درویش کی جوانی اور سپورٹس کار کی کہانی


محترمی و مکرمی حامد یزدانی!

جب سے آپ کا درویش اور سرخ سپورٹس کار کا کالم ’ہم سب‘ پر چھپا ہے اور ہزاروں لوگوں نے پڑھا ہے تب سے مجھے دختران خوش گل کے محبت بھرے پیغامات آ رہے ہیں کہ کاش ان کی ان دنوں مجھ سے ملاقات ہوئی ہوتی جب آتش جوان تھا اور سرخ سپورٹس کار چلاتا تھا تا کہ وہ بھی زندگی کی شاہراہ پر میری ہمسفر بن سکتیں اور ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر ’جس پر آپ بھی بیٹھے تھے‘ کینیڈا کی سڑکوں پر اڑتیں اور عابدہ پروین ’نیرہ نور‘ ریشماں ’کینی جی اور کینی روجرز کے گانوں سے محظوظ ہوتیں۔

آپ کا کالم پڑھ کر مجھے بھی اپنی پرانی محبوبہ کے ساتھ گزارے ہوئے شام و سحر یاد آ گئے۔ آج میں آپ کو درویش کی جوانی اور اس پرانی محبوبہ اس سرخ سپورٹس کار کی کہانی سنانے آیا ہوں۔

مجھے وہ سہ پہر یاد ہے جب میں نے پہلی بار ایک سرخ ٹرانز ایم کار

RED TRANSAM اور اس کے وجیہہ ہڈ پر ایک شاہین کی تصویر دیکھی تھی۔ اسے دیکھ کر میرے دل نے سرگوشی کی تھی کہ ایک دن مجھے یہ گاڑی خریدنی ہے اور اس میں بیٹھ کر سارے کینیڈا کی شاہراہوں پر ہزاروں میلوں کی سیر کرنی ہے۔

چنانچہ جب 1982 میں میموریل یونیورسٹی سے میری نفسیات کی تعلیم مکمل ہوئی ’میں نے ایف آر سی پی ایف آر سی پی کا امتحان پاس کیا اور مجھے نیوبرنزوک میں ماہر نفسیات کے طور پر پہلی ملازمت ملی تو میں نے سوچا کہ دو خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

پہلا خواب اپنی والدہ کو گھر خرید کر دینا تھا۔
دوسرا خواب ایک سرخ سپورٹس کار خریدنی تھی۔

میں نے والدہ کو پاکستان فون کیا اور کہا کہ جب سے آپ نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی ہے تب سے آپ کی خواہش ہے کہ آپ کا اپنا ایک گھر ہو تو وہ وقت آ گیا ہے کہ آپ اپنی پسند کا گھر خرید لیں۔ چند دنوں کے بعد انہیں کرشن نگر لاہور میں ’جس کا نام وقت اور حالات کے بدلنے اور مشرف با اسلام ہونے سے اسلام پورہ ہو چکا تھا‘ ایک گھر پسند آیا جس کی قیمت چار لاکھ تھی یعنی چالیس ہزار ڈالر کیونکہ ان دنوں ایک ڈالر کی قیمت دس روپے ہوا کرتی تھی۔ میں نے بینک سے چالیس ہزار ڈالر قرض لیے اور اپنی والدہ کو بھیج دیے تا کہ وہ گھر خرید سکیں۔ گھر خریدنے کے بعد جب مجھے پتہ چلا کہ اس کی ایک دیوار مسجد سے ملتی ہے تو مجھے غالب کا شعر یاد آ گیا

؎ مسجد کے زیر سایہ اک گھر بنا لیا ہے
یہ بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے

پہلا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا تو میں نے دوسرے خواب پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ سرخ سپورٹس کار پسند کی تو پتہ چلا کہ نئی کار کی قیمت گیارہ ہزار ڈالر ہے لیکن سود کی شرح ناقابل یقین حد تک بڑھ چکی ہے یعنی 22 فیصد ہے۔

میں نے گھر آ کر سوچا کہ اگر میرے چار دوست اپنا قرض واپس کر دیں تو میں بغیر سود کے گاڑی خرید سکتا ہوں کیونکہ

ایک دوست ایک ہزار
دوسرے دوست دو ہزار
تیسرے دوست چار ہزار اور
چوتھے دوست پانچ ہزار کے مقروض تھے۔

یہ سب مل کر بارہ ہزار بنتے تھے اور مجھے گیارہ ہزار کی ضرورت تھی۔ لیکن جب میں نے اپنے چاروں دوستوں کو فون کر کے رقم مانگی تو پتہ چلا کہ وہ چاروں مرزا غالب کے روحانی رشتہ دار بن چکے تھے اور ان کے اس شعر پر عمل کر رہے تھے۔

؎ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

جب میرے دوست اپنی فاقہ مستی میں مگن دکھائی دیے تو میں نے وہ سرخ ٹرانز ایم 22 فیصد سود پر ہی خرید لی تا کہ میں اپنی جوانی کا خواب پورا کر سکوں۔

سرخ سپورٹس کار خریدنے کے بعد مجھے دو ایسی باتوں کا اندازہ ہوا جن سے میں پہلے بے خبر تھا

پہلی سرپرائز ایک خوش گوار سرپرائز تھی۔ کار کے اندر لگے ہوئے آٹھ سپیکر اتنے شاندار تھے کہ موسیقی سننے کا مزا دوبالا ہو جاتا تھا۔

دوسری سرپرائز قدرے حوصلہ شکن تھی اور وہ یہ تھی کہ نیوبرنزوک میں شاہراہیں بہت کم تھیں۔ شہر کی گلیاں اور بازار ایسے تھے جن پر سپیڈ لمٹ پچاس ’ساٹھ اور ستر کلومیٹر تھی۔ یہ تو ایسا ہی تھا جیسے آپ کی محبوبہ آپ کے ساتھ رومانوی دن گزارنے آئے اور آ کر بتائے کہ وہ روزے سے ہے۔

جب میں نیوبرنزوک کی گلیوں بازاروں اور سڑکوں سے قدرے مایوس ہوا تو میں نے اپنی نیوفن لینڈ کی پرانی محبوبہ سے کہا کہ چلو مل کر کینیڈا کی شاہراہوں کی سیر کرنے چلتے ہیں۔ وہ راضی ہو گئیں۔ اور ہم دونوں نے نیوبنزوک سے البرٹا کا پانچ ہزار کلومیٹر کا سفر کیا۔ ہم ہر روز ایک ہزار کلومیٹر کار چلاتے تھے۔ ویسے ہم کہنا مناسب نہیں کیونکہ سفر شروع ہونے کے بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ہائی وے پر گاڑی چلاتے گھبراتی ہیں۔ چنانچہ دونوں طرف گاڑی میں نے ہی چلائی اور اکیس دنوں میں دس ہزار کلومیٹر ڈرائیو کی۔

اس ڈرائیو سے میرا سپورٹس کا چلانے کا شوق پورا ہوا اور طبیعت سیر ہوئی۔

جب ایک محبوبہ کی سیر کی خبریں دوسری محبوباؤں تک پہنچیں تو وہ بھی فیض حاصل کرنے آئیں اور درویش نے کسی بھی محبوبہ کا دل دکھانا یا مایوس کرنا اپنی شان درویشی کے خلاف سمجھا۔

جب درویش اونٹاریو آیا تو اور بھی خوش تھا کیونکہ اونٹاریو میں
ہائی وے 401
ہائی وے 400 اور
ہائی وے 427

اس کی منتظر تھیں۔ درویش خاص طور پر ہائی وے 407 کی تعمیر سے بہت خوش ہوا۔ ان شاہراہوں کی وجہ سے درویش کا سپورٹس کار چلانے کا شوق پورا ہو رہا تھا۔

درویش ہر پانچ سال کے بعد پرانی سپورٹس کار واپس کر کے نئی سپورٹس کار خرید لیتا تھا۔ وہ ہر سال تقریبا پچاس ہزار کلومیٹر چلاتا تھا جس کی اوسط ہفتے میں ایک ہزار کلومیٹر تھی۔ ان اعداد و شمار سے آپ کو درویش کی بے مقصد اور بامقصد آوارہ گردی اور بے راہ روی کے شوق کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔

جب سے درویش نے سرخ سپورٹس کار خریدی تھی اسے مختلف شہروں کی دختران خوش گل بڑی للچائی نظروں سے دیکھتی تھیں اور دور دور سے فلائینگ کس بھی بھیجتی تھیں۔

درویش نے ایک۔ DARVESH۔ نام کی کار پلیٹ بھی بنوا لی تھی تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یہ ایک موڈرن درویش ہے جو سپورٹس کار چلاتا ہے نہ کہ کسی خستہ حال جھگی میں رہتا ہے۔

پھر ایک دن ٹرانز ایم کار والوں نے بری خبر سنائی کہ انہوں نے وہ کار بنانی بند کر دی ہے۔ درویش نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کار کو اس وقت تک چلاتا رہے گا جب تک وہ اسے خود ہی الوداع نہ کہہ دے۔

ایک شام ہائی وے 401 پر کار چلاتے اور وھٹبی سے ایک سو کلومیٹر دور اپنی ایک دوست کے ساتھ ڈنر اور ڈائلاگ کرنے بعد واپس آتے ہوئے درویش کو کار کی سسکیاں سنائی دیں۔ درویش نے سڑک کے کنارے کار روکی تو پتہ چلا کہ کار حالت نزع میں تھی اور اسے الوداع کہہ رہی تھی۔

درویش بھی افسردہ ہو گیا۔
جدائی کا وقت قریب تھا۔

درویش نے کار کو سڑک کے کنارے اکیلا چھوڑا اور کسی گیس سٹیشن اور ٹیلیفون بوتھ کی تلاش میں ہائی وے پر چلنے لگا۔ جب چند کلومیٹر چلنے کے بعد بھی گیس سٹیشن نہ آیا تو وہ سڑک کے کنارے رک گیا۔ ان دنوں اس کے پاس سیل فون بھی نہ ہوتا تھا۔

درویش نے سوچا کہ یہ اس کی درویشی کا امتحان ہے۔
شام کی تاریکی رات کے اندھیرے میں ڈھل رہی تھی اور وہ کسی ویرانے میں تنہا تھا۔ کھویا کھویا۔

درویش کو اندازہ تھا کہ محبوب سے جدائی کا لمحہ آزمائش کا لمحہ ہوتا ہے۔ اس وقت ہمت اور حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔

درویش نے اپنے دل کو بھی وہی کہا جو وہ دوسرے درویشوں کو ایسے ہی حالات میں کہتا ہے
’سب اچھا ہو گا‘
اس کا یہ کہنا ہی تھا کہ اچانک ایک پولیس کی گاڑی اس کے قریب آ کر رکی۔ پولیس افسر نے کہا

میرا نام کیون میکلسٹر ہے۔ مجھے ایک ٹرک ڈرائیور نے فون کیا کہ آپ سڑک پر تنہا چل رہے ہیں میں آپ کی مدد کے لیے آیا ہوں آپ کون ہیں اور اس وقت رات کے اندھیرے میں شاہراہ پر پیدل کیوں چل رہے ہیں؟

اس اندھیرے میں اچانک اس پولیس افسر کا آنا کسی خضر کی آمد سے کم نہ تھا۔

درویش نے افسر سے کہا
میرا نام ڈاکٹر سہیل ہے۔ میری محبوبہ میری سپورٹس کار نے مجھے پچیس سال کی رفاقت کے بعد اچانک داغ جدائی دے دیا ہے۔ میں سی اے اے
CAA…CANADIAN AUTOMOBILE ASSOCIATION
کا ممبر تو ہوں لیکن میرے پاس سیل فون نہیں ہے۔

پولیس افسر مسکرایا۔ اس نے مجھے اپنی گاڑی میں بڑی عزت سے بٹھایا ’سی اے اے کو فون کیا اور مجھے واپس میری محبوبہ کے پاس پہنچایا۔ کہنے لگا سی اے اے کو آنے میں ایک گھنٹہ لگے گا آپ گاڑی کے اندر بیٹھیں کیونکہ باہر بہت مچھر ہیں۔

میں نے اس ایک گھنٹے میں اپنی محبوبہ کی آغوش میں بیٹھ کر راز و نیاز کی باتیں کیں اور اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے میری زندگی میں حسیں یادوں کا اضافہ کیا۔

جب سی اے اے کا ڈرائیور ڈیوڈ آیا اور وہ میری محبوبہ کو اپنے ٹرک پر سوار کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو وہ اچانک رک کر بڑی بے ساختگی سے کہنے لگا

آپ کی کار بہت خوبصورت ہے۔ میرا نوجوان بیٹا سٹین ایک سال سے ایسی سرخ سپورٹس کار کی تلاش میں ہے۔
میں نے کہا۔ کیا آپ اس کار کو خریدنا چاہیں گے؟
کہنے لگا۔ کیوں نہیں؟
میں نے کہا۔ کیا ادا کریں گے؟
کہنے لگا۔ پندرہ سو ڈالر
میں نے کہا۔ یہ گاڑی آپ کی۔ لیکن یہ ہچکیاں لے کر خاموش ہو گئی ہے۔ کچھ اداس ہو گئی ہے۔

ڈیوڈ کہنے لگا آپ بالکل فکر نہ کریں میں ایک مکینک ہوں میں اسے ٹھیک کردوں گا اور اپنے بیٹے کو اس کی اٹھارہویں سالگرہ پر اس کی پہلی محبوبہ کے طور پر پیش کروں گا۔ وہ اس تحفے سے بہت خوش ہو گا۔

چنانچہ اگلے دن ڈیوڈ کاغذات لے آیا اور میں نے دستخط کر کے اپنی کار اس کے بیٹے سٹین کو تحفے کے طور پر پیش کر دی۔

مجھے خوشی ہوئی تھی کہ میری سرخ سپورٹس کار کسی نوجوان کے دل کی ملکہ بن گئی تھی۔
میری جدائی کی اداسی میں کسی اور کے وصل کی شیرینی شامل ہو گئی تھی۔
ایک کی پرانی محبوبہ دوسرے کی نئی محبوبہ بن گئی تھی۔
ڈیر حامد یزادانی!
یہ ہے درویش کی جوانی اور سرخ سپورٹس کار کی کہانی۔

اگر آپ کالم نہ لکھتے تو میرے دل کے نہاں خانوں میں اپنی پرانی محبوبہ کی بھولی بسری یادیں سرگوشیاں نہ کرتیں اور میں آپ کو یہ ادبی محبت نامہ نہ لکھتا۔ اس محبت نامے کا سہرا آپ کے سر اور یہ محبت بھرا پیغام آپ کے نام۔

آپ کا مداح
خالد سہیل 25 جون 2022

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments