سندھ کی مسخ تاریخ کون درست کرے گا


سندھ کی پوری لکھی گئی تاریخ مسخ ہے۔ ہم لکیر کے فقیر بنے پڑھتے رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ ہمیں مسخ تاریخ گھول کہ پلائی گئی ہے۔ ایک

ڈاکٹر مبارک علی ہیں جنہوں نے جب مسخ تاریخ سے پردا اٹھایا تو اسے سندھ میں رنجشوں کے تیر بھگتنے پڑے۔ دوسرے ایم ایچھ پہنور تھے جنہوں نے مسخ تاریخ پر غیر متنازعہ قلم اٹھایا تو وہ نظر اندازی کے گہرائی میں ڈبو دیے گئے۔ تیسرا کس قدر علی احمد بروہی کہہ سکتے ہیں جن کا قلم مسخ تاریخ پر جنبش میں آیا مگر اسے اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ میں بھی مسخ تاریخ پر لکھنے کی وجہ سے پاپڑ پیل رہا ہوں مگر ہمت سے کام لے کر لکھتا رہا ہوں۔

سندھ کی تاریخ ترتیب دینے والے حاوی گروہ کی طرف سے جان بوجھ کر ایسے منصوبے پر کام کیا۔ اور حقیقی تاریخ سے گمراہ کیا۔ ایک تو سندھ کی تاریخ عربی اور فارسی سے ترجمہ کرتے وقت اصل واقعات اور بیانات پر پردہ ڈال کے اپنی من گھڑت اور من پسند روایات تھوپیں۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے اپنی طرف سے ایسی روایات شامل کیں جن کا سرے سے نہ حقیقت سے تعلق ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں منطقی دلیل یا تاریخی حوالے شامل کیے گئے۔ سندھ کی پوری تاریخ اکثر مبالغہ آرائی اور جھوٹے بیانات پر مبنی ہے۔ یہاں پوری تاریخ پر تو بحث نہیں کی جا سکتی البتہ ایک واقعہ یا بیان کے ذکر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر سندھ کی تاریخ سے بھونڈا مذاق کیا گیا ہے۔

سندھ میں سمہ سلاطین دور کے محب وطن اور بزرگ حکمران جام نظام الدین دوئم عرف جام نندو کے دور ( 1509 ء۔ 1461 ء) میں دو الگ بہادر جرنیلوں جام مبارک خان سمہ اور دولہہ دریا خان کی تاریخ مسخ کر کے دونوں کو ایک شخصیت یعنے دولہہ دریا خان کے طور پر پیش کیا ہے۔

میری تحیق کے مطابق دونوں الگ ہیں اور دونوں کا دور بھی الگ ہے۔ جام مبارک خان پہلے دور میں تھا اور دولہہ دریا خان پچھلے دور میں تھا۔ یہاں تک کہ تقلید میں دولہہ دریا خان کو زبردستی جام نظام الدین کا منہ بولا بیٹا اور ذات یا قبیلے کے حوالے لاشاری بیان کر کے اسے متنازعہ بنایا گیا ہے۔ دولہہ دریا خان کسی بھی صورت میں لاشاری نہیں۔ دریا خان سمہ تھے۔ انگریز دور یا اس سے پہلے کسی بھی تاریخ میں دولہہ دریا خان کو لاشاری نہیں لکھا گیا۔

پاکستان بننے کے بعد سندھ کے مورخین نے بے بنیاد روایت کے مطابق اسے لاشاری بنایا گیا۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ مکلی کے قبرستان میں جام مبارک خان سمہ کی مزار کو بغیر کسی تحقیق کے دولہہ دریا خان کا دوسرا نام مبارک خان لکھ کر اس کا مزار لکھا گیا ہے اور سائن بورڈ لگایا گیا ہے۔ مزار پر کندہ کتبے ہی گواہی دیتے ہیں کہ مزار دولہہ دریا خان کا نہیں پر جام مبارک خان کا ہے۔

مندرجہ ذیل جام مبارک خان کے مزار کے کتبے ہیں ؛

1، ہٰذا المقام فی زمان خان الاعظم میان مبارک خان بن سلطان نظام الدین شاہ سخی حبیب اللہ۔ آغاز بنیاد من جمادی الاول سنہ خمس وتسعین وثمان مائة۔

ترجمہ

یہ مزار خان الاعظم میاں مبارک خان بن سلطان نظام الدین شاہ، سخی اللہ کے دوست (حبیب اللہ) کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر کی ابتدا جمادی الاول سال 895 ہجری ( 1490 ء) میں کی گئی ( اس کی بنیاد جمادی الاول سال 895 ہجری ہیں رکھی گئی)

کاتب:
کتبہ قطب الدین بن محمود۔ احمد بن دریا خان غفر اللہ لہ۔
ترجمہ
یہ کتبہ قطب الدین بن محمود احمد بن دریا خان نے لکھا ہے۔ اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائے۔
شمالی دروازے پر کندہ کتبہ

ھذا المقام بامر خان الاعظم مبارک خان بن سلطان نظام الدین شاہ بن صدرالدین شاہ بن صلاح الدین شاہ بن سلطان رکن الدین شاہ۔ وھو المظفر علی مغلان الھری والقندھار۔

ترجمہ:

اس مزار کی تعمیر بحکم خان الاعظم مبارک خان بن سلطان نظام الدین شاہ بن صدرالددین شاہ۔ بن صلاح الدین شاہ بن سلطان رکن الدین شاہ کی گئی۔ یہ وہ شخصیت ہے جس نے ہرا (ہرات) اور قندھار کے مغل بادشاہوں پر فتح حاصل کی تھی۔

مبارک خان کی قبر کا کتبہ
یا اللہ، ہذا مرقد المعطرللخان الاعظم شہید مبارک بن سلطان نظام الدین۔
ترجمہ
یا اللہ۔ یہ معطر قبر خان الاعظم شیید مبارک خان بن سلطان نظام الدین کی ہے۔

مندرجہ بالی سارے کتبوں میں کہیں بھی دولہہ دریان کا نام نہیں۔ ہاں البتہ کاتب کے دادا کا نام دریا خان درج ہے۔ کتبوں کو تاریخ بھی سپورٹ کرتی ہے کہ یہ مزار جام مبارک کا مزار ہے جس نے اپنے مزار کی اپنی زندگی میں بنیاد رکھی تھی اور قندھاریوں سے لڑتے شہید ہوئے تو مزار کا کام مکمل بعد میں ہوا تھا۔

آرکیولاجیکل سروی آف انڈیا، بمبئی اسٹیٹ ڈپارٹمینٹ کی 1921 ء میں چھپی کتاب ”آرکیولاجی سروی رپورٹ“ کے صفحہ 95 پر لکھا ہے کہ، ”جیسا کہ خان الاعظم مبارک خان 895 ہجری بمطابق 1489 ء یا 1490 ء میں مغلوں سے لڑتے شہید ہوئے تھے یہ تاریخ جام نظام الدین کے پچھلے دور میں ہونی چاہیے۔“ یہ بیان کتبے میں جام مبارک خان کی شہادت کے نقش سال کی تائید کرتا ہے کیوں کہ دولہہ دریا خان شاہ بیگ ارغون سے لڑتے 1490 ء نہیں بلکہ 1521 ء میں شہید ہوئے تھے۔

کتبوں میں جام مبارک خان کی مغلوں، ہراتیوں اور قندھیاریوں کو شکست دینے کی بات نقش ہے جس کی تصدیق ولیم ارسکنن (WilliamErskinine) کرتے ہوئے اپنی کتاب ”ہسٹری آف انڈیا، ڈے ٹہ فرسٹ سووریں، تیمور، بابر اینڈ ہمایوں“ والیوم 1، کے صفحہ 342 پر کرتے ہیں کہ ”1479 ء میں ذوانون نے شال (کوئٹہ) اور مستونگ کو قندھار سے ملایا۔ بعد میں شاہ بیگ ارغون 1486 ء میں سبی کا علاقہ جام نظام الدین سمہ کے آدمی بہادر خان سے چھین لیا۔ جام نظام الدین نے جام مبارک کو لشکر کے ساتھ بھیجا جس نے فتح حاصل کی اور شاہ بیگ کے بھائی قتل ہو گئے۔“ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ جام مبارک خان جسے خان الاعظم کا خطاب حاصل تھا وہ الگ تھا مگر تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے اس نام کو دولہہ دریا خان سے منسوب کیا گیا۔

ایم ایچھ صدیقی 1972 ء میں سندھیالوجی کی طرف سے شایع ہونے والے اپنے پی ایچھ ڈی کے مقالے ”ارغونوں اور ترخانوں کی تاریخ“ میں واضح لکھا ہے کہ جام مبارک اور دولہہ دریا خان دو الگ شخصیات ہیں۔

میرے پاس اس طرح سے بہت واقعات ہیں جو سندھ کی مسخ تاریخ میں شامل ہیں۔ سندھ کی اس طرح مسخ تاریخ کو کون درست کرے گا؟ شاید کوئی نہیں۔ کیوں کہ جس گروہ نے سندھ کی تاریخ مسخ کی ہے اس کی پیروی کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments