ترک رکن اسمبلی نے پوچھا بے نظیر تسبیح پر کن وظائف کا ورد کر رہی ہیں


آج صبح سے ہی بادلوں کے ساتھ ساتھ سرما کی سرد ہواؤں کی آمد آمد تھی۔ چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے ایک طبعی کسلمندی نے گھیرا ہوا تھا۔ مگر کہاں تک ٹی وی پر حادثوں، جنگوں، تباہیوں، سیلابوں اور اشتہاروں کو دیکھتا۔ سوچا تھوڑی سی چہل قدمی کر لوں۔ میں گھر سے نکل کر چند گز آگے کریملن کو مڑنے والی سڑک پر مڑ گیا۔ چرچ کے ساتھ پشکن اور پشکینا کے مجسموں کے پاس سے گزرا اور بلیوار کو عبور کیا۔ یاد رہے یہ بلیوار شہر کے مرکزی حصے اور کریملن کے درمیان خوبصورت باغات اور پارکوں، تالابوں پر مشتمل ایک ایسا خوبصورت پارک ہے جس میں سے سڑکیں گزرنے کے لیے راستے چھوڑ دیے گئے ہیں۔

ہماری طرح نہیں کہ اسلام آباد کے تینوں بڑے سرسبز علاقوں ( گرین ایریاز) کو ہم نے تین بڑی سڑکیں بنا کر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ یہی نہی ہم نے شکر پڑیاں سے لے کر چاند تارہ چوک بلکہ اس سے آگے تک سارے سر سبز علاقوں کو بڑی جانفشانی اور کامیابی سے ختم کر دیا ہے۔ اس رنگ پارک پر جگہ با جگہ بینچ ایستادہ ہیں۔ ہر وقت اس کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی نہ کوئی بلکہ کئی نمائشیں لگی رہتی ہیں۔ کبھی پھول، کبھی کتابیں، کبھی کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ کی نمائشیں۔

گولڈن رنگ کے ساتھ ہی ایک بڑی عمارت یعنی پشکن اورپشکینا کے مجسمے کے عین سامنے ایک بڑی عمارت پر لکھے ہوئے روسی زبان میں کندہ حروف کے آج پہلی بار ہجے کیے تو معلوم ہوا کہ یہ روس کی سب سے بڑی سرکاری ایجنسی ایتارتاس کا مرکزی دفتر ہے۔ اس ایجنسی کے ارباب بست و کشاد اور نمائندوں سے متعدد ملاقاتوں کے باوجود مجھے اس کے مرکزی دفتر جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس دفتر کے سامنے سے گزر کر ہی میں کریملن جاتا تھا اور کریملن کے سامنے ہی لینن لائبریری اور انسٹیٹیوٹ آف ایشین اینڈ افریقن سٹڈیز ہے جہاں میرا مستقل آنا جانا رہتا تھا۔

خیر میں اس سے کچھ آگے بڑھا تو پر شکوہ کریملن سامنے ایستادہ تھا۔ خوش قسمتی سے بادل چھٹ چکے تھے اور دھوپ چمک رہی تھی۔ ابھی صرف پندرہ منٹ پہلے جب میں گھر سے نکلا تو دو عدد جرسیاں اور ایک جیکٹ کے پہننے کے ساتھ ساتھ میں نے ایک گرم کیپ اور مفلر بھی ساتھ لیا تھا۔ لوگوں کے پرے کے پرے کریملن کے سامنے خوبصورت اور وسیع پارک میں امڈ آئے تھے۔ میں نے کریملن کے حفاظتی سینٹ (درویش) کے مجسمے کی ایک تصویر اتاری اور بڑی دیوار کے با ہر گمنام سپاہی کی یادگار پر ہمیشہ جلتی ہوئی آگ کی تصویریں بنانے والے بے شمار لوگ دیکھے جو دھڑا دھڑ ان دو سپاہیوں کی تصاویر بنا رہے تھے۔ جو ہر وقت یہاں پہرہ دیتے ہیں۔ کوئی سیکیورٹی کا شور شرابا نہیں تھا۔ کوئی دھکم پیل نہیں، کوئی لڑائی جھگڑا نہیں، نہ جانے کب ہم میں ایسا سکون اور شعور آئے گا۔ شاید ہم سے بعد والی خوش نصیب نسلیں وہ دن دیکھیں۔

کریملن کے اندر مجھے پہلی بار اس وقت جانے کا اتفاق ہوا جب پاکستان کے کسی صدر کے تقریباً چار عشروں کے بعد روس کے سرکاری دورے کے موقع پر صدر آصف علی زرداری کی ملاقات اس وقت کے صدر مدیادیو سے کریملن میں ہوئی۔ اس تاریخی موقع پر صدر پاکستان کو کریملن کے اندر ٹھہرایا گیا تھا۔ کریملن کے اندر کی دنیا ہی نرالی ہے۔ بلند و بالا ستونوں والے وسیع و عریض ہال، بڑے بڑے کمرے، دالان اور دیدہ زیب کندہ کاری، فن مجسمہ سازی کے نادر نمونے، زاروں کے مختلف ادوار کے فانوس، کیتھرین دی گریٹ کی سونے سے بنی بگھی جس کے آگے پیچھے 12 گھوڑے جوتے جاتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ اتنے کشادہ، مزین اور خوبصورت ہال اور ایسا وسیع تعمیراتی ڈھانچہ میں نے ابھی تک کہیں اور نہیں دیکھا تھا۔

جب 14 مئی 2011 کو صدر پاکستان اپنے وفد کے ہمراہ مذاکرات کے لیے ہال میں داخل ہوئے تو اس وقت کے صدر روس مدیادیو نے ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں مدیادیو وزیراعظم اور اس وقت کے وزیراعظم، ولادی میر پیوٹن، صدر بن گئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد پیوٹن اور مدیادیو نے ایک سے زائد بار ان عہدوں کا باہم تبادلہ کیا۔ یہ یہاں کی جمہوریت کا حسن ہے۔ انتخابات سے کئی سال پہلے آئندہ کے صدر اور وزیراعظم کا پتہ چل جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اصل اقتدار ولادی میر پیوٹن کے ہاتھ چومتا ہے خواہ وہ صدر ہوں یا وزیر اعظم۔

ہمارے ہاں کے برعکس یہاں حکومت اپنا وقت ضرور پورا کرتی ہے اور چاہے تو مزید اور مزید وقت بھی پورا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں تو حکومت کا وقت پورا کر لینا ایک بہت بڑے واقعے، اور بعض جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والوں کے لیے، سانحے سے کم نہیں ہوتا اور وہ اس وقت میں مناسب کمی کے لیے دوسرے اداروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ دوسرے ادارے بھی اس قومی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار اور جمہوریت کو صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔

یہ الگ بات کہ انہیں اس عمل میں بہت وقت لگ جاتا ہے اور ان کی اپنی رخصتی کا وقت آ جاتا ہے۔ اس عمل میں ہمارے ملک کے کچھ حصے بھی چلے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔ بات ہو رہی تھی صدر پاکستان کے سرکاری دورے اور کریملن میں انہیں ٹھہرائے جانے اور روسی زعما سے ان کے مذاکرات کی۔ مذاکراتی ٹیم میں پاکستان کا ایک بڑا وزارتی وفد بھی شامل تھا۔ پاکستانی راہنماؤں کے ہر غیر ملکی دورے کی طرح یہ دورہ بھی بہت کامیاب رہا۔

متعدد مفاہمتی دستاویزات پر دستخط کیے گئے۔ صدر پاکستان نے ماسکو کے باہر سکولکووا کے مقام پر روسی سلیکان ویلی میں روسی کاروباری فورم کی شخصیات سے ملاقات کی اور ان سے خطاب کیا۔ صدر زرداری کے دور میں روس سے تعلقات میں خاصی گرم جوشی پیدا ہوئی۔ 2010 سے لے کر کوئی مہینہ ایسا نہ تھا جب کوئی نہ کوئی پاکستانی وزیر یا وفد روس کا دورہ نہ کر رہا ہو۔ وزیراعظم گیلانی نے بھی ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے لیے سینٹ پیٹرزبرگ کا دورہ کیا۔

اس موقع پر اپنے وفد کے ہمراہ انہوں نے روسی وزیر اعظم ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی۔ جسمانی زبان (باڈی لینگوئج) سے دونوں وزرائے اعظم بڑے پر سکون اور خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے تھے۔ حقیقتاً پاکستانی اور روسی صدور اور وزرائے اعظم میں مختلف مواقع پر اس دور میں تقریباً درجن برابر ملاقاتیں ہوئیں۔ بعد ازاں اکتوبر 2013 میں ولادی میر پیوٹن سرکاری دورے پر اور چار ملکی فورم میں شرکت کے لیے اسلام آباد نہ جا سکے اور انتہائی اعلی سطحی ملاقاتوں میں کچھ ٹھہراؤ آ یا۔ مگر اداروں کے سر براہان اور دوسرے زعما کے دورے جاری رہے۔ اور حسب معمول کامیاب رہے۔ ان دوروں میں ہمارے انرجی (توانائی) پانی و بجلی، پٹرولیم اور تجارت کے وزرا کے دورے شامل ہیں۔

ہماری وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر کے دورے کو سرکاری سطح پر اور میڈیا میں بہت اہمیت دی گئی۔ وزیر خارجہ نے روسی فیڈرل کونسل کی چیرمین محترمہ میتنکا اور روسی پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیوں کے چیئرمینوں سے ملاقات میں پاکستانی نقطہ نظر کو بڑی وضاحت اور صراحت سے بیان کیا۔ روسی زعما، بشمول وزیر خارجہ سرگئی لاورو نے مختلف مسائل پر واضح پاکستانی موقف کو بہت سراہا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ نے مشہور ٹی۔ وی چینل ’رشیا ٹوڈے‘ کو پاک۔ روس تعلقات اور باہمی تعاون کے بارے میں ایک تفصیلی انٹرویو بھی دیا۔

کریملن کے اندر دوسری بار، صدر پیوٹن کو سفراء کی جانب سے اسناد تقرری پیش کرنے کی تقریب کے موقع پر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس دن پاکستان کے سفیر خالد خٹک کی مدت ملازمت کی تکمیل پر ان کی جگہ آنے والے نئے سفیر پاکستان جناب عالمگیر بابر نے اپنی سند تقرری صدر روس کو پیش کرنی تھی۔ یہ 23 اکتوبر 2013 کا دن تھا۔ سردی اچانک تیز ہو گئی تھی۔ تقریب میں شرکت کے لئے آنے والے انسانوں سے زیادہ گرم کپڑوں کے ڈھیر نظر آ رہے تھے۔

لگتا تھا کپڑوں کے سر بمہر بنڈل کسی غیر مرئی اندرونی قوت کے بل بوتے پر چلتے چلے جا رہے تھے۔ سپاسکایا ٹاور (نجات دہندہ کا مینار) سے ہمیں اندر داخل ہونا تھا۔ اس مینار میں مشہور و معروف ’کرانتی‘ گھڑیال نصب ہے۔ یہ گھڑیال انگریز انجینئر کرسٹوفر گالوے کی نگرانی میں ازدانوو اور اس کے بیٹے شومیلا ازدانوو نے 1625 میں بنایا۔ کریملن کی بیرونی دیوار میں کل 20 مینار ہیں۔ اسناد تقرری الیگزنڈر ہال میں پیش کی جانی تھیں اور صدر پیوٹن کو سینٹ انڈریوز ہال سے اس ہال میں داخل ہونا تھا۔ الیگزنڈر ہال سے منسلک تیسرا ہال سینٹ جارج ہال کہلاتا ہے۔ یہ سارے ہال مغربی و مشرقی طرز تعمیر کے نادر شاہکار ہیں۔

ان ہالوں کی چھتیں اتنی بلند ہیں کہ انہیں دیکھیں تو سر سے ٹوپیاں گر جائیں۔ شاید اسی لیے ٹوپیاں، اوور کوٹ اور مفلر وغیرہ پہلے ہی الگ سے بنی جگہ پر مستعد عملہ آپ سے لے کر آپ کو ٹوکن دے دیتا ہے۔ یہ رواج روس کی ہر چھوٹی بڑی بلڈنگ میں ہے کیونکہ کسی بھی گھر یا عمارت میں داخل ہوتے ہی آپ کو زائد گرم کپڑے فوراً اتارنے پڑتے ہیں۔ گھروں اور عمارتوں کو گرم کرنے کا نظام اتنا اچھا ہے کہ فوراً زائد کپڑے نہ اتاریں تو آپ پسینہ پسینہ ہو جائیں۔

جبکہ باہر منفی 20 یا 30 درجے کی سردی پڑ رہی ہو۔ اس روز سفراء کا ایک انبوہ گرانمایہ الیگزنڈر ہال میں سیدھی قطار بنائے روسی صدر کی آمد کا منتظر تھا۔ اپنی رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس کریملن بینڈ مستعد کھڑا تھا۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور پریزیڈنٹ پیوٹن، وزیر خارجہ سرگئی لاوروو کے ساتھ سینٹ انڈریو ہال کے بلند قامت دروازے کھلنے کے ساتھ ہی سینٹ الیگزینڈر ہال میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے مختصر تقریر میں ان بیس کے بیس ملکوں کے روس کے ساتھ تعلقات کا دو دو تین تین جملوں میں ذکر کیا جن کے سفرا نے اپنی اسناد تقرری پیش کرنا تھی۔

اس دوران وہ ہالینڈ میں روسی سفیر کی پوچھ گچھ کے واقعے کے ذکر کو نہیں بھولے۔ اسی طرح انہوں نے لٹویا کا ذکر بھی کیا اور اسے بھی ایک ہلکا سا کچوکا دیا۔ صدر پیوٹن کے روس میں دوسرے ممالک کے روس کے ساتھ اچھے یا برے رویے کو نہ صرف بغور دیکھا جاتا ہے بلکہ اس کا کما حقہ اچھا یا برا جواب بھی ضرور دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ذکر انہوں نے مقابلتاً کچھ زیادہ کیا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں روس اور پاکستان کے اچھے تعلقات کی اہمیت کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے حوالے سے واضح کیا۔ ہر سفیر نے اپنے نام کے اعلان کے ساتھ جچے تلے قدموں سے سرخ کارپٹ پر چند قدم چل کر صدر روس سے مصافحہ کیا اور اپنے کاغذات تقرری پیش کیے۔ کھٹ کھٹ، ہر سفیر کی 2 تصاویر صدر پیوٹن کے ساتھ بنیں، اور بس۔

کریملن کی اس تقریب کا ہر پہلو، ہر زاویہ اور ہر عمل یہ ظاہر کر رہا تھا کہ روس اب بھی سوپر پاور ہے۔ اور یہ کہ اسے اس حقیقت کا پورا احساس بھی ہے۔ اس احساس کو تقویت دینے میں عالمی حالات اور خصوصاً امریکہ کے دنیا کے مختلف حصوں میں طاقت کے بے دریغ استعمال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے خارجہ امور میں اپنے وسیع تجربے اور حکمت کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سے بین الاقوامی امور میں امریکہ بہادر پر سبقت لے لی ہے۔

اس میں سر فہرست شام کی خانہ جنگی اور ایران کا ایٹمی پروگرام ہے۔ دونوں امور میں طاقت پر عقل و خرد نے فتح حاصل کی ہے۔ اور اس کا زیادہ سہرا روس ہی کے سر جاتا ہے۔ پچھلے چند عشروں میں طاقت کے وحشیانہ اور پے در پے استعمال نے ایک بار پھر اس تاریخی حقیقت کو ثابت کیا ہے کہ یہ مسائل کا حل نہیں بلکہ انہیں مزید گمبھیر اور پیچیدہ بنانے کا ایک یقینی ذریعہ ہے۔

ہر جنگ کی ابتدا غیرت و حمیت کے بلند بانگ دعوؤں اور انتہا، مذاکرات پر ہوتی ہے۔ لیکن نوع انسانی نے روز ازل سے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہ کرنے کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے اور وہ اس پر سختی سے کار بند ہے۔ ایک فرد غیرت کے نام پر کسی نہایت معمولی بات پر قتل جیسا مذموم عمل کر گزرتا ہے اور خاص طور پر ہمارا قبائلی، فیوڈل اور دیہاتی معاشرہ اس کے اس عمل کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ مگر اس کے نتیجے میں جب قاتل کے خاندان کی بھیک مانگنے تک کی نوبت آ جاتی ہے تو معاشرہ اس کو اپنا مسئلہ ہی نہیں سمجھتا اور اس قاتل کی حمیت و غیرت بھی کہیں سو جاتی ہے یا کسی کام نہیں آتی۔ اسی طرح اقوام بھی طبل جنگ تو انا، غیرت اور حمیت کے نام پر ہی بجاتی ہیں لیکن اختتام لاشوں کے انبار، پسماندگان کی آہ و بکا او ر زخمیوں کی چیخ و پکار پر ہوتا ہے۔

تاریخ نے کسی قوم کی جنگ کے بعد کی حالت جنگ سے پہلے کی حالت سے بہتر نہیں دیکھی۔ امریکہ کو بھول جائیے اس کے لیے جنگ ابھی ایک ویڈیو گیم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ابھی تو پرل ہاربر اور 11 ؍ 9 کے دو پٹاخے ہی اس کے لیے جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان ویڈیو گیمز نے بھی امریکہ کو نہ صرف دنیا کا سب سے مقروض ملک بنا دیا ہے بلکہ وہاں 99 پرسنٹ جیسی تحریکوں نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ مگر دنیا کو اس سے لذت پسندانہ مسرت ( Sadistic Pleasure ) لینے کے بجائے، سبق لینا چاہیے۔

اسلامی ملکوں کا ان سارے عالمی مناقشات اور قضیوں میں طرز عمل انتہائی دلچسپ مگر مایوس کن ہے۔ ان تمام ممالک کے معاشرے مغرب دشمنی اور مغرب دوستی کی بنیادوں پر مزید اندرونی خلفشار کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان ممالک اور معاشروں کا طرز عمل در اصل مبنی بر ذات نہیں بلکہ مغربی طرز عمل کے ردعمل کے طور پر سامنے آتا ہے اور یہ عمل اور رد عمل کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے مذموم چکر میں گھوم رہے ہیں کہ باہر آنے کا کوئی راستہ فی الحال مفقود نظر آتا ہے۔

ایران اور مغرب کے تعلقات بھی اس عمومی عمل سے مبرا نہیں۔ یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کہ ایران نے بیسویں صدی سے لے کر اب تک مغرب سے محبت اور مخاصمت میں کیا کھویا ا ور کیا پایا ہے اور یہ کہ تیل و معدنیات سے مالا مال یہ ملک مختلف پالیسیاں اپنا کر کیا کیا کچھ فوائد حاصل کر سکتا تھا؟ اس ضمن میں ترکی کا تجربہ بھی کچھ کم دلچسپ اور سبق آموز نہیں۔ جب اتحادی ممالک ترکی کی عظیم الشان سلطنت کو آ خری ضربیں لگانے میں مصروف تھے۔ تو ہمارے عرب بھائی بھی ان کی ان کاوشوں میں دامے، درمے، سخنے اپنا حصہ ڈالنے میں کسی سے کم نہ تھے۔

اسی زمانے میں علامہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق نظموں اور نثری تخلیقات میں ترکی کی کھل کر حمایت اور اس کی بندر بانٹ کی سازشوں کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کی حمایت میں ایسی منظم اور پر زور تحریک چلائی کہ گورا صاحب کو اپنی حکومت کے لالے پڑ گئے اور ہندو کانگرس کو پہلی بار مسلمانوں کی تنظیم اور مصمم سیاسی ارادے کی قوت کا احساس ہوا۔ چنانچہ گاندھی جی نے کانگریس کی جانب سے انگریز حکومت کے خلاف چلائی جانے والی عدم تعاون کی تحریک کو تحریک خلافت میں ضم کر دیا۔

یوں ایک طرف تو کعبے کو صنم خانے سے پاسباں میسر آ گئے تو دوسری طرف برصغیر کے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص پر مبنی ایک عالمی اسلامی مقاصد رکھنے والی تحریک ایک ایسی مقامی ذیلی تحریک میں گم ہو گئی جس کے قائد گاندھی جی تھے۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

چنانچہ تحریک کی عین انتہا پر گاندھی جی نے چورا چوری کے واقعے کو بہانہ بنا کر اس تحریک کا خاتمہ کر دیا کہ یہ اب پر تشدد ہو گئی ہے۔ لیکن اس سے بھی دلچسپ واقع یہ ہوا کہ خود ترکی میں مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے اور ترکی کو ایک جدید قومی ریاست بنانے کا اعلان کر دیا۔

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

یہ وہی مصطفی کمال پاشا ہیں جنہوں نے یورپی ممالک کے غرور و تکبر کو مختلف جنگوں میں خاک میں ملا دیا تھا اور انہیں کبھی نہ بھولنے والا سبق سکھایا تھا۔ مصطفی کمال پاشا اور ان کی جری فوج نے ترکی کو بزور قوت مذہب سے الگ کر کے مغرب کی اندھا دھند تقلید کے راستے پر ڈال دیا۔ ترک فوج نے بذریعہ آئین ایک بالا دست قوت حاکمہ کا روپ دھار لیا اور مذہب و جمہوریت کی اپنی پسند کے مطابق تشریحات کیں تاوقتیکہ عوام کے اجتماعی شعور نے 1990 کی دہائی میں دائیں بازو کے نجم الدین اربکان کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر بٹھا دیا۔ مجھے وہ دن نہیں بھولتا جب نجم الدین اربکان پاکستان تشریف لائے۔ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے جس ملک کا دورہ کیا وہ پاکستان تھا۔ اس کے بعد انہوں نے 4 دیگر اسلامی ممالک کے دورے کیے ان میں انڈونیشیا، ملائشیا اور ایران شامل تھے۔

پاکستان میں اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت تھی۔ نجم الدین اربکان کے وفد میں حکومتی پارٹی اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ دونوں وزرائے اعظم اور ان کے وفود نے پارلیمنٹ کے ہال نمبر 2 میں طویل ملاقات کی۔ باہمی امور کے ہر اہم مسئلے پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ اس موقع پر کشمیر کمیٹی کے اس وقت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی تقریر کی۔ ان کی تقریر اردو میں تھی جس کا ساتھ ساتھ براہ راست ترجمہ ایک مترجم انگریزی میں کرتے گئے۔

بعد میں محترمہ بینظیر بھٹو نے ترک اراکین اسمبلی سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران ایک نوجوان ترک رکن اسمبلی جو مسلسل وزیر اعظم کے ہاتھوں میں تسبیح کو بغور دیکھ رہے تھے جس کے دانے ایک تواتر سے گر رہے تھے مجھ سے اچانک سوال کیا کہ وزیر اعظم تسبیح پر کون سے وظائف کا ورد کر رہی ہیں، ظاہر ہے میرا جواب نفی میں تھا۔ جو میں نے نفی میں سر ہلا کر دیا۔ میری اور سب کی توقعات کے بر عکس اس رکن پارلیمنٹ نے فوراً ہی براہ راست وزیر اعظم سے یہی سوال کر دیا۔ ایک لمحے کے لیے وزیر اعظم جو کسی اور رکن کی جانب متوجہ تھیں، خاموش ہو گئیں۔ یہ سوال ان کے لیے شاید بالکل ہی غیر متوقع تھا۔

پھر ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور انہوں نے بتایا کہ وہ ”یا مغیث“ ”یا حفیظ“ کا ورد کر رہی ہیں۔ اس پر رکن پارلیمنٹ نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ ترکی اور پاکستان کے ان مذاکرات میں جو بات مجھے سب سے دلچسپ لگی وہ پاکستانی وفد کی جانب سے کسی مسئلے کا ذکر اور اس پر ترکی کا رد عمل تھا۔ پاکستانی وفد کی جانب سے ترکی سے جس قدر حمایت و تعاون کی توقع ہوتی، ترک وزیر اعظم اس سے کہیں بڑھ کر حمایت و تعاون کی فوری پیش کش کر دیتے۔

مجھے ترکی اور پاکستان کے زعما کے درمیان مختلف ادوار میں ہونے والے مذاکرات میں سے چند کو دیکھنے کا موقع ملا اور ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ شاید ہی دنیا میں کوئی سے بھی دو ممالک کے درمیان اتنی ہم آہنگی، یگانگت اور محبت ہو جتنی ان دو ممالک میں ہے۔ دونوں ممالک میں حکومت کسی کی ہو، حزب اختلاف میں کوئی بھی ہو، محبت کے یہ سوتے اسی طرح ابلتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں جو ہر مسئلے پر باہم دست و گریبان ہونے پر ہمہ وقت مستعد رہتی ہیں، ترک صدر یا وزیر اعظم سے ملاقات کے موقع پر ہمیشہ اکٹھی ہوتی ہیں اور ان کے زعما یوں گھل مل کر ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں جیسے یہ ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments