس میں“ ۔ جب آپ کی ذات آپ کو اپنے مقصد سے بڑی لگنے لگے تو انجام نا مرادی ہی ہوتا ہے۔

اکتوبر 2021 میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا تین سالہ ”سیم پیج“ پھٹ جاتا ہے۔ عمران خان جنرل فیض حمید کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رکھنا چاہتے ہیں جبکہ جنرل قمر باجوہ ان کی جگہ ایک ”نیوٹرل“ جرنیل لانا چاہتے ہیں۔ جس کا نوٹیفیکیشن پی ایم ہاؤس کی بجائے ڈی جی آئی ایس پی آر کرتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان اس نوٹیفیکیشن کو مطلوبہ مشاورت نہ ہونے کی وجہ سے روک لیتے ہیں۔ چند ہفتوں بعد نوٹیفیکیشن تو ہو جاتا ہے لیکن فوج ساتھ ہی نیوٹرل ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیتی ہے۔

عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اسلام آباد جلسے میں ایک سائفر (پاکستان میں امریکی سفیر کا مکتوب) لہرا کر تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیتے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر اس سائفر کی بنیاد پر عدم اعتماد کے خلاف رولنگ دیتے ہیں سپریم کورٹ اس رولنگ کو کالعدم قرار دیتی ہے اور یوں عمران خان اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ٹائروں کے ان نشانات پر چلتے اپنے گھر چلے جاتے ہیں جو قیدیوں کی گاڑی نے تھوڑی دیر پہلے بنائے تھے۔

شہباز شریف وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ عمران خان سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ بیانیے آپس میں بالکل بدل جاتے ہیں۔ سیم پیج والے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو جاتے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو والے سیم پیج پر چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دینے والی پی ٹی آئی کو اچانک مہنگائی ”امپورٹڈ حکومت“ کی بے رحمانہ پالیسی کا نتیجہ لگنے لگتی ہے اور مہنگائی مارچ کرنے اور پی ٹی آئی کو تیل سستا کرنے کا کہنے والی پی ڈی ایم کو اچانک مہنگائی عالمی مارکیٹ کی وجہ دکھائی دینے لگتی ہے۔ فوج پر کسی جائز اور اصولی تنقید کے جواب میں ففتھ جنریشن وار کے ایجنٹ اور آرمی چیف کو قوم کا باپ تک کہنے والے اللہ کو جان دیتے اچانک ”چوکیدار فلاں فلاں“ کے نعرے لگانے لگتے ہیں اور باجوہ صاحب آپ کو جواب دینا ہو گا کہنے والے باجوہ صاحب کے جواب سے مطمئن ہو کر تحسین کرنے لگتے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ یہ ہے کہ ہم بنیادی طور پر جھوٹی اور بے اصول قوم ہیں۔ ہمیں سچ وہی لگتا ہے جو ہمیں افادہ پہنچائے۔ اصول وہ ہے جو ہمارے مفاد کو تحفظ دے۔ ہمیں سچائی، انصاف اور انسانیت کے بنیادی اصولوں سے چنداں غرض نہیں۔

اسی لیے ہمارے ہاں صرف کردار آپس میں ادلا بدلی کرتے ہیں۔ اسکرپٹ کہانی اور انجام وہی کا وہی رہتا ہے۔ انتظار کیجیے اور دیکھیے کہ کب کردار ایک بار پھر آپس میں تبدیل ہوتے ہیں کہ یہی تبدیلی ہمارا مقدر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments