خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر آنے والے غیر متعلقہ افراد


ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال کے بارے میں اگر مجھ سے سوال کیا جائے تو میں حکومت اور میڈیا کو اس کا ذمہ دار قرار دوں گا۔ ماضی میں حکومتیں انسانی حقوق کو کسی کھاتے میں نہیں لاتیں تھیں اور میڈیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز نہیں اٹھاتا تھا۔ پرائیویٹ چینلز کی آمد کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ شاید اب انسانی حقوق کے حوالے سے بھی آواز اٹھائی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ اخبارات میں سینئر صحافی سیاست پر لکھتے رہے۔ نیوز چینلز پر خبریں اور سات سے گیارہ تک سیاسی شوز چلتے رہے۔ جبکہ تفریح فراہم کرنے والے چینلز پر ڈرامے، مارننگ اور گیم شوز چلتے رہے۔

وطن عزیز میں انسانی حقوق کے حوالے سے حقیقی تبدیلی سوشل میڈیا، یوٹیوب چینلز اور نیوز ویب سائٹس لے کر آئیں ہیں۔ ان ویب سائٹس میں سب سے اہم کردار ”ہم سب“ کا رہا ہے۔ جہاں سیاست، مذہب، معیشت، انسانی حقوق اور مشکل موضوعات پر کھل کر لکھنے کی اجازت فراہم کی جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے معذور افراد کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ اللہ تعالٰی نے اس مہم میں بڑی کامیابیاں عطا فرمائیں۔ اب اپنے اسی تجربے کو خواجہ سراؤں پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ معاشرے فوری تبدیل نہیں ہوتے۔ لکھنے والوں کا کام کسی بھی مسئلے کے حوالے سے آگہی عام کرنا اور ماحول بنانا ہوتا ہے۔ آگہی حقوق کے حصول کا راستہ آسان بنا دیتی ہے۔

ڈیڑھ سال قبل مانسہرہ کی ایک خواجہ سراء نادرہ خان نے کمپنی رجسٹرڈ کرانی چاہی تو ان سے کہا گیا کہ پہلے بنک میں اکاؤنٹ کھولو۔ نادرہ خان نجی بنک اکاؤنٹ کھلوانے گئیں تو کہا گیا کہ آپ کا اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا کیونکہ آپ کی کمائی حلال نہیں ہے۔ نادرہ نے بنک انتظامیہ سے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ بنک میں جن لوگوں کے پیسے پڑے ہیں سب حلال کے ہیں۔ سول سوسائٹی نے بنک انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

نادرہ خان نے چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں وہ خواجہ سراؤں کو نصیحت کر رہی تھیں کہ اپنے گھروں میں غیر متعلقہ لوگوں کا داخلہ بند کر دیں۔ غیر متعلقہ لوگ ہماری بدنامی اور قتل کا سبب بن رہے ہیں۔ نادرہ نے حکومت اور پولیس سے بھی اپیل کی کہ ایسے مشکوک افراد پر نظر رکھی جائے۔

میں نے نادرہ خان سے سوال کیا غیر متعلقہ لوگ کون ہوتے ہیں؟

نادرہ کہتی ہیں کہ خواجہ سراؤں کے گھروں کے بارے میں عام لوگوں کا تصور یہ ہے کہ یہاں پر ساری رات سیکس ورک، شراب و کباب کی محفلیں سجتی ہیں۔ یہ تصور ان غیر متعلقہ افراد کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔ جو بغیر کسی مقصد کے ساری ساری رات ڈیروں پر گزار دیتے ہیں۔

میں نے سوال کیا کہ کیا خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر آنے والے تمام غیر متعلقہ لوگ جرائم پیشہ افراد ہوتے ہیں؟

نادرہ خان نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر دو طرح کے لوگ آتے ہیں۔ پہلی قسم جرائم پیشہ افراد اور پولیس والوں کی ہے۔ جنھیں بلایا نہیں جاتا بلکہ یہ زبردستی ڈیروں میں گھس جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بدمعاشی کے زور پر خواجہ سراؤں سے ساری رات ناچ گانا کرواتے ہیں، سیکس ورک کرتے ہیں، زیور اور پیسہ بھی لوٹتے ہیں۔ انکار کی صورت میں قتل بھی کر دیتے ہیں۔

دوسری قسم عام لوگوں کی ہے۔ اس میں بھی دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پہلی قسم اوباش نوجوانوں کی ہے۔ جو ٹائم پاس کرنے اور عیاشی کے چکر میں ڈیروں پر آتے ہیں۔ اوباش نوجوان بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پیسے والے گھرانوں کے ہوتے ہیں۔ یہ ڈیروں پر آ کر خوب پیسہ لوٹاتے ہیں۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو محبت کا جھانسہ دے کر ڈیروں پر آتے ہیں اور چوری چکاری کر کے بھاگ جاتے ہیں۔

دوسری قسم ان افراد کی ہے جو خواجہ سراء کی محبت میں گرفتار ہو جاتے اور پھر سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

میں نے پوچھا غیر متعلقہ افراد سے خواجہ سراء کی دوستی کیسے ہوتی ہے؟

نادرہ خان نے جواب دیا کہ خواجہ سراء پیٹ بھرنے کے لئے ہر قسم کا کام کر لیتے ہیں۔ جن میں بھیک، ناچ گانا، سیکس ورک، چھوٹے موٹے کاروبار یا نوکریاں وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں خواجہ سراؤں کے حقوق کو انسانی حقوق نہیں سمجھا جاتا مرد ہمیں ٹشو پیپر سمجھتے ہیں۔ جسے استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ تحفظ اور محبت کی آڑ میں ہمارے قریب آتے ہیں۔ جس کا مقصد جنسی خواہش کی تکمیل ہوتا ہے۔

بھیک مانگنے والے خواجہ سراؤں کو گلیوں، محلوں، بازاروں اور سڑکوں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ روزانہ سینکڑوں اچھے برے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ غیر متعلقہ افراد خواجہ سراء کی مرضی سے یا پیچھا کرتے کرتے ان کے گھروں تک پہنچ جاتے ہیں۔

شادیوں اور نجی محفلوں میں ناچ گانے کے دوران اوباش نوجوان خواجہ سراؤں کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ کا پیسہ دیکھ کر خواجہ سراء انھیں ڈیروں تک بلا لیتے ہیں تو کچھ بدمعاشی کے زور پر ڈیروں تک پہنچ جاتے ہیں۔

نوکری، کاروبار، بھیک، سیکس ورک اور ناچ گانے کے دوران کچھ لوگوں کو واقعی خواجہ سراؤں سے ہمدردی ہو جاتی ہے تو کچھ سچی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور ڈیروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کے ڈیروں کو برائی کا اڈہ سمجھا جاتا ہے اس لیے ایسے لوگوں کے پیچھے ہمارا معاشرہ پڑ جاتا ہے۔ ایسے ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں کہ لوگ یا تو ڈر کے پیچھے ہٹ جاتے ہیں یا پھر ان کے گھر والے انھیں گھروں سے نکال دیتے ہیں۔

مسئلے کا حل کیا ہے؟ میں نے پوچھا

نادرہ خان کہتی ہیں کہ خواجہ سراؤں کے ڈیروں کی بدنامی، تشدد اور قتل کے واقعات کی سب سے بڑی وجہ غیر متعلقہ افراد ہیں۔ ایسے افراد کی آمد و رفت کو روک کر یا محدود کرنے سے کمیونٹی کی عزت و وقار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

خواجہ سراؤں کو انفرادی طور پر اور بحیثیت کمیونٹی مشکوک کردار کے لوگوں پر نظر رکھنی چاہیے ان کے بڑھتے قدموں کو روکنے کے لئے پولیس کو مطلع کرنا چاہیے۔

ملک کے پانچوں صوبوں میں اسلام آباد کی طرز کا خواجہ سراء تحفظ سینٹر قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں خواجہ سراؤں کو فوری انصاف ملتا ہو۔

حکومت خواجہ سراؤں کے ڈیروں کو تحفظ اور مراعات فراہم کرے۔ کیونکہ یہ ڈیرے ایسے افراد کی رہائش گاہ ہوتے ہیں جو والدین، رشتہ دار، عزیز و اقارب اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن حصہ تو اسی معاشرے کا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments