دولت کے انبار، ذاتی انا یا وطن؟


یوں تو پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ اول روز سے ہی ایک تواتر کے ساتھ سانحات سے بھری پڑی ہے۔ مگر آج ہم سیاسی حادثوں کی بات کریں گے۔ پہلا حادثہ جنرل محمد ایوب خان کا مارشل لاء تھا جو 10 سال چلا اور جانے کے تین سال کے اندر اندر اپنے اثرات دکھاتے ہوئے ملک کو ایک بڑے سانحے سے دوچار کر گیا۔ پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ قوم پر سناٹا طاری ہو گیا۔

اس کے چند برس بعد مسرت نذیر کا نغمہ ”میرا لونگ گواچا“ بہت مشہور ہو رہا تھا۔ نامور مزاحیہ شاعر انور مسعود نے اس کیفیت ایک قطعے میں یوں بیان کیا تھا:

’کس طرح کا احساس زیاں تھا کہ ہوا گم
کس طرح کا احساس زیاں ہے کہ بچا ہے
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے
’اک لونگ گواچا‘ ہے تو کیا شور مچا ہے

دوسرا بڑا سانحہ جنرل محمد ضیاءالحق کا اسلامی مارشل لاء تھا۔ جو گیارہ سال تک بر پا رہا۔ اور بالآخر ایک ہوائی حادثے میں صدر جنرل ضیاءالحق کی شہادت پر اختتام پذیر ہوا۔ مگر جاتے جاتے تحفے میں وطن کو منشیات، مذہبی شدت پسندی اور مسلح عسکریت پسندی دے گیا۔ جس کے نتائج 9 / 11 کی صورت میں سامنے آئے اور پاکستان ایک نا ختم ہونے والی دشوار ترین جنگ میں نہ چاہتے ہوئے بھی شامل ہو گئی۔ جس کے اثرات آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔

ایک عربی کہاوت ہے : ”جو وقوعہ ایک دفعہ ہو۔ وہ ایک دفعہ ہی ہوتا ہے۔ مگر کوئی واقعہ اگر دو دفعہ ہو جائے تو تیسری دفعہ ضرور ہوتا ہے۔“ اس کہاوت کے مصداق اکتوبر 1999 ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اور خود کو پہلے چیف ایگزیکٹو اور بعد ازاں ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے صدر بن لیا۔ ان دنوں وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان کارگل جنگ پر تنازعہ تھا۔ بنیادی طور پر یہ جنگ شروع کرنا ہی اتنا بڑا بلنڈر تھا کہ اس کا نتیجہ شکست ہی نکلنا تھا۔ اور کارگل میں شکست کی ذمہ داری قومی اور عسکری قیادت دونوں پر عائد ہوتی تھی۔ مگر انا تھی کہ سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ ان حادثات اور واقعات کے پیچھے انا پرستی، ہوس اقتدار اور مادر وطن سے بے وفائی بڑے عناصر رہے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کا 9 سالہ دور 2008 ء میں نئے انتخابات اور پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے پر اختتام پذیر ہوا۔ عوام نے غیر قانونی ریفرنڈم سے لے کر بلا جواز ایمرجنسی، اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں کی نظر بندی، اکبر بگتی کی ہلاکت اور لال مسجد جیسے بھیانک حادثے دیکھے۔ 2018 ء میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو معصوم عوام کو ایک امید کی کرن نظر آئی کیونکہ وہ سانحات کی میوزیکل چئیر سے تنگ آ چکے تھے۔ مگر بد قسمتی اس مرتبہ بھی ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔ تین سال بعد ہی عمران خان کو کابینہ سمیت فارغ کر دیا گیا۔ ہمارا ملک ایک دفعہ پھر دنیا بھر میں تماشا بن گیا۔

میری عاجز رائے میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ اپنی دھرتی ماں سے بے وفائی اور انا پرستی ہے۔ دنیا میں جن ممالک نے پسماندگی سے سے ترقی پذیر یا ترقی یافتہ کا سفر طے کیا ہے۔ ان کے لیڈر اپنے ملک سے وفادار ہیں۔ ان کی کوئی ذاتی انا نہیں۔ وہ اپنے وطن کے مفادات کو اپنی ذات سے بلند رکھتے ہیں۔ چین، جاپان، ملائیشیا، سنگا پور، ترکی، حتیٰ کہ بنگلہ دیش اور ویتنام کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔

حل کیا ہے؟ نیت درست کرنے کے سوا کیا حل ہو سکتا ہے؟
عسکری اور سیاسی اشرافیہ ایک قومی کانفرنس بلائے۔

اس کانفرنس میں عوامی اور عسکری طاقت کے مراکز قوم سے بے وفائی کی معافی مانگیں۔ ہمارے سیاسی اشرافیہ اور عسکری اکابرین اپنی دھرتی ماں سے وفاداری کا حلف دے کر تاریخ کا دھارا بدل ڈالیں۔

بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان جائز ضرورت کے علاوہ اپنی تمام دولت ملکی خزانے میں جمع کروا کر تاریخ میں اپنا نام لکھوائیں۔

یاد رہے کہ تاریخ امیر لوگوں کو یاد نہیں رکھتی۔ یہ ہمیشہ ان افراد کو یاد رکھتی ہے جو اپنی دھرتی ماں اور انسانیت کے لیے کچھ کر جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ تنقیدی نگاہ سے پڑھنے سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمارے خلاف کوئی اندرونی اور بیرونی سازش نہیں ہو رہی۔ ہم اپنے سب سے بڑے دشمن خود ہیں۔ ہمیں تباہ و برباد ہونے کے لیے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ ؟ آپ کا امتحان ہے۔ تاریخ آپ کو اسی نام سے پکارے گی جو کام آپ آج لمحہ موجود میں کریں گے۔ دولت کے انبار، ذاتی انا یا وطن؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments