اے مین ہو واز ایٹ ہاسپٹل پارٹ ٹو


صبح اٹھے تو انگشت شہادت کے ساتھ والی درمیانی انگلی میں سوجن تھی۔ ساتھ میں ہلکا ہلکا درد بھی تھا۔

ایسے لگتا تھا کہ چوٹ لگی ہے۔ اس سے پچھلی صبح ایسا ہی ہلکا درد داہنے ٹخنے میں بھی تھا جسے یہ سوچ کر نظر انداز کر دیا تھا کہ جاگنگ کی وجہ سے ہو گیا ہو گا۔ بڑے سیانے کہتے ہیں برسات میں خون اور پانی مکس ہوا ہوتا ہے۔ اس موسم میں ہڈیاں کمزور بلکہ بہت کمزور ہوجاتی ہیں۔ جسم کا بوجھ بھی بمشکل سہارتی ہیں۔ لیکن برسات تو ابھی آئی نہیں؟ یہ تو ہاڑ چل رہا ہے۔ خیر ہے گلوبل وارمنگ کے باعث موسم تبدیل ہوچکے۔ احتیاط کرو۔ کچھ دن جاگنگ سے پرہیز کرو۔ دیکھیے کیسے ہمارا دماغ کام کرتا ہے۔ اچھا بھلا پڑھے ہیں۔ میڈیکل سائنسز سے آگاہ ہیں۔ مگر آج تک سمجھتے ہیں کہ آم اور کھجور بہت گرم جبکہ کینو بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اخیر سائنس ہے اپنے یہاں بھی۔

تو مڈل فنگر پر جب غور کیا تو غیب سے کیا مضمون خیال میں آیا کہ یار یہ مارننگ سٹفنیس اور چھوٹے جوڑوں کا درد تو آٹو امیون ڈیزیز ریوماٹائیڈ آرتھرائٹس کی علامت نہیں؟

کہیں تجھے اس عمر میں ہی آر اے؟
نہیں نہیں۔ بکواس بند کر۔ مجھے کیوں ہو گا۔

نئیں یار۔ بات سن۔ اس کا تو علاج بھی نہیں ہے۔ ساری زندگی این ایس ایڈز اور سٹیرائیڈز کھانے پڑتے ہیں۔ بڑھاپے میں کیا کرے گا؟

یہی تو تم دیسی لوگوں میں مسئلہ ہے۔ ڈر کے مارے ٹیسٹ نہیں کراتے۔ مرض بڑھتا جاتا ہے۔
کہیں کڈنی فنکشن تو متاثر نہیں ہو گیا؟
سالے اور کھا ناشتے میں ابلے ہوئے انڈے۔

ہر روز تجھے سالن میں بوٹی چاہیے۔ کل پورا چیسٹ پیس پھاڑ گیا۔ اب لے مزہ۔ یوریا اینڈ یورک ایسڈ بڑھ گیا ہو گا۔ ڈپازٹ ہو گیا جسم میں۔

میں کہتا ہوں شہابیوں کی برسات دماغ میں ہونے لگی اور نیند کوسوں دور چلی گئی۔ ہڑبڑا کر بستر پر اٹھ بیٹھا۔

فوراً ایک دوست کو فون لگایا جس کی بیوی کو آر اے تھا۔
احوال بتایا۔

”اوہوہو ہو۔ محمدعلی! یہ وہی ہے بھائی۔ فوراً آر اے فیکٹر کا ٹیسٹ کروا۔ ساتھ میں بلڈ یوریا اور یورک ایسڈ اور رینل ایگزام بھی یورین کا کرا لے۔“

میں : یار پہلے کیفلام پچاس ایم جی نہ لے لوں۔

دوست: لے لے۔ مگر رسک نہ لے۔ ناشتے کے بعد ٹیسٹ کرا۔ اگر یورک ایسڈ بڑھا ہوا آتا ہے تو کڈنی فنکشن ڈسٹرب ہے۔ نان ریلیٹو ٹرانسپلانٹ پر تو پابندی ہے۔ تجھے گردہ کون دے گا؟

میں : یارررر۔ تیری****************
ڈرا کیوں رہا ہے؟

دوست : یار میں کیوں ڈراؤں گا۔ تو خود لیور اینڈ کڈنی ٹرانسپلانٹ میں کام کر چکا ہے۔ تجھے سب پتہ ہی ہے۔

میں : یار ہو سکتا ہے آر اے ہو۔ کڈنی ٹھیک ہے۔ میں بہت پانی پیتا ہوں۔ سارا دن میرے دو ہی کام ہیں۔ پانی پینا اور بیت الخلا جانا۔ (میں نے خود کو تسلی دی۔ )

دوست : چلو جو بھی ہوا پتہ چل جائے گا۔ پروٹین نہ لینا ناشتے میں۔ اوکے۔
خدا حافظ۔
یہ کیا بنا رہی ہو بیگم؟
بیگم : پراٹھا۔
میں : کھاؤں گا کس کے ساتھ؟ سالن تو ہے نہیں۔
بیگم : آملیٹ بنا دوں؟
میں : نہیں۔ پروٹین بالکل نہیں۔ ٹیسٹ کرانے جا رہا ہوں۔
بیگم : پھر شامی تل دوں؟
میں : توبہ توبہ۔ بیف۔ کبھی نہیں۔ آج شام کو بھی کالی توری پکاؤ۔
بیگم: پھر؟
بس ملک شیک پیوں گا اور دو سلائس ڈبل روٹی۔
بہت مشکل سے ڈبل روٹی شیک کے ساتھ نگل، گاڑی نکال لیب جا پہنچا۔

بلڈ یوریا، یورک ایسڈ، یورین آر ای، اور آر اے (رہیوماٹائیڈ آرتھرائیٹس ) کے ٹیسٹ واسطے سیمپل دیے۔ ظالم نرس نے چنگا بھلا خون نکال لیا۔

رپورٹ شام تک ای میل کر دی جائے گی سر۔ اوکے۔
واپسی پر دل میں طرح طرح کے ہول اٹھتے رہے۔ دنیا کی بے ثباتی پر دل اداس ہو گیا۔
غالب کا مصرع رہ رہ کر یاد آتا تھا
”تندرستی ہزار نعمت ہے۔“

گھر آ کر زندہ لاش کی طرح صوفے پر دراز ہو گیا اور مستقبل کی پلاننگ کرنے لگا کہ آخر کس طرح اس لاعلاج بیماری کو شکست دینی ہے۔ تفکرات گہرے ہوئے تو مزید علامات جسم میں نظر آنے لگیں۔ بیٹھے بیٹھے گھٹنے میں بھی ہلکا ہلکا درد ہو گیا۔ فوراً سال چہارم کی پتھالوجی کی کتاب نکال کر مطالعہ شروع کیا۔ معلوم ہوا تھکاوٹ اور بھوک کا نہ لگنا بھی نشانی ہے۔ وہ بھی پوری ہوئی۔

اسی ادھیڑ بن میں شام ہو گئی۔
خیالات کا یہ سلسلہ بیگم کی اس آواز کے ساتھ ٹوٹا

یہ پانی کی بیس لٹر والی بوتلوں کے سٹینڈ کی جگہ تبدیل کر دیں۔ پرسوں ایک بوتل آپ کے ہاتھ پر لگی تھی۔ آج میرا ہاتھ بھی اس سے زور سے ٹکرایا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ای میل نوٹیفیکیشن آیا۔ چاروں رپورٹیں نارمل اور کلیئر تھیں۔

جان میں جان آئی۔ بھوک زور کی لگی ہوئی تھی صبح سے ڈر کے مارے کچھ کھایا جو نہیں تھا۔ کھانا جو لگا تو آگے کالی توری رکابی میں پڑی منہ چڑا رہی تھی۔

اے مین ہو واز ایٹ ہاسپٹل پارٹ ٹو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments