کیا مہنگائی نے اس محنتی بچے کی مسکراہٹ چھین لی ہو گی؟


وہ بارہ تیرہ سال کا لڑکا میرے پاس دوائی لینے آیا تھا۔ گھر میں کوئی بیمار تھا اور وہ علامتیں بتا کر اس کے لیے دوائی لے جانا چاہتا تھا۔ میں نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ کس کلاس میں پڑھتے ہو؟
”سکول تو نہیں جاتا میں“ اس نے ترنت جواب دیا
”پھر کیا کرتے ہو؟“

”ہوٹل پہ کام کرتا ہوں، سکول جاؤں گا تو گھر کا نظام کیسے چلے گا“ اس نے چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ جواب دیا

” گھر میں کوئی اور نہیں ہے کام کرنے والا؟“ میں نے سوالات کا سلسلہ دراز کیا

”ابو ہیں، وہ پہلے دوسرے شہر میں کام کرتے تھے۔ پھر وہاں سے چھوڑ کے واپس آ گئے۔ اب کچھ اور لوگوں کے ساتھ جنگل میں سونا ڈھونڈنے جاتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے“

”اور گھر چلانے کی ساری ذمہ داری تمھاری ہے؟“ میں نے حیرت سے پوچھا
”ہاں“ وہ بڑے اطمینان سے مسکراتے ہوئے بولا ”میں نہیں لوں گا ذمہ داری تو اور کون لے گا“
میرے پاس کرنے کو اور کوئی سوال نہیں تھا، اس لیے چپ رہا۔

پھر وہ بولا

” آپ میرے پاس ہوٹل آئیں گے چائے پینے؟ آپ کو بہترین دودھ پتی والی چائے پلاؤں گا“ اس نے بڑے پرزور انداز میں پوچھا تو میں نے حامی بھر لی کہ کسی دن ضرور آؤں گا حالانکہ میں جانتا تھا کہ میں شاید نہ جا سکوں۔

وہ تھوڑے فاصلے پہ موجود ایک شہر کے ہوٹل میں کام کرنے جاتا تھا، اس نے مجھے اپنے ہوٹل کا پتا سمجھایا اور یہ بھی بتایا کہ میں صبح سے شام تک وہیں ہوتا ہوں، شام کے بعد واپس گھر آ جاتا ہوں۔ پھر مجھے ہوٹل آنے کی دوبارہ سے پرزور دعوت دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔

اس چھوٹی سی عمر میں اتنے اطمینان اور سکون سے گھر کی ذمہ داری لینے والا وہ لڑکا اپنی جاندار مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ میرے حافظے میں محفوظ رہا لیکن میں چند کلومیٹر کا سفر کر کے اس کے پاس ہوٹل پہ چائے پینے نہیں جا سکا۔ ایسے ہی پتا نہیں کتنے دن گزر گئے اور ایک دن وہ مجھے رستے میں مل گیا۔

”آپ میرے پاس چائے پینے نہیں آئے نا“ ملتے ہی اس نے اتنا پرخلوص شکوہ کیا کہ مجھے اس کے پاس نہ جانے کی شرمندگی ہونے لگی۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ جلد ہی ضرور آؤں گا۔ اس دفعہ وعدے کے ساتھ دل میں پکا ارادہ بھی کیا کہ اگلے کچھ دن میں لازمی اس کے پاس جانا ہے۔

اور پھر ایک روز میں وقت نکال کے اس شہر پہنچ گیا جہاں وہ کام کرنے جاتا تھا۔ تھوڑی سی کوشش سے اس کا ہوٹل بھی مل گیا۔ دوپہر کا وقت تھا، رش لگا ہوا تھا اور وہ ساری میزوں پہ روٹی سالن پہنچانے کے لیے پورے ہوٹل میں دوڑتا پھر رہا تھا۔ مجھ پہ نظر پڑی تو فوراً میری طرف لپکا، اس کے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی۔ مجھے ایک صاف میز پہ بٹھا کر کھانے کا پوچھا لیکن میں نے صرف چائے پہ اکتفا کیا۔ وہ سب کے آرڈر پورے کرتا تھوڑی ہی دیر میں میرے لیے چائے لے آیا۔ چائے کو خاص کرنے کے لیے اس کے اوپر سفید ملائی بھی ڈالی ہوئی تھی۔ میں چائے کے گھونٹ بھرتا اسے بھاگتے دوڑتے دیکھنے لگا۔ کچھ رش کم ہوا تو وہ چمکتی آنکھیں لیے میرے پاس آ بیٹھا۔

”یہ کتنی تنخواہ دیتے ہیں؟“ میں نے پوچھا
”روزانہ کے تین سو“
”تین سو میں گھر کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں؟“

”نہ بھی ہوں تو کرنے ہی پڑتے ہیں“ جواب دیتے ہوئے اس کے چہرے پہ وہی جاندار مسکراہٹ تھی۔ اسے کسی میز سے بلاوا آیا تو وہ پھر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے اس سے اجازت لی اور واپس آ گیا۔

آج مجھے کسی سے پتا چلا کہ اس شہر جانے کا کرایہ جو پہلے بیس تیس روپے تھا، اب پچاس روپے ہو گیا ہے، یعنی آنے جانے کے سو روپے۔ میرے ذہن میں فوراً اس کا چہرہ آیا، وہی چمکتی آنکھیں اور جاندار مسکراہٹ لیے۔ اور پھر حساب کتاب چلنے لگا کہ روزانہ کے تین سو میں سے سو روپیہ تو اس کا آنے جانے پہ لگ جاتا ہو گا، باقی کے دو سو میں وہ گھر پتا نہیں کیسے چلاتا ہو گا۔

پھر خیال آیا کہ کیا اس مہنگائی نے اس کی خوبصورت مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک کھا لی ہو گی؟ یا وہ ابھی تک اپنا خزانہ بچا کر رکھے ہوئے ہے؟

اور اگر وہ مضبوط قوت ارادی کا مالک لڑکا ابھی تک اپنی چمکتی آنکھیں اور خوبصورت مسکراہٹ بچائے ہوئے بھی ہے تو مہنگائی کے ایسے ظالم طوفان سے کب تک اس خزانے کو بچا کر رکھ پائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments