امریکی پابندیاں: انڈیا روس سے اسلحہ خریدنے کے لیے کیا طریقے اپنا رہا ہے؟

سچن گگوئی - بی بی سی مانیٹرنگ


انڈیا، روس
روس کے خلاف مغربی پابندیوں نے انڈیا کی فوج کے لیے ممکنہ طور پر کچھ پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں جو اب بھی روسی ساختہ فوجی ساز و سامان پر کافی حد تک منحصر ہے۔

مگر دونوں ممالک اور کچھ انڈین ماہرین اس حوالے سے اب بھی مثبت رائے رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کا عسکری تعاون غیر متاثر رہے گا۔

سنہ 2020 میں امریکی تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر کے ایک تجزیے کے مطابق انڈیا کا 86 فیصد دفاعی ساز و سامان روسی ساختہ ہے۔

انڈیا نے گذشتہ ایک دہائی میں اپنے فوجی ساز و سامان کو مختلف ملکوں سے خریدنے کی کوشش کی ہے مگر اب بھی ملکی فوجی انفراسٹرکچر کا دار و مدار روس پر ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کا بنایا گیا یہ گراف دکھاتا ہے کہ انڈیا نے سنہ 2017 سے 2021 تک روس سے کتنا اسلحہ درآمد کیا۔

انڈیا، روس

امریکہ اور اتحادی ممالک کی جانب سے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد عائد کردہ پابندیوں مثلاً روسی بینکوں کو عالمی بینکاری نظام سوئفٹ سے بے دخل کرنے سے انڈین حکومت کے لیے کچھ مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔

نئی دلی نے کابینہ کمیٹی برائے سکیورٹی کی سطح پر اس کا جائزہ لیا۔

اپریل کے اوائل میں انڈین حکومت نے عندیہ دیا تھا کہ اُنھیں انڈیا کی روس سے خریداریوں پر پابندیوں کے کچھ اثرات پڑنے کی توقع ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے کہا تھا کہ ‘پابندیوں کے کچھ اثرات ہم پر پڑ سکتے ہیں مگر یہ واضح نہیں کہ یہ کتنے ہوں گے۔’

انڈین حکومت نے اس معاملے پر تب سے اب تک زیادہ بات نہیں کی ہے تاہم اس نے روس سے کوئلے اور تیل کی درآمد کو بے نظیر سطح تک بڑھا دیا ہے۔ تاہم فوجی خریداریوں پر کوئی واضح بیان نہیں جاری کیا گیا ہے۔

دوسری طرف روسی حکومت اپنے عوامی بیانات میں کافی پراعتماد نظر آ رہی ہے اور اس نے کہا ہے کہ دونوں ممالک جانتے ہیں کہ پابندیوں سے کیسے نمٹنا ہے اور اپنے دفاعی سودے جاری رکھنے ہیں۔

انڈیا، روس

اپریل میں روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے دلی کا دورہ کیا تھا اور مغربی پابندیوں کو 'مصنوعی رکاوٹیں' قرار دیا تھا۔ اُنھوں نے اصرار کیا تھا کہ ماسکو اور دلی بین الاقوامی پابندیوں کی رکاوٹوں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نکال لیں گے اور روس انڈیا کو وہ سب سامان فراہم کرنے کے لیے تیار ہے جو انڈیا خریدنا چاہتا ہے۔

بظاہر اسی بات کے اعادے کے طور پر انڈیا میں روسی سفیر ڈینس الیپوف نے 13 جون کو میڈیا کو بتایا کہ انڈیا کو ایس 400 میزائل نظام کی فراہمی کا عمل درست سمت میں بڑھ رہا ہے۔

پانچ ایس 400 یونٹس کی خریداری کا پانچ ارب ڈالر کا منصوبہ پہلے ہی روس پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھا۔ مگر حال ہی میں روسی سفیر کے اس بیان کے بعد انڈین حکومت کی خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس مخالف پابندیاں یا امریکی دباؤ انڈیا کو اس نظام کے حصول سے شاید نہ روک پائے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا انڈیا روس کے ساتھ دفاعی تعلقات ختم کر سکتا ہے؟

روسی ساختہ ایس 400 میزائل سسٹم کتنا کارگر ہے اور کیا یہ انڈیا کو خطے میں برتری دلوا پائے گا؟

کیا انڈیا روس کے بعد ایران سے بھی سستا تیل خریدے گا؟

دفاعی تجزیہ کار وجیندر کے ٹھاکر جو انڈین فضائیہ میں لڑاکا پائلٹ رہ چکے ہیں، نے اس معاملے پر انڈیا کا مؤقف اس طرح سمجھایا کہ ‘انڈیا کے فیصلوں کا دار و مدار لاگت اور آپریشنل طور پر کارآمد ہونے پر ہو گا۔ انڈیا مغرب سے اسلحہ خریدے گا اور اگر روسی نظام کم لاگت کے حامل ہوئے تو وہ روس سے خریدے گا۔’

اُنھوں نے بی بی سی مانیٹرنگ کو بتایا کہ ‘چنانچہ مجھے نہیں لگتا کہ پابندیوں سے انڈیا کے روسی ساختہ اسلحے کی دیکھ بھال پر کوئی اثر پڑے گا۔’

انڈیا، روس

ادائیگی کے نئے طریقے

انڈین میڈیا کی حالیہ اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک اپنی دوطرفہ تجارت کو معمول کے مطابق چلائے رکھنے کے لیے نت نئے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔

صفِ اول کے انگریزی کاروباری اخبار دی اکنامک ٹائمز نے 20 جون کو خبر دی کہ انڈین بینک مثلاً کینرا بینک، بینک آف مہاراشٹر اور یو سی او بینک ممکنہ طور پر مغربی پابندیوں سے بچے رہنے والے روسی بینکوں کے ساتھ تعاون قائم کر سکتے ہیں تاکہ ادائیگیوں میں سہولت برقرار رہے۔

اس خبر کے مطابق جون کے تیسرے ہفتے میں انڈین اور روسی حکام نے دلی میں ایک ملاقات کی اور ان میں انڈین حکومت، ریزرو بینک آف انڈیا، بینک آف رشیا، اور دونوں ممالک کے کئی بینکوں کے نمائندگان شامل تھے۔

اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ دونوں اطراف کے بینک ممکنہ طور پر ایک دوسرے کے پاس ایسے اکاؤنٹس کھولیں گے جنھیں لورو، ووسترو اور نوسترو کہا جاتا ہے تاکہ پابندیوں کی خلاف ورزی کیے بغیر تجارت برقرار رہ سکے۔

وسیع تر بینکاری معاہدوں کے علاوہ انڈیا یہ یقینی بنانے پر بھی کام کر رہا ہے کہ روس کو مالی پابندیوں کے باعث اسلحے کے بڑے معاہدوں میں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔

وجیندر ٹھاکر کہتے ہیں کہ انڈیا کا 20 ارب ڈالر کا ملٹی رول فائٹر ایئرکرافٹ پراجیکٹ اس کی ایک مثال ہے جس میں 114 لڑاکا طیارے خریدے جانے تھے۔ ان میں سے 18 تو مکمل طور پر تیار حالت میں درآمد ہونے تھے اور مقامی طور پر 96 طیارے بنائے جانے تھے۔

ٹھاکر کہتے ہیں کہ ‘انڈیا نے اب شرط رکھی ہے کہ انڈیا میں بننے والے پہلے 36 طیاروں کی ادائیگی جزوی طور پر انڈین روپوں میں ہو گی اور بقیہ 60 طیاروں کی ادائیگی مکمل طور پر انڈین کرنسی میں ہو گی۔ اس شرط سے روس کے لیے میدان ہموار ہو جائے گا۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ روس کا سو-75 چیک میٹ لڑاکا طیارہ بھی ممکنہ طور پر مدِ مقابل مغربی طیاروں کے برعکس سستا پڑے گا۔

فوجی سودوں میں رکاوٹیں

حالیہ مہینوں میں انڈیا اور روس کے درمیان کچھ مہنگے عسکری سودوں کے حوالے سے مذاکرات میں غیر یقینی دیکھی گئی ہے تاہم ان غیر یقینیوں اور روس پر مغربی پابندیوں کے درمیان تعلق واضح نہیں ہے۔

مثال کے طور پر روس کے ساتھ اضافی مِگ 29 اور سو-30 طیارے اور کا-226 ٹی ہیلی کاپٹروں کے سودوں میں کچھ غیر یقینی پائی گئی ہے تاہم ان سودوں کو اب تک باضابطہ طور پر منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔

مئی کے اواخر میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ ساختہ ایف 18 اور فرانسیسی ساختہ رفائیل ایم طیارے انڈیا کے طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت کو مسلح کرنے کے لیے پہلا انتخاب ہو سکتے ہیں۔ وکرانت پر رواں سال کے اواخر میں کام شروع ہونے کی توقع ہے۔

اسی دوران روسی ساختہ مِگ 29 کے لڑاکا طیارے جنھیں انڈین بحریہ اپنے واحد فعال طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرم ادیتیہ سے اڑاتی ہے، ممکنہ طور پر نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا تعلق انڈیا کی جانب سے مِگ 29 کے طیاروں کو ترجیح نہ دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپریشنل طور پر ‘ناقابلِ بھروسہ’ ہونے کے علاوہ روسی طیارہ ممکنہ طور پر فرانسیسی اور امریکی متبادل طیاروں جتنا کم خرچ نہ ہو۔

تجزیہ کار وجیندر ٹھاکر کہتے ہیں کہ ‘دونوں ہی مغربی طیارے مِگ 29 کے طیاروں سے زیادہ کم خرچ نظر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خبریں ہیں کہ روس نے سخوئی اور میکویان بیوروز کے انضمام کے بعد مِگ 29 سیریز (بشمول مِگ 35) پر مزید کام روک دیا ہے۔’

ان ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جیوپولیٹیکس اور سکیورٹی امور کی ماہر اپراجیتا پانڈے نے کہا کہ انڈیا اب کچھ عرصے سے دیگر ممالک سے درآمدات کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے روسی اسلحے پر کچھ مغربی اسلحے کو ترجیح دینا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔’

اُنھوں نے بی بی سی مانیٹرنگ کو بتایا کہ ‘مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ روس اور انڈیا اسلحے کی باہمی تجارت ختم یا کم بھی کر رہے ہیں۔’

نبیلہ خان نے گرافکس اور ڈیٹا کے تجزیے میں مدد فراہم کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments