اتنا آساں نہیں اکانومسٹ ہو جانا


ایک نظر ہم ڈالتے ہیں پاکستان میں اس وقت کمر توڑ مہنگائی کی طرف۔ کہ یہ مہنگائی ہوتی کیوں ہے۔ مہنگائی کی دو اقسام ہیں۔ کاسٹ پش اور دوسری ڈیمانڈ پل افراط زر ہے۔ پہلی قسم میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اشیاء کے طلب و رسد کے توازن میں بگاڑ لائے بغیر اور دوسری قسم میں جب چیزوں کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے مگر دوسری طرف رسد وہی کی وہی برقرار رہتی ہے۔ پاکستان میں پہلی قسم کی افراط زر کا تعین کیا گیا ہے جس میں اشیاء کی قیمتیں تو بڑھ رہی ہیں مگر ان کا بڑھنا ان کی طلب کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان پر آنے والی لاگت کی وجہ سے ہے۔

اس طرح کے افراط زر میں عام آدمی کی قوت خرید دن بدن کم ہوتی جاتی ہے کیونکہ دوسری طرف اس کی آمدنی میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہو رہا ہوتا۔ تھامس پکٹی نے اپنی کتاب جس کا عنوان تھا ”کیپٹل ان ٹوینٹی فرسٹ سنچری“ میں اس بات کو واضح کیا کہ جب سود کا تناسب ملک میں ترقی کی نمو سے زیادہ ہو جتنے فیصد سے زیادہ ہو گا ہر سال اتنے فیصد سے عام آدمی کے اثاثوں میں کمی ہوگی۔ یہی حال عام پاکستانیوں کا ہے جن کے اثاثوں میں دن بدن کمی واقع ہوتی جا رہی ہے مگر دوسری طرف مخصوص طبقے کے اثاثوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سود کی شرح پاکستان کی ترقی کی نمو سے ہر دور میں زیادہ ہوتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں دونوں طرح کے افراط زر پائے جاتے ہیں۔ جو ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس طرح کی انہونی صورتحال صرف پاکستان میں ہی کیوں پائی جاتی ہے؟ اب ذرا پہلے ڈیمانڈ پل افراط زر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ پر دس افراد موجود ہیں۔ اور ہر فرد کے پاس ایک روپیہ ہے۔ اور اسی مارکیٹ میں دس روٹیاں موجود ہیں۔ اور مارکیٹ میں روٹی کی قیمت ایک روپیہ ہے تو اس حساب کے مطابق ہر آدمی ایک روپیہ دے کر ایک روٹی خریدے گا۔

اگر ان میں سے دو یا تین افراد کے پاس ایک روپے سے زیادہ رقم آ جاتی ہے تو وہ کوشش کرے گا کہ وہ دو یا تین روٹیاں خریدے مگر مارکیٹ میں تو موجود روٹیوں کی رسد میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ تو ظاہری بات ہے وہ روٹیوں کی زیادہ قیمت ادا کرنے پر راضی ہو جائے گا۔ اس طرح فی کس روٹی کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں مخصوص لوگوں کے پاس پیسوں کا اضافہ کیسے ہو رہا ہے۔ جن کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کی مارکیٹ میں رسد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں لایا جا رہا۔

رسد میں اضافے کے اوپر ہم تھوڑا آگے جا کے بات کریں گے۔ پیسے میں اضافے کی دو وجوہات ہیں ایک حکومتی سطح پر اور دوسرا مارکیٹ کی سطح پر ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ حکومت اپنے خسارے اور باقی ماندہ چیزوں کو پورا کرنے کے لیے کرنسی نوٹ چھاپتی ہے مگر مقامی سطح پر اس کے مقابلے میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی جس کی وجہ سے یہ کرنسی نوٹ ملک میں افراط زر کا سبب بنتے ہیں۔ اگر تو ان سب پانے والے روپوں کی تقسیم متوازن طریقے سے ہوتی تو پھر ملک میں افراط زر کی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ مگر ایسا نہیں ہے یہ چھپنے والا روپیہ ایک مخصوص طبقہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اگر تو اس مخصوص طبقے میں پہنچنے کی وجہ سے صنعتی پیداوار ہوتی تب بھی ملک کو بہت سے مسائل سے نکالا جا سکتا تھا۔

مگر اس کے مقابلے میں جو مارکیٹ میں چیز بنائی جاتی ہے۔ وہ صنعتی پیداوار کی وجہ سے سامنے نہیں آتی بلکہ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی مرہون منت ہوتی ہے جس میں مختلف سیاسی افراد بلکہ اس وقت سیاسی جماعتیں اور دوسری طرف پاکستان کے سارے ادارے اس دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ اس پیسے کو ایڈجسٹ کر لیتی ہے۔ اس کی وجہ سے ایک مخصوص طبقہ میں پیسے کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف ملک میں بدعنوانی کی راہ کو بھی ہموار کرتا ہے۔

یہ وافر مقدار میں پیسہ اس مخصوص طبقہ میں غیر ضروری اشیاء کے استعمال اور آرام و آسائش کی اشیاء کی طلب میں اضافے کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے ملک کے بیلنس آف ٹریڈ میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ بیلنس آف ٹریڈ دو چیزوں کا مجموعہ ہے آپ کے ملک کی پیداوار جو آپ برآمد کرتے ہیں اور جو آپ کے ملک کی کنزمپشن اگر پیداوار کنزمپشن سے کم ہو جاتی ہے تو پھر آپ درآمدات کا حجم بڑھانا پڑتا ہے ایک طرف تو پاکستان میں پیداوار کی سطح بہت کم ہے مگر دوسری طرف ایزی منی کی وجہ سے اشیاء کی کھپت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ریاست کو درآمدات کی مد میں بہت زیادہ ڈالرز کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کیا دوسرے انٹرنیشنل بینک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ جو ہمیں قرضہ تو دیتے ہیں مگر ان کے قرضے کو ادا کرنے کے لیے دوبارہ حکومت کو ٹیکس کی مقدار بڑھا کر چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ جو اس وقت ہر حکومت کرتی ہوئی آ رہی ہے۔ اور عوام کو اب بندر بھرتیاں دکھانے کے لئے غیر ضروری باتوں میں الجھایا جا رہا ہے۔ مگر حقیقی مسائل کی طرف توجہ نہیں آنے دی جا رہی۔

کیونکہ زیادہ تر رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو یا تو سیاستدان یا سیاسی جماعتیں یا پاکستان کے عسکری اور غیر عسکری ادارے چلا رہے ہیں۔ تو اس طرف توجہ بھی نہیں آنے دی جا رہی ہوتی۔ اگر پاکستان کی ریئل اسٹیٹ کو ریگولر مارکیٹ کے طور پر ریگولیٹ کیا جائے تو جس طریقے سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس اضافے کے اوپر حکومت ٹیکس لگا کر اپنے اخراجات کے لیے آمدن کا ایک ذریعہ بنا سکتی ہے دوسری طرف اس مارکیٹ کی وجہ سے جو کالا دھن ہے اس کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر ایک سرکاری ملازم یا سیاسی جماعت کا کوئی نمائندہ ایک سال پہلے پچاس ہزار روپے مرلہ کے طور پر اگر زمین ظاہر کرتا ہے سال بعد وہ زمین دس لاکھ روپے مرلہ ہو جاتی ہے۔ اور وہی رقم اپنے ٹیکس گوشواروں میں دکھاتا ہے کہ اسے یہ آمدن رئیل اسٹیٹ بزنس سی آئی ہے۔ کیونکہ یہ مارکیٹ ریگولیٹڈ مارکیٹ نہیں ہے تو اس لیے اس بات کا ادراک کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ تو اس طرح سے وہ اپنے کالے دھن کو بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اور یہ ایزی منی بعد میں ایک عام آدمی کے لئے سر درد بن جاتا ہے جس کا نہ تو اس کنزمپشن میں کوئی کردار ہے نہ ہی امپورٹ ایکسپورٹ کے توازن میں بگاڑ میں کوئی کردار ہے۔ اور پھر مالیاتی اداروں کی ڈیٹ سروسنگ اور حکومتی خساروں کے پورا کرنے کے لئے جو ٹیکس لگایا جاتا ہے وہ اسی عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے بعد اس بکری کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرتی جس کی وجہ سے کام ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ اور گالیاں ہر دور میں وزیر خزانہ کو ہی پڑتی ہیں۔ جو خدا کے خوف کی وجہ سے تو نہیں مگر اس مافیا کے خوف کی وجہ سے ہر دور میں اس مارکیٹ کے اوپر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments