مجبوریوں اور بے بسی کا قفس
قفس میں بہت سے انسانوں کو ، پرندوں کو ، درندوں کو ، جانوروں کو دیکھا۔
کسی کے پر کٹے ہوتے ہیں، کسی کو نکیل ڈلی ہوتی ہے اور کوئی پالتو ہو کر یہ قفس قبول کر لیتا ہے، قفس میں کسی کو سیاسی طور پر دیکھا اور کسی کو معاشی طور پر ۔ مجھے کبھی رحم آتا ہے اور کبھی میں رو پڑتا ہوں۔ لیکن شاید میں آہستہ آہستہ بے حس ہوتا جا رہا ہوں شاید میں بے حسی کے قفس کا قیدی بنتا جا رہا ہوں۔
سوچتا ہوں جب اس پرندے کے پر بھی دوبارہ نکل آئے ہیں اور پنجرے کا دروازہ بھی کھلا ہے تو یہ اڑ کیوں نہیں جاتا۔ پھر سوچتا ہوں کہ شاید یہ بچہ تھا جب قفس میں آیا اس کو پتہ ہی نہ ہو اڑتے کیسے ہیں۔ میں نے پرندے کو پنجرے سے نکال کر اڑا دیا اور وہ پھر واپس پنجرے میں لوٹ آیا اور دروازے کی طرف دیکھنے لگا کہ یہ بیوقوف پھر سے مجھے باہر نہ نکال دے۔ اس کا بس چلتا تو دروازہ اندر سے بند کر لیتا۔ جب میں نے اس کو اگنور کیا تو دانہ کھانے لگ گیا۔
مجھے احساس ہوا شاید یہ اس قفس کا عادی ہو چکا ہے۔ میں اس سلسلے کو سمجھنا چاہتا تھا۔ میرے فوٹوگرافر دوست میاں بیوی کسی کے پاس نوکری کرتے تھے اس نے ان کے لاکھوں روپے دینے تھے پر ان کو ایک کمرے کا گھر دیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ نہ تو نوکری چھوڑتے تھے اور نہ ہی کمرہ خالی کرتے تھے ایک دن اس عظیم انسان نے ان کو اس کمرے سے نکال دیا اور پیسے بھی نہیں دیے۔ کافی عرصہ رابطہ نہ ہوسکا لیکن جب بھی میرے پاس کسی خاتون فوٹوگرافر کا کام آتا تو میں ان کا نمبر شیئر کر دیتا اور مجھے بھی شکریہ کا میسج آ جاتا۔
ایک دن ان کا فون آیا سر ہمارا گھر دیکھنے آئیں۔ میں گیا تو ایک نہایت ہی صاف ستھرا نیا بنا ہوا گھر تھا۔ سر یہ ہمارا اپنا گھر ہے میرا بیٹا اور ہم میاں بیوی تینوں یہاں رہتے ہیں۔ ماشاءاللہ ماشاءاللہ یہ سب کیسے ممکن ہوا سر جب قفس سے نکلے تو کرائے کے گھروں میں خوار ہوتے رہے پہلے پلاٹ لیا اور آہستہ آہستہ گھر بن گیا۔ شکر الحمدللہ اس دن مجھے ایک بات سمجھ آئی کہ مجبوریاں اور بے بسی بھی ایک طرح کا قفس ہی ہوتا ہے۔
جب آپ اس سے نکلتے ہیں تو آپ اس سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ آج صبح ہی ترقی کرنے کا ایک ہنر سمجھ آیا کہ ہر ناکے پر بحث اور جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اپنا وقت اور مزاج دونوں کو برباد ہونے سے بچائیں اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزر جائیں۔ کچھ لوگ اپنی شخصیت کے قفس کے قیدی ہوتے ہیں وہ اپنے علاوہ کسی کی سننا بھی پسند نہیں کرتے اور سب کو سمجھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ جب تک آپ اپنے قفس سے نکلیں گے نہیں تو دوسروں کو سمجھیں گے کیسے۔
آج کل ایک نئی نسل سامنے آئی ہے جو اپنی غلام خود ہی ہے وہ سب کام خود کرنا چاہتے ہیں اور اپنے بنائے ہوئے قفس میں قید ہیں۔ قفس سے نکلنے کے لئے کسی چابی یا طاقت کی ضرورت نہیں ہوتی بس سوچ بدلنا پڑتی ہے۔ سوچ بدلیے قفس توڑیے اور زندگی کا مزہ لیجیے۔ جو کما کر کھانے میں یا شکار کر کے کھانے کا مزا ہے وہ قفس میں ڈالے گئے گوشت یا دانے کا نہیں ہو سکتا بے شک آپ ببر شیر ہیں، پرندے ہیں یا انسان۔ سب کے لئے دعا کیا کریں اللہ تعالٰی بے بسی، بے چارگی، لاچارگی، کسمپرسی، مجبوری، معذوری، مغروری کے قفس سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہمیں آزاد ہونے اور آزاد رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
بے شک میرے اللہ نے ہمیں آزاد پیدا کیا ہے لیکن پھر بھی ہم اپنے حصے کا قفس تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ سوچتا ہوں اگر ساری دنیا کے قفس توڑ دے جائیں تو ان قیدیوں کا کیا بنے گا۔ یہ تو قفس والی جگہ پر بیٹھے بیٹھے بھوکے مر جائیں گے۔ لیکن نہ آزاد ہوں گے اور نہ اپنے آپ کو آزاد سمجھیں گے۔ خود آزاد رہیے اور دوستوں کو قفس توڑنے میں مدد کیجئے یہ کام کوئی ادارہ نہیں کرے گا آپ کو خود اپنی مدد آپ کے تحت کرنا ہو گا۔ آئے بسم اللہ کیجئے آزاد ہو جائے۔ اور مزے لیجیے زندگی کے۔
- ماہ رمضان - 01/04/2024
- اکرم بندہ - 25/03/2024
- احمد سلیم سے تیس سال پرانی دوستی - 12/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).