حکومتیں، پیر، سید اور میر


معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ جب سندھ میں تقسیم سے پہلے انتخابات ہوئے تو اس میں پیروں کا آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونا، ان کے ذاتی مفاد میں تھا، کیونکہ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ ملک کی تقسیم کے بعد مسلم لیگ حکمران جماعت ہوگی۔ لہذا اس کے بعد سے آج تک سندھ کے پیر، سجادہ نشین اور جاگیردار اپنے مفادات کے تحت اپنی سیاسی وفاداریاں بدل لیتے ہیں، اس وقت خصوصیت سے اس طبقے کو سب سے زیادہ استحکام سندھی قوم پرستی کے فروغ سے ہوا ہے کہ جس نے ان کے استحصال اور تاریخی کردار کو چھپا دیا اور یہ سندھی قوم کے سربراہ اور راہنما بن گئے۔

سندھ کی پہلی قانون ساز اسمبلی 27 اپریل سنہ 1937 ع میں معرض وجود میں آئی، جس میں 5 میر حضرات شامل تھے، جن میں سے صاحب بہادر میر اللہ داد خان تالپور کا تعلق تھرپارکر سے، میر بندہ علی تالپور، میر غلام اللہ خان تالپور اور میر حسین بخش تالپور کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ دو پیروں مخدوم غلام حیدر کا تعلق حیدرآباد، اور پیر مظہر الحق کے والد پیر الہی بخش کا تعلق دادو سے تھا، جبکہ اس اسمبلی میں ہی 9 سید حضرات شامل تھے، جن میں سے سید غلام حیدر شاہ، خان بہادر غلام نبی شاہ کا تعلق تھرپارکر، جی ایم سید کا تعلق دادو، سید خیر شاہ، سید محمد علی شاہ، سید نور محمد شاہ کا تعلق نوابشاہ، سید میراں محمد شاہ کا تعلق حیدرآباد، خان صاحب غلام رسول شاہ کا تعلق سکھر سے تھا۔

سندھ کی دوسری قانون ساز اسمبلی 12 مارچ سنہ 1946 ع میں وجود میں آئی جو ستمبر 1946 تک ہی چل سکی۔ دوسری قانون ساز اسمبلی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے 6 سید حضرات شامل تھے، جن میں سے سید علی اکبر شاہ کا تعلق دادو سے، سید نور محمد شاہ، پیر بقادار شاہ اور سید محمد علی شاہ کا تعلق نوابشاہ سے، سائیں جن ایم سید کا تعلق دادو سے، سید میراں محمد شاہ کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ جبکہ اس اسمبلی میں صرف ایک ہی پیر الہی بخش کا تعلق دادو سے تھا۔ جبکہ تین پیر ہی اس اسمبلی کا حصہ بننے میں کامیاب ہو سکے، جن میں سے خان بہادر میر غلام علی خان تالپور، میر بندہ علی تالپور، میر حسین بخش تالپور تینوں کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔

14 اگست سنہ 1947 کو تقسیم ہند سے قبل ہی 17 فروری 1947 کو تیسری سندھ اسمبلی وجود میں آ چکی تھی اور اس میں کل 8 سید اور 2 پیر جبکہ 4 میر شامل تھے، جن میں سے پیر سید علی شاہ کا تعلق کراچی سے، سید نظر حسین شاہ، سید نور محمد شاہ اور سید خیر شاہ کا تعلق نوابشاہ سے، سید مراد علی شاہ کا تعلق دادو سے، سید علی اکبر شاہ کا تعلق دادو سے، میراں محمد شاہ اور سید حسن احمد شاہ کا تعلق حیدرآباد سے تھا، پیروں میں سے پیر الہی بخش کا تعلق دادو سے اور اور مخدوم غلام حیدر قریشی کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ جبکہ چار میروں میں سے میر بندہ علی خان تالپور، میر غلام حیدر خان تالپور اور میر حسین بخش تالپور کا تعلق حیدرآباد، میر احمد علی خان تالپور کا تعلق تھرپارکر سے تھا۔ یہ اسمبلی 1951 ع تک چلی۔

سندھ کی چوتھی اسمبلی 12 ستمبر سنہ 1953 ع کو وجود میں آئی تو اس میں سیدوں اور پیروں کی تعداد میں ڈرامائی تبدیلی آئی، اس اسمبلی میں بہت سے سیدوں اور پیروں کو رکھا گیا، چونکہ ابھی رائے دہی کا نظام تقسیم ہند کے بعد وجود میں آنے والے پاکستان میں شروع نہیں ہوا تھا۔ سنہ 1953 ع کی سندھ اسمبلی میں 15 سیدوں اور 8 پیروں کو منتخب کیا گیا۔ جبکہ 7 میر بھی شامل کیے گئے۔ ٹھٹہ کے علاقے میرپور ساکرو سے سید علی اصغر شاہ اور سجاول سے سید مھر علی شاہ، عمرکوٹ سے سید غلام حیدر شاہ، نوابشاہ کے علاقے سکرنڈ سے سید غلام حیدر شاہ اور سید حسن شاہ، کو ٹڑی سے سید گل محمد شاہ، جنوبی کنڈیارو سے سید کارڑو شاہ، نوابشاہ سے سید خیر شاہ، حیدرآباد سے سید مبارک علی شاہ اور سید سردار محمد علی شاہ، شمالی ٹنڈو اللہ یار سے سید محمد حسن شاہ، جنوبی ہالا سے سے سید محمد زمان شاہ، دادو کے علاقے جوھی سے سید صالح محمد شاہ اور ٹنڈو آدم سے سید نظر حسین شاہ کو رکھا گیا۔

جبکہ پیروں میں سے روہڑی سے پیر علی محمد شاہ راشدی، شمالی بدین سے پیر علی شاہ، میرپور خاص سے پیر غلام رسول شاہ، دادو سے پیر الہی بخش، گھوٹکی سے میر محبوب شاہ، شھداد پور سے میر مہدی شاہ، ہالا سے مخدوم محمد زمان طالب المولی اور سکھر سے پیر حامد حسین فاروق کو رکھا گیا۔ میروں میں سے شمالی گونی سے میر بندہ علی تالپور، ننگر پارکر سے میر احمد علی خان تالپور، حیدرآباد کے شمالی تحصیل سے میر حاجی علی احمد خان تالپور، گونی جنوبی سے میر علی نواز خان تالپور، ڈگری سے میر اللہ بچایو تالپور، سامارو سے میر امام بخش خان تالپور، ٹنڈو باگو سے میر محمد بخش تالپور کو رکھا گیا اور یہ اسمبلی 26 مارچ 1955 تک چلتی رہی۔

پاکستان میں پہلی رائے شماری کا آغاز 1971 میں ہوا اور 2 مئی سنہ 1972 کو معرض وجود میں آنے والی پانچویں سندھ اسمبلی میں سیدوں نے میدان مار لیا، سنہ 1972 ع کے الیکشن میں سیدوں نے پیروں اور میروں کو چت کر دیا۔ پہلی بار رائے دہی کے نتیجے میں 12 سید حضرات سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ ایک پیر اور تین میروں کو منتخب ہونے کا موقع ملا۔ سنہ 1971 ع سکھر سے سید غلام شبیر شاہ، نوابشاہ سے سید نظر شاہ، سید ظفر علی شاہ، سید مراد علی شاہ، خیرپور سے سید نادر علی شاہ، حیدرآباد سے سید امیر علی شاہ، سید محمد حسین شاہ، سید بدیع الحسن زیدی، دادو سے سید عبداللہ شاہ، تھرپارکر سے سید قطب علی شاہ، ٹھٹہ سے سید بشیر شاہ، کراچی سے سید سعید حسین شاہ سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ جبکہ ایک پیر حاجی گل شاہ اور تین میر حضرات خیرپور سے میر عطا حسین تالپور، حیدرآباد سے میر رسول بخش تالپور اور تھرپارکر سے میر امام بخش خان تالپور سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اور یہ سندھ اسمبلی 13 جنوری سنہ 1977 ع تک چل سکی۔

30 مارچ سنہ 1977 ع میں وجود میں آنے والی چھٹی سندھ اسمبلی میں بھی سید حضرات پیش پیش رہے۔ 14 سید، 4 پیر اور 3 میر حضرات سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ سیدوں میں سے سکھر کے سید اکبر حسین موسوی، نوابشاہ سے سید ظفر علی شاہ اور سید نظر شاہ، حیدرآباد سے سید امیر علی شاہ جاموٹ، سید محمد حسن شاہ اور سید علی نواز شاہ، بدین سے سید قمرالزمان شاہ، تھرپارکر سے سید قطب علی شاہ، دادو سے سید عبداللہ شاہ، ٹھٹہ سے سید اختر حسین شاہ، کراچی سے سید امیر حیدر کاظمی، سید ضیاء عباس اور سید ضمیر حسین جعفری رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔

جبکہ پیروں میں خیرپور سے تعلق رکھنے والے پیر اسد اللہ شاہ، حیدرآباد سے مخدوم امین فہیم اور مخدوم خلیق الزماں اور تھرپارکر سے پیر آفتاب شاہ جیلانی، جبکہ میروں میں سے حیدرآباد سے میر ممتاز علی تالپور، تھرپارکر سے میر محمد یوسف تالپور اور تھرپارکر سے میر امام بخش تالپور سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ یہ اسمبلی 5 جولائی کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔

فروری سنہ 1985 ع کے انتخابات ڈکٹیٹرشپ کے سائے میں ہوئے اور ایک بار پھر سیدوں کو موقع ملا اور جنرل ضیاء کے وردی کے سائے میں ہونے والے انتخابات میں 13 سیدوں نے کامیابی حاصل کی، جبکہ یہ پہلا موقع تھا جب پیر پگاڑا بھی سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، جبکہ میروں میں سے 5 میر حضرات بھی سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ سندھ کی اس ساتویں سندھ اسمبلی میں سیدوں میں سکھر سے سید غوث علی شاہ اور سید خادم علی شاہ، نوابشاہ سے سید منور علی شاہ، سید مراد علی شاہ، سید نواز علی شاہ، سید شوکت حسین شاہ، اور جی ایم سید کے صاحبزادے سید امداد محمد شاہ، خیرپور سے سید سرکار حسین شاہ، حیدرآباد سے سید شفقت حسین شاہ، تھرپارکر سے سید نور محمد شاہ اور سید مظفر حسین شاہ، دادو سے سید محمد شاہ، ٹھٹہ سے سید اعجاز علی شاہ نے کامیابی حاصل کی۔

سنہ 1985 ع کے انتخابات میں سندھ سے واحد پیر، پیر پگاڑا نے خیرپور سے کامیابی حاصل کی۔ جبکہ میر حضرات میر غلام علی تالپور نے خیرپور، میر حیدر علی ٹالپر اور میر اعجاز علی تالپور حیدرآباد سے، میر اللہ بخش تالپور بدین سے اور میر لطف اللہ شان تالپور تھرپارکر سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ فروری 1985ع میں وجود میں آنے والی ساتویں سندھ اسمبلی 30 مئی 1988 ع کو توڑ دی گئی۔

آٹھویں سندھ اسمبلی 19 نومبر 1988 ع میں وجود میں آئی اور 6 اگست 1990 ع تک رہی۔ جس میں بھی سیدوں کا پلڑا بھاری رہا۔ 16 سید رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ جبکہ چار پیروں اور 2 میروں نے کامیابی حاصل کی۔ سکھر سے سید خورشید احمد شاہ، نوابشاہ سے سید امداد محمد شاہ، سید مراد علی شاہ، اور سید منور علی شاہ، خیرپور سے سید قائم علی شاہ، سید علی تقی شاہ اور سید گل شاہ، لاڑکانہ سے سید دیدار حسین شاہ، حیدرآباد سے سید نوید قمر شاہ اور سید محسن شاہ، تھرپارکر سے سید قطب علی شاہ اور سید علی مردان شاہ، دادو سے سید عبداللہ شاہ، ٹھٹہ سے سید اعجاز علی شاہ، کراچی سے سید شاہد میاں، اور سید الطاف حسین کاظمی سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پیروں میں سے حیدرآباد سے مخدوم عبدالحسین عرف شفیق الزماں، مخدوم اللہ بچایو عرف رفیق الزماں، تھرپارکر سے پیر نور محمد شاہ، اور دادو سے پیر الہی بخش کے بیٹے پیر مظہر الحق جبکہ میروں میں سے میر منور علی تالپور تھرپارکر سے، میر محمد حیات خان تالپور تھرپارکر سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

سندھ کی نویں اسمبلی کا قیام 27 اکتوبر 1990 ع میں عمل میں آیا اور یہ سندھ اسمبلی 19 جولائی 1993 تک چل سکی، جس میں سیدوں کا تعداد ماضی کی نسبت زیادہ جبکہ میروں کا تعداد بالکل ختم ہونے والا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب 19 سید حضرات سندھ اسمبلی کے رکن بنے، جبکہ اب کی بار انتخابات میں پیروں نے بھی خاصی کامیابی حاصل کی اور 8 سیٹیں جیت لیں، جبکہ ایک سیٹوں میروں کے حصے میں آئی۔ سیدوں میں سے 3 نشستیں نوابشاہ کے سیدوں کے حصے میں آئیں اور نوابشاہ سے سید اصغر علی شاہ، سید آفتاب علی شاہ اور سید بشیر احمد شاہ، جبکہ ایک پیر، پیر طارق قربان نے بھی نوابشاہ سے کامیابی حاصل کی۔

خیرپور سے سید علی تقی شاہ، سید قائم علی شاہ، پیر صبغت اللہ شاہ راشدی اور سید حاجی گل شاہ نے کامیابی حاصل کی۔ اس طرح لاڑکانہ سے سید دیدار حسین شاہ، حیدرآباد سے سید نور شاہ، سید سہیل محمد مشہدی، سید محسن شاہ بخاری اور سید قبول محمد شاہ، بدین سے سید علی بہادر شاہ، تھرپارکر سے سید علی نواز شاہ اور سید مظفر حسین شاہ، دادو سے سید امیر حیدر شاہ اور سید غلام شاہ جیلانی، ٹھٹہ سے سید اعجاز حسین شاہ شیرازی، کراچی سے سید ہاشم علی اور سید صفدر علی برکی سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پیروں میں سے حیدرآباد سے پیر امجد علی شاہ، بدین سے پیر صدر الدین شاہ راشدی، تھرپارکر سے پیر عبدالغفار قریشی اور پیر نور محمد شاہ جیلانی جبکہ دادو سے پیر مظہر الحق سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ میروں میں سے صرف میر محمد حیات تالپور نے تھرپارکر سے کامیابی حاصل کی۔

اکتوبر 1993 ع میں قائم ہونے والی دسویں سندھ اسمبلی میں بھی پیروں اور سیدوں کا پلڑا بھاری رہا اور پیروں اور سیدوں نے 20 سیٹیں حاصل کی، جبکہ تیں نشستیں میروں کے حصے میں آئیں۔ میر اللہ بخش تالپور نے بدین، میر منور تالپور نے عمرکوٹ اور میر محمد حیات تالپور نے میرپور خاص کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ سیدوں میں سے سید مراد علی شاہ اور سید منور علی شاہ نوشہرو فیروز، سید شوکت حسین شاہ نوابشاہ، سید پرویز علی شاہ خیرپور، سید نور شاہ، سید امید علی شاہ اور سید محسن شاہ حیدرآباد، سید عنایت علی شاہ میرپور خاص، سید علی مرداں شاہ عمرکوٹ، سید عبداللہ شاہ اور سید غلام شاہ جیلانی دادو سے، سید مظفر حسین شاہ سانگھڑ سے، اور سید اعجاز شاہ شیرازی ٹھٹہ سے نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ پیروں میں سے سید صدرالدین شاہ راشدی خیرپور، پیر سید گل شاہ خیرپور، پیر سید امجد علی شاہ اور مخدوم رفیق الزماں حیدرآباد سے، پیر علی بہادر شاہ، بدین، پیر مظہر الحق دادو اور پیر صبغت اللہ شاہ راشدی سانگھڑ سے نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ سندھ اسمبلی 5 نومبر 1996 ع کو ختم کردی گئی۔

3 فروری 1997 ع میں وجود میں آنے والی گیارہویں سندھ اسمبلی کے لئے ہونے والے انتخابات میں بھی سیدوں اور پیروں نے 14 نشستیں حاصل کی۔ جن میں سے سیدوں نے 9 جبکہ پیروں نے پانچ سیٹیں حاصل کی، جبکہ تین نشستیں میروں کے حصے میں آئیں۔ نوشہرو فیروز سے سید مراد علی شاہ اور سید منظور علی شاہ، نوابشاہ سے سید شوکت حسین شاہ، حیدرآباد سے سید افضال احمد شاہ، سید امید علی شاہ اور سید محسن شاہ بخاری، دادو سے سید جلال محمود شاہ اور پیر سید غلام شاہ جیلانی، جبکہ ٹھٹہ سے سید اعجاز شاہ شیرازی نے کامیابی حاصل کی۔

اس طرح پیروں میں سے سید صدرالدین شاہ راشدی نے خیرپور، پیر سید امجد علی شاہ حیدرآباد، مخدوم سعیدالزماں عاطف عرف مخدوم غلام حیدر تھرپارکر، پیر مظہر الحق دادو اور پیر صبغت اللہ شاہ راشدی سانگھڑ کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ میروں میں سے میر اللہ بخش تالپور نے بدین، میر منور تالپور نے عمرکوٹ اور میر محمد حیات تالپور نے میرپور خاص کی نشستیں حاصل کی۔ اور 12 اکتوبر 1999ع تک اس وقت تک سندھ اسمبلی کے ممبر رہے جب تک جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ نہیں الٹ دیا تھا۔

16 نومبر سنہ 2002 ع میں سندھ کی بارہویں قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا، یہ سندھ کی پہلی اسمبلی تھی جس میں سندھ کے ایک پیر گھرانے کی خاتون ماروی مظہر، جو کہ سندھ اسمبلی کے سابق رکن پیر مظہر الحق کی بیٹی تھیں، بھی رکن اسمبلی بنیں۔ ماروی مظہر کے ساتھ ان کے بھائی پیر مجیب بھی سندھ اسمبلی کی رکنیت پر براجمان ہوئے۔ سندھ کی بارہویں قانون ساز اسمبلی میں سید گھرانوں نے 17 جبکہ پیروں نے 5 سیٹیں حاصل کی تھیں۔

جبکہ تین نشستیں میروں کے حصے میں آئی۔ خیرپور سے سید جاوید شاہ اور سید قائم علی شاہ، نوشہروفیروز سے سید نور محمد شاہ، سید منظور حسین شاہ عرف سید غلام حسین شاہ اور سید نور محمد شاہ، نوابشاہ سے سید احمد علی شاہ، حیدرآباد سے سید علی نواز شاہ رضوی، سید ارشد شاہ، سید جلال شاہ جاموٹ، بدین سے سید علی بخش شاہ عرف پپو شاہ، میرپور خاص سے سید علی مرداں شاہ اور سید عرفان شاہ، دادو سے سید آصف علی شاہ، سید مراد علی شاہ، ٹھٹہ کی تین نشستوں پر شیرازی سیدوں نے کامیابی حاصل کی۔

وہ تینوں نشستیں سید کریم ڈنو شاہ شیرازی، سید منظور حسین شاہ شیرازی اور سید سرفراز شاہ شیرازی نے حاصل کی۔ پیروں میں سے پیر صدرالدین شاہ راشدی خیرپور سے، پیر امجد شاہ اور مخدوم جمیل الزماں حیدرآباد سے اور ماروی مظہر اور ان کے بھائی پیر مجیب نے دادو سے سیٹیں حاصل کی۔ جبکہ میروں میں سے میر محمد حسن تالپور نے بدین جبکہ میر محبوب ٹالپر اور میر ذوالفقار تالپور نے میرپور خاص کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اور اس اس اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007 کو مقررہ مدت پر ختم ہوئی۔ سندھ کی یہ پہلی قانون ساز اسمبلی تھی جس نے ایک ڈکٹیٹر کے سائے تلے اپنی مدت مکمل کی تھی۔

17 مارچ سنہ 2008 ع میں سندھ کی چودہویں قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا تو سیدوں اور پیروں نے مجموعی طور پر 15 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جن میں سے 10 سیدوں اور 5 پیروں کے حصے میں آئیں۔ تاہم میروں کو بھی تین نشستیں حاصل ہوئیں۔ دادو سے پیر مظہر الحق کے بیٹے اور بیٹی کی جگہ ایک بار پھر پیر مظہر الحق نے کامیابی حاصل کی، جبکہ پیر سید غلام شاہ جیلانی نے دادو سے اپنی روایتی جوھی کی نشست سے کامیابی حاصل کی۔

جبکہ پیر امجد شاہ جیلانی حیدرآباد، مخدوم جمیل الزماں اور پیر امیر علی شاہ جاموٹ نے مٹیاری کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ میروں میں میر محمد حسن تالپور نے بدین جبکہ میر حیات تالپور اور میر محبوب تالپور نے میرپور خاص سے نشستیں حاصل کیں۔ سیدوں میں سے سید مراد علی شاہ نے جام شورو، سید محمد بچل شاہ، سید احمد رضا شاہ جیلانی اور سید قائم علی شاہ نے خیرپور، سید علی نواز شاہ نے میرپور خاص، سید سرفراز حسین شاہ نے نوشہرو فیروز، سید فصیح احمد شاہ نے شہید بینظیر آباد سے، سید جاوید شاہ نے سکھر، سید علی نواز شاہ نے ٹنڈوالھیار، ٹھٹہ شاہ حسین شاہ شیرازی نے ٹھٹہ سے نشستیں حاصل کیں۔ اس اسمبلی نے اپنی مدت 16 مارچ 2013 کو پوری کی۔ اور یہ سندھ کی دوسری قانون ساز اسمبلی تھی جس نے اپنی مدت پوری کی تھی۔

حالیہ انتخابات میں بھی سندھ کے سید اور پیر پیچھے نہیں رہے۔ حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر پیروں اور سیدوں نے کامیابی حاصل کی، جبکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست میروں کے حصے میں آئی۔ حالیہ انتخابات میں سکھر سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 199 پر سید خورشید احمد شاہ 86 ہزار سے زائد ووٹ کے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ قومی اسمبلی کے دیگر حلقوں این اے 212 نوشہروفیروز سے سید اصغر علی شاہ، این اے 214 نوابشاہ سے سید غلام مصطفی شاہ، این اے 216 خیرپور سے پیر صدرالدین شاہ راشدی، این اے 217 خیرپور پر سید قائم علی شاہ، این اے 218 مٹیاری سے مخدوم امین فہیم، این اے 222 ٹنڈو محمد خان سے سید نوید قمر شاہ، این اے 226 میرپور خاص سے پیر شفقت حسین شاہ جیلانی، این اے 230 تھرپارکر سے پیر نور محمد شاہ جیلانی، این اے 235 سے پیر صدر الدین شاہ راشدی، این اے 228 ٹھٹہ سے سید اعجاز حسین شاہ شیرازی نے کامیابی حاصل کی۔ جبکہ میروں میں سے میر منور تالپور نے این اے 228 عمرکوٹ سے نواب محمد یوسف تالپور نے قومی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔

حالیہ انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی سیدوں اور پیروں نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ پی ایس 2 سکھر ٹو سے سید ناصر حسین شاہ، پی ایس 4 سکھر تین سے سید اویس قادر، پی ایس 20 نوشہروفیروز ٹو سے سید مراد علی شاہ، پی ایس 21 نوشہروفیروز سے سید سرفراز حسین شاہ، پی ایس 26 شہید بینظیرآباد تھری سے سید فصیح احمد شاہ، پی ایس 29 خیرپور ون سے سید قائم علی شاہ، پی ایس 30 خیرپور ٹو سے محمد راشد شاہ، پی ایس 33 خیرپور 5 سے پیر سید فضل شاہ جیلانی، پی ایس 43 مٹیاری سے مخدوم جمیل الزماں، پی ایس 44 مٹیاری سے ہی مخدوم رفیق الزماں، پی ایس 51 ٹنڈوالھیار سے سید ضیاء عباس شاہ، پی ایس 53 ٹنڈو محمد خان سے سید اعجاز حسین شاہ بخاری، پی ایس 69 عمرکوٹ سے سید سردار علی شاہ، پی ایس 70 عمرکوٹ سے سید علی مرداں شاہ، پی ایس 73 جام شورو، سید عبدالنبی شاہ، پی ایس 74 دادو سے پیر مظہر الحق کے بیٹے پیر مجیب الحق، پی ایس 75 دادو سے سید غلام شاہ جیلانی، پی ایس 84 ٹھٹہ سے سید اعجاز علی شاہ شیرازی، پی ایس 85 ٹھٹہ ٹو سے سید امیر حیدر شاہ، پی ایس 86 ٹھٹہ تین سے سید شاہ حسین شاہ سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس وقت سندھ اسمبلی میں موجود ارکان میں سے 20 ارکان کا تعلق سندھ کے پیر اور سید گھرانوں سے ہے۔

سہروردیہ کے پیروں کے حوالے سے کے اے نظامی اپنی کتاب ”سہروردیہ خاندان اور بھارتی سیاست پر ان کے اثرات“ میں لکھتے ہیں کہ چونکہ سلسلہ سہروردیہ کے پیروں نے سندھ وارد ہونے میں پہل کی تھی لہذا حکمرانوں اور صوفیاء کے تعلقات پر ان کا بہت اثر تھا۔ یہ بادشاہوں اور حکمرانوں سے بنا کر رکھتے تھے، اگرچہ بظاہر وہ عوام کے مذہبی محافظ ہونے کے داعی تھے، مال و متاع جمع کرنے پر ان کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ سلاطین کے دور حکومت میں مداخلت کی سب سے بڑی مثال بھی سندھ میں ملتی ہے۔

برسوں سے سید اور پیر خود کو سندھ کے وارث گردانتے اور اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ 1788 میں ٹھٹہ کے تاریخی شہر جھوک میں دنیا کے پہلے کمیونسٹ اور صوفی بزرگ شاہ عنایت شہید المعروف حلاج سندھ کی شہادت سندھ کے مقامی پیروں اور دھلی کے حکمرانوں کے مابین تعلقات کی ایک نمایاں مثال ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی آبائی زمین مزارعوں میں تقسیم کر دی بلکہ سندھی نعرہ ”جو کھیڑے سو کھائے“ بھی لگایا۔

جو بات سندھ کے دیگر پیروں کو ناگوار گزری اور انہیں نہ صرف اپنے مرید بلکہ مزارع اور مادی وسائل کھونے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ انہوں نے دھلی کے حکمرانوں سے مدد کی درخواست کی اور مغل دربار کو اپنے مفادات کا احساس تھا اور وہ مدد کے لئے آمادہ ہو گیا اور شاہی افواج نے جھوک کا محاصرہ کر کے شاہ عنایت شہید کو گرفتار کر کے ان کی گردن مار دی۔ جرمن محقق اینی میری شمل اپنی کتاب ”شاہ عنایت شہید آف جھوک“ میں لکھتی ہیں کہ یہ صورتحال ان عوامل کی نشاندہی کرتی ہے جو اس وقت کے سندھ میں رونما ہوئے جب کہ وہاں کے پیر مذہبی راہنماؤں کا بھیس بدل کر سیاسی اور با اثر معززین و اکابرین کا روپ دھار اپنا رہے تھے۔

کچھ ایسے ہی گروہی اور شخصی مفادات تھے جن کے تحت پیروں اور سیدوں نے قبل از تقسیم ہند پہلے انگریزوں کی فرماں روائی کرتے رہے بعد ازاں جب انہوں نے محسوس کر لیا کہ اب برصغیر تقسیم ہونے جا رہا ہے تو بیشتر سید، میر اور پیر آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ ہو لئے۔ انگریزوں کے دور حکمرانی میں سندھ کی سیاست میں پیروں کا کردار بہت اہم تھا۔ خاص طور پر معاشرے میں ایک توازن پیدا کرنے کے واسطے لوگ قرب الہی کی خاطر، ان کو ذریعہ شفاعت سمجھتے ہیں۔

لہذا ان کے اثر رسوخ کے بدلے ان کو بڑی بڑی جاگیریں اور اعزازات سے نوازا جاتا تھا۔ سرحد اور مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے ان کا رعب اور دبدبہ بہت تھا۔ وہ بیش بہا سرمایہ اور وسائل کے مالک کی حیثیت سے سیاسی اور حکومتی ڈھانچے کے اہم ستون بھی تھے اور ان کی حالت مراکش اور شمال مغربی سرحد کے ثالثوں سے مختلف اور جنوب مغربی پنجاب کے سجادہ نشین زمینداروں جیسی تھی۔

معروف محقق جیمز میک مرڈو سندھ کے پیروں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”جاگیریں عطا کرنے میں اور پرانے عطیات کی توثیق کے معاملے میں تالپور گو اتنے دریا دل نہ تھے مگر انہوں نے پیروں کے لئے جاری کردہ مراعات کو نہ چھیڑا۔ یہاں تک کہ جب انگریز وارد ہوئے تو ایک تخمینہ کے مطابق سرکار کے محاصل کا لگ بھگ ایک تہائی ان دینی محکموں کی نذر ہوتا تھا۔ اس کی مالیت لگ بھگ 50 لاکھ سالانہ تھی۔

انیسویں صدی کے آغاز تک لوگوں کی نظر میں پیروں کی عزت اور بڑھ گئی اور محصول سے معاف باغات اور اراضی اور نذرانے کی آمدن کی وجہ سے ان کی زندگی نہایت آرام دہ ہو گئی۔ ان کا اثر رسوخ اور بھی بڑھ گیا تھا، عوام اور مریدوں کی زندگی ان کے ہاتھ میں تھی۔ اگر کوئی شخص امیر یا اس کے اہلکار سے خوف زدہ یا تنگ ہوتا تو پیر کے گاؤں میں پناہ لیتا۔ پیر صاحبان میروں اور حکمرانوں کے مشیر بھی بن گئے۔ پیر خاندان کے افراد ان اکابرین مین سے تھے جو حکومت کا نظام چلانے کے لئے ضروری تھے۔

یہ سلسلہ تب سے اب تک جاری ہے اور ہر گزرتے دن سندھ میں پیر اور سید حضرات کا اثر رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے انتخابات کے برعکس حالیہ انتخابات میں 20 صوبائی اسمبلی اور 11 قومی اسمبلی کی نشستیں پیروں اور سیدوں کے پاس ہیں، جس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ میں پیروں اور سیدوں کا کتنا اثر رسوخ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments