کیا شفاف انتخابات ممکن ہو سکیں گے؟


کیا پاکستان حقیقی معنوں میں ایک شفاف اور منصفانہ انتخابات کی جانب بڑھ سکے گا؟ یہ ایک بنیادی نوعیت کا سوال ہے جو یہاں اہل دانش کی سطح پر علمی و فکری مباحثہ میں زیر بحث رہتا ہے۔ عمومی طور پر جو بحث سے نقطہ سامنے آتا ہے وہ مجموعی طور پر شفاف انتخابات کی نفی کرتا ہے اور اس طبقہ کے بقول پاکستان کے معروضی حالات اور طاقت کے مراکز کے اپنے سیاسی ایجنڈے کے باعث شفاف انتخابات کی خواہش کو محض خواہش کی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے۔

اگرچہ سیاسی جماعتیں یا ریاستی ادارے اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر ہمیں تواتر کیس ساتھ شفاف انتخابات کی حمایت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کے عملی اقدامات کی طرف دیکھیں تو جیسے لگتا ہے کہ مسئلہ انتخابات یا ووٹ کی بنیاد پر حکومت کو منتخب کرنا نہیں بلکہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سیاسی نتائج کے حصول کو بنیاد بنا کر حکومت کی تشکیل نو کرنا ہے۔ یہ کھیل محض کسی ایک فریق تک محدود نہیں بلکہ انتخابات سے جڑے تمام فریقین کسی نہ کسی شکل میں شفاف انتخابات کے مقابلے میں ایسے انتخابات چاہتے ہیں جو ان کو اپنے ذاتی ایجنڈے میں فائدہ دے سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان شفاف انتخابات کی منزل سے بہت دور ہے۔ اگرچہ ہم نے مختلف ادوار میں انتخابی اصلاحات کو بنیاد بنا کر کچھ اپنی سطح پر اصلاحات بھی کیں، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ شفاف انتخابات کی صورت میں برآمد نہیں ہوسکا۔ اسی بنیاد پر پاکستان کے تمام انتخاب اپنی شفافیت یا ساکھ کی وجہ سے متنازعہ رہے ہیں۔ قومی انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ اول واقعی شفاف انتخابات کا انعقاد کبھی بھی ممکن نہیں ہوا۔

دوئم ہماری سیاسی روایت بھی یہ ہی ہے کہ جو جماعت بھی انتخابات جیتی ہے اس کے لیے واقعی انتخابات شفاف ہوتے ہیں، جبکہ ہارنے والی جماعت انتخابات کو دھاندلی سے جوڑ کر پورے انتخابی عمل کو ہی متنازعہ بنا دیتی ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ سیاسی روایت ہی نہیں بن سکی کہ ہارنے والا انتخابی نتائج کو قبول کر کے جمہوری عمل کو مضبوط کرے۔ یہاں سیاسی قیادتیں سیاسی انا پرستی کا شکار ہو کر پورے سیاسی و انتخابی نظام کو ہی مشکوک بنا کر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا سبب پیدا کرتی ہیں۔

2013 کے عام انتخابات کے بعد دو اہم واقعات ہوئے۔ اول تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات کو دھاندلی زدہ انتخاب قرار دے کر لانگ مارچ یا سیاسی دھرنا دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عمران خان کی مزاحمت کے پیش نظر 35 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد نئی انتخابی اصلاحات کو متعارف کروانا تھا۔ اس کمیٹی میں تحریک انصاف بھی شامل تھی اور اس کی اہم سفارشات بھی سامنے آئیں۔ اسی طرح عمران خان کے دھرنے کے نتیجے میں ”عدالتی جوڈیشل کمیشن“ بھی بنا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس بنچ کے سربراہ تھے۔

اس بنچ کے فیصلے نے انتخابی دھاندلی کو تو تسلیم نہیں کیا مگر انتخابی ضابطگیوں پر 42 کے قریب تجاویز الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں کہ وہ ان کو بنیاد بنا کر انتخابی نظام کو شفاف بنائے۔ لیکن الیکشن کمیشن ان معاملات میں کوئی بڑا کام یا موثر اصلاحات نہیں کر سکا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ 2018 کے انتخابات کو ہارنے والی جماعتوں نے انتخابی دھاندلی سے تعبیر کیا اور براہ راست اسٹیبلیشمنٹ پر الزام لگایا کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت بنانے کے کھیل میں شریک تھا۔

تحریک انصاف نے بھی اپنے دور حکومت میں انتخابی اصلاحات کے تناظر میں دو کام کیے جن میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق اور دوسرا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال تھا۔ اس قانون پر اس وقت حزب اختلاف اور آج کی تیرہ جماعتی اتحادی حکومت مخالف تھی اور ان کے بقول یہ 2023 کے انتخابات کو چرانے کا کھیل ہے جس میں ہم شریک نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے بھی ان حکومتی سفارشات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اب موجودہ مسلم لیگ نون اور اتحادی حکومت نے ان دونوں قوانین کو تبدیل کر کے پرانے قانون کو ہی بحال کیا ہے۔

سوال یہ ہے کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی موثر، منصفانہ اور شفاف انتخابی اصلاحات یا انتخابی نظام بنانے میں عدم دلچسپی کا شکار ہیں اور ہماری ترجیحات میں شفاف انتخابات کی بحث بہت پیچھے نظر آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں سیاسی فریقین ایسا نظام کا مطالبہ کرتے ہیں جو نہ ماضی میں مثبت مطلوبہ نتائج دے سکا اور نہ ہی آگے دے سکے گا۔ کیونکہ بظاہر لگتا ہے کہ ہم انتخابی اصلاحات یا انتخابی نظام میں دنیا میں ہونے والی جدیدیت یا نئے مثبت طور طریقے جو شفافیت کے حوالے سے اہم ثابت ہوئے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جو ہماری سیاسی تاریخ کا انتخابی تاریخ کا المیہ ہے۔

ایک بڑا قصور الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور شفافیت کا ہے۔ اربوں روپے اس ادارے پر خرچ کیے جاتے ہیں مگر حیرت یہ ہے کہ ان سے محض ایک ضمنی انتخاب کی شفافیت بھی قائم نہیں رکھی جا سکتی۔ حالیہ کراچی میں این اے 240 کے ضمنی انتخابات میں ہم نے الیکشن کمیشن کی شفافیت سمیت ان کے انتظامات کا کھیل دیکھ لیا ہے۔ انتخابی عملہ کی بروقت آمد، پولنگ اسٹیشن پر انتخابی مواد سمیت بجلی کا نہ ہونا، سیکورٹی کی سہولیات کا نہ ہونا، الیکشن عملہ کا تحفظ، ووٹر فہرستوں میں موجود غلطیوں سمیت بہت سے مسائل دیکھنے کو ملے۔

اس ضمنی انتخاب میں محض ٹرن آؤٹ بھی 8.37 فیصد رہا جو انتخابی صحت کو ہی مشکوک بناتا ہے اور جیتنے والے امیدوار سمیت سب ہی اپنی ضمانت ہی ضبط کروا بیٹھے۔ اب کیا الیکشن کمیشن اس انتخاب کو جیتنے والے امیدوار کو مطلوبہ ووٹ نہ ملنے پر کالعدم قرار دے گا۔ اسی طرح جو کچھ وہاں پولیس اور انتظامیہ کی ملی بھگت کا کھیل دیکھنے کو ملا اس پر بھی الیکشن کمیشن کے انتظامات میں عدم شفافیت تھی۔ یہ ایک ضمنی انتخاب کا کھیل ہے اور پورے ملک میں الیکشن کی شفافیت ایک خواب لگتا ہے۔ پنجاب میں 17 جولائی کو 20 صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری ہوا ہے۔ لیکن جو کچھ صوبائی سطح پر حکومت ان انتخابات کی شفافیت پر اقدامات کر رہی ہے اور جس برے انداز سے تقرریاں و تبادلے ہو رہے ہیں اس پر الیکشن کمیشن کی عملی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ یہ ادارے کس حد تک آزاد اور خود مختار ہیں۔

مسئلہ محض الیکشن کمیشن کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے مجموعی نظام کا ہے جہاں ہم نے اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں افراد یا جماعتوں کو طاقت دی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم آزاد، خود مختار اور شفاف اداروں سے محروم نظر آتے ہیں۔ محض زبانی باتوں سے ہم اداروں کی شفافیت کو قائم نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے ادارہ جاتی سطح پر جہاں اصلاحات یا پالیسی، قانون سازی سمیت عملدرآمد کے شفاف نظام کی ضرورت ہے وہیں یہ کام بغیر کسی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے ممکن نہیں۔

لیکن سیاسی کمٹمنٹ کہاں سے آئے گی اور کیوں سیاسی جماعتیں خود کو قانون کی عملی حکمرانی کے تابع کریں گے یہ خود ایک مشکل سوال ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی خود دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر سیاسی نظام قائم کرتی ہیں تو پھر کیسے شفاف انتخابات ان کی حقیقی منزل ہو سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں آنے والے دنوں میں پنجاب کے ضمنی انتخابات ہوں یا مقامی سطح کے انتخابات سندھ اور پنجاب میں ہوں یا عام انتخابات ہوں ہم انتخابات کی دھاندلی کے الزامات سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ جو الزامات ہم آج سن رہے ہیں وہ کل بھی سنتے رہیں گے کیونکہ ہم روایتی اور مفاداتی انداز میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس میں قصور کسی ایک فرد یا ادارے کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہم پورے اس نظام کے بگاڑ کے برابر ذمہ دار ہیں۔

یہ عمل اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب ہم الیکشن کمیشن سمیت تمام اداروں یا فریقین کو ذمہ داری سمیت جوابدہی یا احتساب کے عمل میں لائیں گے۔ یہ کسی بھی صورت میں ممکن نہ ہو کہ ان اداروں کی کوئی جوابدہی کا نظام نہ ہو اور ہم ان کی اصلاح کرسکیں گے۔ دنیا میں نظاموں کی کامیابی کی کنجی ان کی کی جانے والی تواتر سے اصلاحات اور ان کی جوابدہی کے نظام سے جڑی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ ہم کھل کر قانون سازی، پالیسی سازی اور بجٹ سازی تو کرلیتے ہیں لیکن ان میں عملدرآمد کے نظام کی شفافیت کو قائم کرنے میں سمجھوتوں کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم یہاں الیکشن اور بالخصوص شفاف الیکشن ریاستی اداروں سمیت حکمران طبقہ کی ترجیحات میں کہاں کھڑے ہیں۔ جب طاقت ور طبقہ انتخابات کی شفافیت کے نام پر اپنی مرضی کے نتائج اداروں سے حاصل کرے گا تو پھر سیاست اور جمہوریت کا مقدمہ کمزور ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments