علی وزیر، ریاستی اداروں کا قیدی


عام تاثر ہے کہ پاکستان میں اکثر مقدمات میں قانون کا اختیار عدلیہ کی بہ جائے مخصوص ریاستی اداروں کے پاس ہوتا ہے۔ یوں تو اس کی ماضی اور حال میں بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن اس کی ایک حالیہ مثال جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کی ہے۔ سپریم کورٹ جیسی اعلا عدالت نے ان کی درخواست ضمانت دو دفعہ منظور کرلی تھی لیکن مبینہ طور پر ان ہی ریاستی اداروں کے دباؤ پر ان کے دوسرے مقدمات کی وجہ سے انھیں رہائی نہ مل سکی۔ ان پر کل چار مقدمات درج ہیں۔ قریباً ہر مقدمے میں ان کی ضمانت کی درخواست کو تاخیری حربوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ریاستی ادارے ان کے مقدمات میں اس قدر ذاتی عناد سے کام لے رہے ہیں کہ انھیں ان کے قانونی حقوق سے بھی محروم رکھنے کی دانستہ کوششیں مسلسل کی جاتی رہی ہیں۔

30 دسمبر 2021 ء کو ان کی جو درخواست ضمانت منظور کی گئی تھی، اس پر جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی تھی، اس کی کارروائی کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں :

دوران سماعت جسٹس مندوخیل نے کہا تھا کہ ”کیا علی وزیر کے الزامات پر پارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے؟“

انھوں نے کہا تھا کہ ”علی وزیر نے شکایت کی تھی، (اس لئے ) ان کا گلہ دور کرنا چاہیے تھا۔ اپنوں کو سینے سے لگانے کی بجائے (انھیں ) پرایا کیوں بنایا جا رہا ہے؟“ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا تھا کہ ”علی وزیر کا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہو گا؟“

پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا تھا کہ ”علی وزیر پر اس طرح کے اور بھی مقدمات ہیں اور کسی بھی اور مقدمے میں ان کی ضمانت نہیں ہوئی۔“ اس پر جسٹس سردار طارق نے جواب دیا تھا کہ ”کسی اور کیس میں ضمانت نہیں تو اسے سنبھال کر رکھیں اور کہا کہ اگر علی وزیر پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا تو وہ دفعہ کیوں لگائی گئی؟“

گزشتہ ہفتے جب علی وزیر کراچی کے جناح ہسپتال میں تھے تو اسپیکر قومی اسمبلی نے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کر رکھے تھے تاکہ وہ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شریک ہو سکیں لیکن انھیں اس آئینی حق سے محروم رکھا جا رہا تھا۔ علی وزیر کے ایک ساتھی کا دعویٰ تھا کہ ”چند نامعلوم افراد دو بار علی وزیر کے پاس ہسپتال آئے۔ جب علی وزیر پولیس کی تحویل میں تھے اور پولیس موجود تھی تو یہ کون لوگ تھے؟“ اس صورت حال کے تناظر میں علی وزیر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان پر حملے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان کے ساتھی یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ”علی وزیر کو ذہنی ٹارچر اور ہراساں کیا گیا ہے لیکن ہسپتال انتظامیہ انھیں ڈسچارج نہیں کر رہی ہے۔“ علی وزیر کا کہنا تھا ”انھیں ماضی میں بھی ہری پور جیل میں قید کے وقت بجٹ اجلاس سے محروم رکھا گیا تھا۔“ انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ”انھیں جیل منتقل کیا جائے یا پھر پروڈکشن آرڈر پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے کیوں کہ وہ ہسپتال میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔“

علی وزیر پر الزام ہے کہ انھوں نے کراچی میں ایک جلسے کے دوران پشتو میں تقریر کرتے ہوئے ریاستی اداروں کے خلاف بات کی تھی حالاں کہ ”پختون تحفظ موومنٹ“ کے کسی بھی جلسے کی کوریج کو قومی میڈیا کے کسی بھی ذریعے پر شائع اور نشر کرنے کی اجازت نہیں، اس لئے ان کا جائز موقف بھی اہل وطن تک نہیں پہنچ سکتا لیکن ان کے مقابلے میں ماضی میں ”تحریک لبیک پاکستان“ کے لائیو جلسوں اور دھرنوں میں اس کے رہنماؤں کے لب و لہجے کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو علی وزیر کی مخالفانہ تقریر ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس طرح ”پاکستان تحریک انصاف“ کے چیئرمین عمران خان کے جلسوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ قریباً اپنی ہر تقریر میں ریاستی اداروں پر سنگین الزامات عائد کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا کو کبھی غیر جانب داری کا طعنہ دیتے ہوئے جانور قرار دیتے ہیں اور کبھی انھیں چوکیدار کے لقب سے نوازتے رہتے ہیں۔ نہ صرف وہ خود انھیں چوکیدار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں بلکہ ان کے حواری خصوصاً فواد چوہدری اور شیریں مزاری بھی انھیں بہ طور تضحیک چوکیدار کہتے رہتے ہیں۔

علی وزیر اگر ریاستی اداروں کے خلاف گلے شکوے کرتا ہے تو اس کی وجوہات موجود ہیں۔ جس علاقے کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، وہاں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشنوں کے دوران مقامی آبادی کا بہت زیادہ نقصان ہوتا رہا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی قیمتی جانوں سے محروم ہوئے ہیں، بہت سے لوگ بہیمانہ تشدد کا شکار ہوئے ہیں اور بہت سے اب بھی غائب ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف حکومتی پالیسیاں بھی بہت عجیب طرح کی رہی ہیں۔ پہلے پہل وزیرستان میں ریاستی چھتری تلے شدت پسندوں کو پناہ دی گئی، ان کے ساتھ قانون میں نرمی برتی گئی، انھیں پراکسی جنگوں کے لئے استعمال کیا گیا اور جب عالمی دباؤ پڑا تو فوجی آپریشنوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں علاقے کے لوگ نہ صرف آئی ڈی پیز بنے بلکہ ان کی غیرموجودگی میں ان کی آبادیاں اور تجارتی مراکز بھی مسمار کی گئیں۔ ان تمام تر کارروائیوں میں زیادہ تر پرامن اور بے گناہ لوگ متاثر ہوئے جس کی تلخیاں اب بھی موجود ہیں اور پختون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں وقتاً فوقتاً اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔

علی وزیر جیسے لوگ جب علاقے میں موجود ریاست کے پالے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ علی وزیر کے والد اور بھائی سمیت ایک درجن سے زائد ان کے قریبی رشتہ داروں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے زندگیوں سے محروم کر دیا گیا۔ ان کے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنایا گیا اور ان کے تجارتی مراکز کو صفحۂ ہستی سے مٹایا گیا۔ ایسے میں علی وزیر کو حق حاصل ہے کہ وہ اس ریاستی ظلم اور جبر کے خلاف اپنے احساسات اہل وطن تک پہنچائیں لیکن وطن عزیز میں حق بات کہنا یا اپنے قانونی اور آئینی حقوق کے لئے آواز بلند کرنا بہت بڑا جرم ہے اور اسی جرم کی پاداش میں علی وزیر ریاستی اداروں کی قید میں ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ان ہی ریاستی اداروں کے چہیتے رہے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان بھی ان ہی اداروں کی پروردہ ہے، اس لئے ان کا ہر جرم معاف۔ وہ اگر فوج کے خلاف بات کریں، عدالت عظمیٰ پر الزام تراشی کریں، الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں اور یا ملک کے مقتدر سیاست دانوں اور دیگر سیاسی شخصیات کو گالم گلوچ پر رکھیں، انھیں کچھ نہیں کہا جاتا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اور عمران خان کے انتہاپسندی پر مبنی الزامات کے دباؤ کو ادارے اور موجودہ حکومت مسلسل نظر انداز کرتے چلے جا رہے ہیں، تو اس کے ساتھ عمران خان کا لہجہ بھی مزید سخت اور غیر مہذب ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اب فوج کو چوکیدار کے نام سے مخاطب کرنے کے علاوہ اور کوئی لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ وہ اس بات پر سخت برہم ہیں کہ امریکی سازش میں فوج بھی اپوزیشن کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور اگر وہ چاہتی تو وہ ان کی حکومت بچا سکتی تھی لیکن اس کی غیر جانب داری کی وجہ سے ان کی حکومت ختم ہو گئی۔ اس لئے وہ اپنے ہر جلسے میں یہ مثال دیتے نظر آتے ہیں کہ جب کسی گھر پہ ڈاکوؤں کا حملہ ہو جائے تو کیا چوکیدار کو غیر جانب دار رہنا چاہیے؟ یوں سوشل میڈیا پہ بھی فوج کے حوالے سے چوکیدار کا بیانیہ بالکل اسی طرح مشہور ہو گیا ہے جس طرح بعض فوجیوں کی طرف سے عوام کے لئے ”بلڈی سویلین“ کا بیانیہ استعمال کیا جاتا ہے۔

وطن عزیز کی بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں مختلف قومیتوں اور مختلف حلقوں کے لئے قانون اور انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں۔ عمران خان جیسے لوگوں کے لئے قانون موم کی ناک بنا ہوا ہے۔ مذہبی شدت پسند تنظیموں کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے ان کے لئے اداروں اور عدلیہ میں ایک خاص سافٹ کارنر موجود ہے لیکن ان کے مقابلے میں پختونوں اور بلوچوں کے ساتھ ریاست کا رویہ سوتیلی ماں جیسا ہے۔ پختونوں کی مذہب پرستی اور سادگی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر نہ صرف ان کے علاقوں کو نام نہاد تزویراتی گہرائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ انھیں پراکسی جنگوں کا ایندھن بھی بنایا جاتا ہے اور بہ وقت ضرورت ان پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر کے ان کے علاقوں کو قیام امن کے نام پر آتش و آہن کا مرکز بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں پختونوں کو علاقہ بدر ہونا پڑتا ہے، ان کی آبادیوں کو مسمار کیا جاتا ہے، ان کے تجارتی مراکز کو ملبے کا ڈھیر بنایا جاتا ہے اور سیکیورٹی چیک پوسٹوں اور سرچ آپریشنوں کے ذریعے ان کی عزت نفس اور چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔

ریاست بلوچستان کے وسائل سے فائدہ تو خوب خوب اٹھا رہی ہے لیکن وہاں کے عوام کو پس ماندہ اور درماندہ رکھ کر انھیں اپنے وسائل سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ان کے مقامی قدرتی وسائل پر نہ صرف ان کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ جب وہ اپنے جائز آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو نامعلوم افراد انھیں ماورائے عدالت قتل کر دیتے ہیں یا وہ غائب کر دیے جاتے ہیں اور عدالتوں کے مطالبے کے باوجود نہ تو ان پر کوئی فرد جرم عائد کیا جاتا ہے اور نہ ہی انھیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

یہ دہرا معیار سوشل میڈیا کی بہ دولت اب ملک کا ہر باشندہ اچھی طرح سے محسوس کرتا ہے اور اس کے رد عمل میں انھیں ہر غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام سے نفرت اور کراہت محسوس ہوتی ہے۔ جب آپ ظلم بھی کریں اور پھر مظلوم پر یہ پابندی بھی عائد کریں کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور جبر پر احتجاج بھی نہ کریں تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ یقیناً مقتدر اداروں کے حاکموں کو اس کے ناخوش گوار نتائج کا اندازہ بہ خوبی ہو گا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ملک بعض افراد کی ذاتی انا، ذاتی پسند و ناپسند اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔

فوج جیسا عظیم ادارہ اس ملک کی سرحدوں کا محافظ ہے، وہ ملک کی سلامتی کا ضامن ہے اور وہ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے لیکن اگر یہ ادارہ جو عوام کے خون پسینے کی کمائی پر استوار ہے، جس کی پشت پر عوام کی طاقت موجود ہے، اسے اگر چند جرنیلوں کی خود ساختہ تزویراتی گہرائی، پراکسی جنگوں، نسلی تعصب، ان کی ذاتی انا اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں بچ سکے گا۔ آج نہیں تو اس ملک کی آنے والی نسل کو ان تمام غلطیوں، ظلم و جبر اور نا انصافیوں کا جواب دینا پڑے گا اور وہ جواب یقیناً پاکستان کی سلامتی اور یک جہتی کے لئے ایک سوالیہ نشان ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments