عالمی یوم انسداد منشیات


26 جون 1989 سے یہ دن منشیات کے استعمال اور ناجائز منشیات کی خرید فروخت کے خلاف پوری دنیا ہیں انسداد منشیات اور منشیات ایک لعنت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس دن کو منشیات کے نقصان خصوصاً اس کے استعمال سے انسانی صحت کی تباہی و بربادی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات سے متعلق آگاہی مہم کے تحت مختلف پروگرام جن میں سیمینارز، واک، ریلیز اور عوامی اجتماع کے دیگر پروگرامات کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں الیکٹرا نک اور پرنٹ میڈیا پر بھی مختلف اداریے، کالمز اور ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کیے جاتے ہیں جس کا واحد مقصد منشیات کے خلاف سدباب اور اس لعنت سے چھٹکارا ہوتا ہے۔

گزشتہ رات راولپنڈی آرٹس کونسل اور محکمہ انسداد منشیات ( انٹی نارکوٹیکس فورس ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی) سے اشتراک سے ایک میوزیکل ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں عوامی شرکت اور دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ملی اور علاقائی نغمے، لوک رقص، صوفیانہ کلام کے علاوہ خصوصی خاکوں پر مبنی سٹیج شو پیش کیا گیا جس میں منشیات کے نقصانات، تباہ کاریوں اور اس کے پھیلاؤ کے خلاف حکومتی سطح پر کی گئی کوششوں کا ذکر کیا گیا۔ کھیل کھیل میں عوام کو بتایا گیا کہ اس لعنت سے کیسے بھرے پرے خاندان تباہ ہو گئے۔

نوجوان نسل جو کہ علامہ اقبال کے خوابوں اور قائد اعظم کی امیدوں اور امنگوں کی ترجمان تھی جنہوں نے اس ملت کی قیادت کرنی تھی اور پاکستان کا بوجھ اٹھانا تھا وہ آج تباہ اور برباد ہو کر اپنا بوجھ بھی کسی کے کندھوں پر ڈالے ہوئے ہے۔ اگر آج اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پتہ چلے کتنے ایسے نامی گرامی زمیندار گھرانے تھے جن کی فصلیں لہلہاتی تھیں کھیت سونا اگلتے تھے۔ مگر آج اس منشیات کی لعنت سے وہ زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ بک چکی ہیں۔ وہ گھرانے برباد ہو گئے ہیں۔ بڑی بڑی حویلیاں اور جاگیریں ویران پڑی ہے۔ کیسے کیسے خوبصورت اور سجیلے نوجوان جن کی شان میں شاعروں نے نغمے لکھے اور گلوکاروں نے گیت گنگنائے۔ مگر نشے کی بری لت کی وجہ سے آج وہ بھر پور جوانی میں منوں مٹی تلے جا چکے ہیں۔

وطن عزیز کا کوئی ایسا بازار، گلی کوچہ اور فٹ پاتھ نہیں جہاں آپ کو اکا دکا منشیات کا عادی حالت غیر میں نہ ملا ہو۔ جن کو معاشرے میں ”جہاز“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور آج اس لعنت کی وجہ سے ان کے اپنے پیارے ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے اپنے گھروں کے دروازے ان کے لیے بند ہو چکے ہیں۔

اس کی کچھ معاشرتی وجوہات تو سامنے آتی ہیں جس میں غربت و افلاس، بے روز گاری اور عدم انصاف ہے جس کی وجہ سے جو لوگ منشیات فروشوں کے ہتھے چڑھ کر عادی بنے وہ اب باقاعدہ بھکاری بھی بن گئے اور ساتھ چھوٹی موٹی چوری چکاری بھی سیکھ لی اور نہیں تو پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا جیسے گٹروں کے ڈھکن اور سڑک کے بیچ لگے جنگلے توڑنا اور گلی محلوں اور مساجد میں وارداتیں کرنا۔

دوسرا گروہ ماں باپ کے نا جائز لاڈ، پیار، ڈھیل اور دولت کی ریل پیل والے لوگ۔ یہ منشیات فروشوں کا بڑا ٹارگٹ اور ان کے کاروبار کو تقویت دیتے ہیں۔ ایک طرف تعلیم ادھوری اور ساتھ میں دیگر جرائم جیسے موبائل اور پرس چھیننا اور موٹر سائیکل اور کاروں کے ڈاکے وغیرہ

منشیات بذات خود میڈیا وار اور دوسرے غیر روایتی جنگی حربوں کی طرح ایک جنگی حربہ ہے۔ اب باقاعدہ روایتی ہتھیاروں سے جنگ تھوڑی ہی لڑی جاتی ہے۔ دشمن کے منصوبوں میں ایک اہم ترین منصوبہ یہ بھی ہے کہ جس ملک یا قوم کو اندر ہی اندر کھوکھلا اور کمزور کرنا ہو۔ اس کی نوجوان نسل خصوصاً ً طلبا کو نشے پر لگا دو ۔ جس ملک کی یوتھ میں یہ لعنت آ گئی اب وہ تھوڑا ترقی کرے گا۔

اب وہ دشمن آپ کا روایتی خارجی دشمن بھی ہو سکتا ہے اور داخلی بھی جس کو ملک عزیز کی ترقی اور پھلنا پھولنا پسند نہیں ہے۔

آئیے ہم سب اپنے گرد و نواح پر نظر رکھیں اور کسی بھی ایسی مشکوک سرگرمی کا نوٹس لیتے ہوئے ملک میں موجود ذمہ دار اداروں کو اس کی بر وقت خبر کریں۔ یہ ہم سب پاکستانی شہریوں کی ذمہ داری ہے۔ ساتھ ہی اداروں سے بھی التجا ہے کہ وہ اپنی استعداد کار کو بہتر کرتے ہوئے ان ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کریں کہ آخر یہ کون لوگ ہیں اور کن مضبوط بیساکھیوں کے سہارے پر منشیات کی نقل و حمل کرتے ہیں اور جس طرح ایک عام شہری کو آسانی سے اپنی ضروریات زندگی دستیاب ہے اس طرح منشیات کے عادی افراد کو بغیر کسی دقت کے ہر ٹاؤن شہر اور دیہات میں یہ لعنت کیسے دستیاب ہے۔ اس نیٹ ورک کے معاون و مددگار کون ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments