پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیوں کی حالت زار


پاکستان میں مجموعی طور 237 سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں ہیں جن میں سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد 141 اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی تعداد 96 ہے۔ پنجاب میں 48، خیبر پختونخوا میں 31، سندھ میں 29، اسلام آباد میں 17، بلوچستان میں 9، کشمیر میں 5 اور گلگت بلتستان میں 2 یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ حالیہ بجٹ میں ملک بھر کی جامعات کے لیے 104 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے جس میں 4 ارب 41 کروڑ روپے ترقیاتی اور 60 ارب روپے دوسری مد میں رکھے گئے ہیں۔ دنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی دو تین یونیورسٹیوں کا نام آ جائے تو ہم پھولے نہیں سماتے بہرحال پاکستان اس وقت اعلیٰ تعلیم اور معیاری تعلیمی اداروں کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ اس فاصلے کو کم کرنے کے لئے ہمیں سرکاری تعلیمی اداروں کو مزید وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں فروغ تعلیم میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں لیکن پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں تعلیم اس حد تک مہنگی ہے کہ غریب آدمی کے لئے ان یونیورسٹیوں میں اپنے بچوں کو پڑھانا ممکن نہیں لہذا سرکاری یونیورسٹیوں پر داخلے کے حصول کے لئے بڑا دباؤ ہے۔ ہر سال ہزاروں طلبہ و طالبات یونیورسٹیوں میں نشستیں کم ہونے کی وجہ سے داخلے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے ہائر ایجوکیشن قائم رکھا ہے جس کے چیئرمین کی تقرری کے لئے وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کی سربراہی میں کمیٹی انٹرویوز کر رہی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے۔ آئندہ چند نوں میں ہائر ایجوکیشن کمشن کے چیئرمین کی تقرری عمل میں آ جائے گی۔

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 23۔ 2022 سالانہ بجٹ کے سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لئے مجموعی طور پر 44178.907 ملین روپے مختص کیے ہیں جس میں جاری منصوبوں کے لئے 38728.907 ملین روپے اور نئے 13 منصوبوں کے لئے 5450 ملین روپے شامل ہیں۔ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 23۔ 2022 سالانہ بجٹ کے سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لئے مجموعی طور پر 44178.907 ملین روپے مختص کیے ہیں جس میں جاری منصوبوں کے لئے 38728.907 ملین روپے اور نئے 13 منصوبوں کے لئے 5450 ملین روپے شامل ہیں۔ ایچ ای سی کے جاری منصوبوں سی پیک کنسورشیم آف یونیورسٹیز کے زیر اہتمام اکیڈمی کلوبیریشن کے لئے 300 ملین روپے، افغان طلبا کے لئے 3 ہزار علامہ اقبال اسکالر شپس (پی ایم ڈویژن ) 1000 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پی آئی ای اے ایس۔ اسلام آباد میں سنٹر فار میتھمیٹکس سائنسز کے لئے 290.984 ملین، شہید ذوالفقار علی میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد میں اکیڈمی بلاک کی تعمیر کے لئے 200 ملین، شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا کراچی میں ہاسٹل اکیڈمی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے 150 ملین، خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک کے مین کیمپس کی تعمیر کے لئے 200 ملین، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کی تعمیر و ترقی کے لئے 300 ملین، بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کوئٹہ کی ایکسٹینشن کے لئے 100 ملین، یونیورسٹی آف کوٹلی آزاد کشمیر میں اکیڈمک اور ریسرچ سہولیات کی ترقی کے لئے 200 ملین، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد سندھ کے قیام کے لئے 400 ملین گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے کالا شاہ کاکو کیمپس (فیز ٹو) کے لئے 400 ملین، لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے لئے 300 ملین، باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے مین کیمپس کی تعمیر کے لئے 350 ملین، نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز راولپنڈی کی ترقی کے لئے 300 ملین، سندھ مدرستہ السلام کیمپس ملیر کراچی کی ترقی کے لئے 400 ملین، یونیورسٹی آف بونیر کے لئے 500 ملین، یونیورسٹی آف دیر کے لئے 464.187 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یونیورسٹی آف ساہیوال کے لئے 200 ملین، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ انیمل سائنسز کے راوی کیمپس پتوکی میں تحقیقی سہولیات کے لئے 192.929 ملین، آزاد کشمیر ویمن یونیورسٹی باغ کے لئے 200 ملین، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس کے لئے 200 ملین، ایس ایم بی بی میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کے لئے 250 ملین، کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کیمپس ایبٹ آباد کے لئے 100 ملین، ڈاکٹر اشفاق احمد خان سنٹر بیسک سائنسز کے قیام کے لئے 300 ملین، قراقرم انٹرنیشنل یونیوسٹی کے کیمپس گلگت اور سکردو میں انجینئرنگ سہولیات کے لئے 250 ملین، فاٹا یونیورسٹی کے قیام کے لئے 417.733 ملین، فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف حیدر آباد سندھ کے قیام کے لئے 200 ملین، بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی خضدار میں سہولیات کی ترقی کے لئے 350 ملین، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں صوفی ازم انسٹیٹیوٹ کے قیام کے لئے 183.865 ملین، یوتھ اولمپک ایچ ای سی کے لئے 250 ملین، نیشنل سنٹر آف ایکسیلینس ان بگ ڈیٹا اینڈ کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے قیام کے لئے 354.079 ملین، نیشنل سنٹر آف ایکسیلینس ان سائبر سکیورٹی کے قیام کے لئے 185 ملین، کوئٹہ میں نسٹ یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام کے لئے 1005.370 ملین، سرکاری یونیورسٹیوں کے ضلعی سطح پر کیمپس کے قیام کے لئے 1281.049 ملین، آئی بی اے یونیوسٹی کیمپس میر پور خاص کے لئے 400 ملین، یونیورسٹی آف چترال کے قیام کے لئے 100 ملین، یونیورسٹی کیمپس برائے خواتین بنوں کے قیام کے لئے 300 ملین، یونیورسٹی کالج ژوب کے قیام کے لئے 400 ملین روپے، یونیورسٹی آف بلتستان سکر دو کے قیام کے لئے 300 ملین، یونیورسٹی آف سوات کے قیام کے لئے 300 ملین، یونیورسٹی آف تربت کے قیام کے لئے 200 ملین، سوات یونیورسٹی مینگورہ کے خواتین سب کیمپس کے قیام کے لئے 300 ملین، بٹ خیلہ یونیورسٹی مالاکنڈ کے خواتین کیمپس کے قیام کے لئے 200 ملین، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں کے اخراجات اور بہتری کے لئے 200 ملین، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ایچ ٹین اسلام آباد کے اخراجات اور اپ گریڈیشن کے لئے 544.358 ملین روپے، یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ مین کیمپس میں اکیڈیمک سہولیات کو وسعت دینے کے لئے 300 ملین، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شہید بے نظیر آباد کی ایکسٹینشن کے لئے 350 ملین، فل برائٹ سکالر شپ پروگرام فیز تھری کے لئے 600 ملین، پرائم منسٹر یوتھ پروگرام، گرین یوتھ موومنٹ کے لئے 100 ملین، ہائر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ پروگرام آف پاکستان کے لئے 1000 ملین، ایچ ای سی کے انجنیئرنگ یونیورسٹیز میں ایم ایس لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی پروگرام میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے لئے 500 ملین، کراچی یونیورسٹی میں اکیڈیمک سہولیات کی ترقی کے لئے 500 ملین، ایچ ای سی کے ان ڈیجنس پی ایچ ڈی فیلو شپ کی 5000 سکالر شپس کے لئے 400 ملین، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سب کیمپس لاہور میں انوویشن سنٹر اور سافٹ ویئر پارک کے قیام کے لئے 700 ملین، اسلامیہ کالج پشاور میں آئی ٹی کے شعبہ میں انڈسٹریل انوویشن اینڈ ریسرچ سنٹر کے لئے 315.985 ملین، ایچ ای سی کے اووسیز پاکستانیوں کے لئے سکالر شپ پروگرام برائے ایم ایس، ایم فل لیڈی ٹو پی ایچ ڈی کے لئے 600 ملین، پاک امریکہ نالج کوریڈور فیز ون کے تحت پی ایچ ڈی سکالر شپ پروگرام کے لئے 700 ملین، ایچ ای سی کے پوسٹ ڈاکٹرل فیلو شپ پروگرام فیز تھری کے لئے 500 ملین، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں گرلز ہاسٹل اور اکیڈمک اور سرچ سٹی کی فراہمی کے لئے 400 ملین، اسلام آباد میں سرکاری یونیورسٹیوں کی خواتین طلبا کی رہائشی سہولیات کے لئے 300 ملین، ایچ ای سی کے فاٹا اور بلوچستان کے طلبا کو اعلی تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کے پروگرام کے تیسرے مرحلے کے لئے 450 ملین، یونیورسٹی آف ہری پور میں فزیکل اینڈ ٹیکنالوجیکل انفراسٹرکچر کے لئے 498.402 ملین مختص کیے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پی ایس ڈی پی میں نئے منصوبوں میں کوسٹل ریجن ہائر ایجوکیشن سکالرشپ پروگرام برائے بلوچستان کے لئے 200 ملین، پاک کوریا نیوٹریشن سنٹر کے قیام کے لئے 100 ملین، لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے مستقل کیمپس کے قیام کے لئے 300 ملین، یونیورسٹی آف گوادر فیز ون کے قیام کے لئے 350 ملین، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں ری ہیبلیٹیشن اپ گریڈیشن کے لئے 300 ملین، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی آف لاہور میں سنٹر آف ایڈوانس سٹڈی فزکس کے لئے 100 ملین، ڈاکٹر اے کیو خان انسٹیٹیوٹ آف مٹیرالوجی اینڈ ایمرجنگ سائنسز 350 ملین، ملک کی انجینئرنگ کے شعبہ میں 5 نمایاں یونیورسٹیوں میں لیب کی سہولیات کی بہتری کے لئے 1500 ملین روپے اور یوتھ لیپ ٹاپ سکیم کے لئے 1500 ملین مختص کیے ہیں۔

پچھلے دنوں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی و دیکھنے کا موقع ملا خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا لگایا ہوا وہ پودا ہے جو روز بروز شجر سایہ دار کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ اگر اس کی تاریخ کی بات کریں تو گزشتہ دہائی میں صوبہ پنجاب میں 14 نئی یونیورسٹیز کا آغاز کیا گیا۔ ان میں سے چند ایک نئی تعمیر ہوئیں اور کچھ ایسی بھی تھیں جہاں کسی بڑے کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ ان یونیورسٹیز کے مسائل پرانی یونیورسٹیز سے بالکل مختلف تھے۔ ان میں سے کسی کے بھی سروس statutes نہیں تھے۔ کہیں فنڈز کی عدم دستیابی سے فیس زیادہ تھی تو کہیں دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے تجربہ کار فیکلٹی اور سٹاف دستیاب نہیں تھے۔ رہی سہی کسر کرونا وبا نے پوری کر دی۔ الغرض مسائل ہی مسائل تھے۔ ان نئی یونیورسٹیز میں بہت کم ایسی ہیں جنہوں نے مشکل حالات کے باوجود ترقی کی اور معاشی استحکام حاصل کیا اور اس وقت یہ ہی یونیورسٹیز ایک بہترین ماڈل کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ ان میں سے ایک قابل ذکر مثال خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے جو کہ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں واقع ہے۔

تقریباً اڑھائی سال قبل پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے جامعہ کا بطور وائس چانسلر چارج سنبھالا تو یونیورسٹی میں مسائل کا انبار تھا۔ تاہم گزشتہ اڑھائی سالوں میں یونیورسٹی نے نہ صرف تیز رفتار ترقی کی بلکہ یونیورسٹی کو جامع اور مربوط پالیسیز پر عملدرآمد کی بدولت معاشی استحکام بھی حاصل ہوا۔ خواجہ فرید یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد 8 ہزار سے بڑھ کر 16 ہزار کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ ترقیاتی کام کی رواں سال جون میں تکمیل کے بعد یہ تعداد 25 ہزار تک پہنچنے کی توقع ہے۔ تیس سے زائد نئے بی ایس، ایم ایس اینڈ پی ایچ ڈی پروگرامز شروع کیے گئے ہیں۔ یونیورسٹی اوپن کورس ویئر متعارف کروایا گیا جس پر سٹوڈنٹس کے لئے تمام کورسز سے متعلق لرننگ میٹیریل اور ریکارڈڈ لیکچرز موجود ہیں۔ تدریس کو مزید موثر بنانے کے لئے فارن یونیورسٹیز کے پروفیسرز کے لیکچرز کا اہتمام کیا گیا۔

یونیورسٹی میں پی سی ون فیز ٹو کے تحت آٹھ اور یونیورسٹی کے اپنے فنڈز سے بارہ ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کا آغاز کیا گیا۔ سروس statutes منظور ہوئے۔ انٹرنیشنل گرین میٹرک رینکنگ 2021 کے مطابق پاکستان کی انجنئیرنگ و پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں پہلے نمبر پر رہی۔ انٹرنیشنل ٹائم ہائر ایجوکیشن رینکنگ میں یونیورسٹی کا شمار دنیا کی تین سو سے چار سو بہترین یونیورسٹیوں میں ہوا جب کہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ 2022 کے مطابق خواجہ فرید یونیورسٹی نے کوالٹی ایجوکیشن کی کیٹگری میں انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے جب کہ ملک بھر میں 10 ویں اور دنیا بھر کی 200 سے 300 بہترین جامعات کی فہرست میں شامل ہو گئی ہے۔ ٹائمز ہائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ 2022 کے مطابق خواجہ فرید یونیورسٹی نے افورڈ ایبل اینڈ کلین انرجی کی کیٹگری میں ملک کی انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہلی، ملک بھر کی تمام جامعات میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ اسی طرح اس کیٹگری میں عالمی سطح پر دنیا کی 101 سے 200 بہترین یونیورسٹیز میں شامل ہو گئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی پر کام کے حوالے سے بھی ٹائمز ہائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ میں خواجہ فرید یونیورسٹی نے ملک بھر کی انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہلے، دیگر تمام یونیورسٹیز میں چوتھے نمبر پر جگہ بنائی ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پر خواجہ فرید یونیورسٹی کا شمار 201 سے 300 بہترین جامعات میں ہوا۔ بھوک کے خاتمے کی درجہ بندی میں بھی خواجہ فرید یونیورسٹی کو نہ صرف انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہلی پوزیشن ملی ہے بلکہ جنوبی پنجاب کی دیگر یونیورسٹیز میں بھی یہ سب سے آگے ہے۔ اس کیٹگری میں ملک بھر میں چھٹے جب کہ دنیا کی 201 سے 300 بہترین جامعات میں اپنی جگہ بنائی ہے۔

اسی طرح جامعات کے تعلیم و تحقیق سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے والے عالمی ادارے سی میگو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی رینکنگ انوائرمنٹل سائنسز کی کیٹگری میں ملک بھر میں پانچویں، ایشیا میں 208 ویں جب کہ عالمی سطح پر 378 ویں نمبر پر رہی جب کہ فوڈ سائنسز کی درجہ بندی میں ملک بھر میں آٹھویں، کیمسٹری کی درجہ بندی میں ملک بھر کی جامعات میں بارہویں اور ملک بھر کی انجینئرنگ یونیورسٹیز میں تیسرے نمبر پر رہی۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کی انٹرنیشنل رینکنگ میں پرفارمنس نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان بھر کی کئی پرانی یونیورسٹیز سے بہتر رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کا نصاب، طریقہ تدریس اور کوالٹی آف ریسرچ عالمی معیار سے ہم آہنگ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سکالر شپ حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد میں 107 اور سکالر شپ کی رقوم میں 955 فیصد اضافہ ہوا۔ یونیورسٹی انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لائبریری میں 7000 نئی کتب کا اضافہ ہوا۔ کیمپس میں نیا کیفے ٹیریا فنکشنل ہوا۔ طلبا اور فیکلٹی کے لئے فٹنس جم کا آغاز، ٹرانسپورٹ فلیٹ میں بارہ نئی بسوں کا اضافہ ہوا۔ مختلف ڈگری پروگرامز میں طلبا کی فیس میں پندرہ سے پچیس فیصد کمی کی گئی۔

اس کے علاوہ ریسرچ پبلیکیشن میں 111 فیصد اضافہ ہوا۔ یونیورسٹی سے مختلف کیٹیگریز میں جمع کروائے جانے والے ریسرچ پروجیکٹس میں 2050 فیصد اضافہ ہوا جن میں سے 208 ملین کی ریسرچ پراجیکٹ گرانٹس منظور ہوئیں۔ طلبا سوسائٹیز فعال کی گئیں۔ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بہت زیادہ بہتری لائی گئی۔ یونیورسٹی طلبا نے نیشنل لیول پر ہوئے مختلف مقابلوں میں نمایاں پوزیشنز حاصل کی۔ یونیورسٹی کے پہلے ریسرچ جرنل کے علاوہ پہلے ای میگزین بات کا اجراء ہوا۔ یونیورسٹی میں طلبا کی سہولت کے لئے سٹوڈنٹس facilitation سینٹر کا آغاز ہوا۔ کیمپس میں طلبا کی سہولت کے لئے بنک کی برانچ قائم کی گئی۔ کیمپس میں پچاس ہزار سے زائد پودے لگائے گئے۔ ریسرچ لیبز میں بہتری کے لئے نئے آلات حاصل کیے گئے۔ علاقے کے طلبا کو ہنر مندانہ تربیت دینے کے لئے NAVTTC کے تعاون سے ساؤتھ پنجاب سکل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں اس وقت چھ سو سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں۔ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ، ڈے کیئر سنٹر اور ڈائریکٹوریٹ آف اکڈیمکس کا قیام عمل میں لایا گیا۔

ریسرچ اور تدریس میں بہتری لانے کے لئے مختلف نیشنل اور انٹرنیشنل یونیورسٹیز اور اداروں کے ساتھ چالیس سے زائد ایم او یوز سائن کیے گئے جس وقت پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے بطور وائس چانسلر چارج سنبھالا اس وقت یونیورسٹی 406 ملین کی مقروض تھی اور اس کی معاشی صورتحال دگرگوں تھی۔ فنانشل ڈسپلن میں بہتری لائی گئی غیر ضروری اخراجات میں کمی کی گئی جس سے یونیورسٹی خسارے سے سر پلس بجٹ کی طرف چلی گئی۔ رواں سال مارچ میں یونیورسٹی کے پہلے کانووکیشن کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے کانووکیشن انعقاد کیا گیا جس کی صدارت وائس چانسر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے کی جب کہ مہمانان اعزاز میں وائس چانسلر میر چاکر خان رند یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر محمود سلیم، وائس چانسلر سر صادق وومن کالج یونیورسٹی بہاول پور پروفیسر ڈاکٹر صاعقہ امتیاز آصف، رکن قومی اسمبلی جاوید اقبال وڑائچ، کمانڈر چولستان برگیڈیئر عدنان دانش، صدر چیمبر آف کامرس جاوید ارشاد، ریذیڈنٹ منیجر ایف ایف سی برگیڈیئر ریٹائرڈ طلعت محمود شامل تھے۔ اس دوران تمام شعبہ جات کے اول، دوم اور سوم آنے والے طلبہ کو میڈلز پہنائے گئے جب کہ مجموعی طور پر 750 سے زائد طلبہ و طالبات کو اسناد عطا کی گئیں۔ خواجہ فرید یونیورسٹی نے مختصر عرصے میں جتنی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ اس پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر اور ان کی پوری ٹیم داد اور مبارکباد کی مستحق ہے۔ امید ہے کہ ترقی کا یہ سفر جاری رہے گا اور یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار بھرپور انداز سے نبھائیں گے۔

وائس چانسلر جناب ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ و مجوزہ کیمیکل اینڈ ایگریکلچر انجنیئرنگ بلاک میں، انجینئرنگ کلاسز میں داخلہ طلباء طالبات دونوں کو میرٹ پر دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید۔ بتایا کہ لڑکیوں کو MOTIVATE کیا جا رہا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے پری انجینئرنگ میں داخلہ لیں جس میں انہیں عملی زندگی میں ملازمت حاصل کرنے یا پیشہ ورانہ مصروفیات اپنانے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ کنسٹرکشن، تعمیراتی کمپنیوں گھروں کے نقشہ جات کی تیاری میں ان کی کھپت گنجائش بہت زیادہ ہے۔ خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یارخان کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر ایک علم دوست اور محنتی شخصیت ہیں۔ پچھلے اڑھائی سالوں میں انہوں نے یونیورسٹی میں واقعتاً قابل ستائش کام اور ڈسپلن کا معیار قائم۔ کیس ہوا ہے۔ یونیورسٹی کے ارد گرد سارے دکانداروں سے مل کر انہوں نے سگریٹ فروشی بند کرا رکھی ہے۔ کوئی دکاندار سگریٹ نہیں بیچتا۔ یونیورسٹی کی حدود۔ مین کیا اساتذہ کیا طلباء، کیا انتظامیہ اور دوسرا اسٹاف و عملہ تمباکو نوشی نہ تو کرتا نظر آتا ہے اور نہ ہی انہیں اس کی اجازت ہے۔

اب فنڈز کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ میری دانست میں اس مالیاتی کمی کو اہل ثروت، مخیر حضرات اور درد دل رکھنے والی شخصیات کے تعاون سے بخوبی پورا کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت مند طلباء طالبات کی مالی۔ مدد کرنا ہمارا قومی اور اخلاقی فرض ہے۔ صاحب حیثیت اور خوشحال گھرانوں کو یا رکھنا چاہیے کہ جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہے۔ وہ دوسروں کا حق ہے۔

پنجاب حکومت نے اپنے حالیہ بجٹ میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان کے لئے 80 کروڑ روپے مختص کیے ہیں جن سے یونیورسٹی میں کیمیکل اور ایگری کلچر انجینئرنگ بلاک کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ بجٹ تقریر کے دوران صوبائی وزیر اویس لغاری کا کہنا تھا کہ 2022۔ 23 کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں 80 کروڑ روپے کی لاگت سے کیمیکل اینڈ ایگری کلچر انجینئرنگ بلاک کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ بجٹ میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ترقیاتی پروگرامز کی فنڈنگ مختص کرنے پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف، پنجاب حکومت بالخصوص وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز فنانس ڈیپارٹمنٹ، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور صوبائی وزیر اویس لغاری کا شکریہ ادا کیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے ترقیاتی پروگرامز کو شامل کرنا خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا اس سے نہ صرف یونیورسٹی کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے بلکہ جنوبی پنجاب کے طلبہ و طالبات کو بہتر اور معیاری تعلیم کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ انہوں نے کہا پنجاب حکومت کے اس علم دوست فیصلے کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments