مولانا اسلم قریشی صاحب کا اغوا، شہادت اور پھر زندہ ہونا (2)


MM Ahmad

گزشتہ کالم میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ کس طرح احمدیوں کی مخالفت میں سرگرم مولانا اسلم قریشی صاحب غائب ہو گئے اور عوام کو یقین دلایا گیا کہ انہیں احمدیوں نے اغوا کر کے قتل کر دیا ہے۔ 1983 کے بالکل آخر میں یہ خبریں اڑائی جا رہی تھیں کہ اب قادیانیوں نے اسلم قریشی صاحب کے بیٹے صہیب کو بھی اغوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ خبریں شائع ہونے لگیں کہ یہ سلسلہ حضرت مولانا اسلم قریشی پر نہیں رکے گا۔ قادیانیوں نے مزید علماء کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ آخر کیوں؟

[ختم نبوت کراچی، 3 تا 9 دسمبر 1983 ص 4، 5، 18، 19۔ ختم نبوت 9 تا 15 دسمبر 4، 5، 22، 23۔ ختم نبوت 16 تا 22 دسمبر 1983 ص 5 ]

1984 کے آغاز پر لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا کہ اب تک مولانا اسلم قریشی شہید کے قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ آٹھویں قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر جسٹس تنزیل الرحمن نے صدر جنرل ضیاء صاحب کی موجودگی میں مطالبہ کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ختم نبوت کی حفاظت کے لئے مرتد کی سزا موت تجویز کی ہے۔ اور حکومت کو چاہیے کہ اس پر عمل درآمد کرے۔ اور کونسل نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ قادیانیوں کو روکا جائے کہ وہ اپنی عبادت گاہ کے لئے مسجد کا لفظ استعمال کریں۔ اور اذان کا استعمال کریں یا اپنے لئے مسلمان کا لفظ استعمال کر سکیں۔ اور جسٹس صاحب نے اس بات پر برہم گی کا اظہار کیا کہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کیوں نہیں کر رہی۔ بہر حال اب ایک بحران پیدا کر دیا گیا تھا اور سب کی نظریں جنرل ضیاء صاحب پر مرکوز تھیں کہ وہ اس بحران سے ملک کو کس طرح نجات دلاتے ہیں۔

[چٹان 2 تا 9 جنوری 1983 ص 6 و 7 ]

بیان دیے جا رہے تھے کہ کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کو لگانا آئین سے غداری کے مترادف ہے۔ یہاں ’کلیدی اسامیوں‘ کی تعریف بھی ملاحظہ فرمائیں، چنیوٹ میں ہونے والی اکتیسویں آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ چنیوٹ کے ریلوے سٹیشن کے سٹال کا ٹھیکہ ایک قادیانی کو دیا گیا ہے اسے فوری طور پر ہٹایا جائے۔ اور گورنمنٹ کالج چنیوٹ میں ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن ایک قادیانی کو لگایا گیا ہے، اسے فوری طور پر برطرف کیا جائے۔

[ چٹان 2 تا 9 جنوری 1984 ص 21 تا 23 ]

آخر کار یہ اعلان کیا گیا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہم 30 اپریل 1984 کو قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کر دیں گے۔ مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب نے کہا کہ ہم نے اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کے سلسلہ میں حکومت کو چھ آدمیوں کے نام دیے ہیں اور ان میں جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد کا نام بھی شامل ہے۔ اگر ان چھ آدمیوں سے اسلم قریشی برآمد نہ ہوا تو ہم سر بازار گولی کھانے کو تیار ہیں۔

[نوائے وقت لاہور 18 فروری 1984 ]

جید علماء نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ وہ 27 اپریل 1984 کو ایک عظیم الشان اجتماع منعقد کریں گے۔ حکومت نے کچھ کرنا ہے تو کر لے۔ چنانچہ جنرل ضیاء صاحب 26 اپریل 1984 کو بروقت کارروائی کرتے ہوئے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کر کے احمدیوں پر مختلف پابندیاں لگا دیں۔ اب ملک میں جشن منایا جا رہا تھا۔ ایک بار پھر جنرل ضیاء صاحب ایک ہیرو اور مرد آہن کی صورت میں سامنے آئے تھے۔

اس آرڈیننس کے چند روز بعد ہی جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد صاحب پاکستان سے لندن چلے گئے۔

اخبارات میں بڑی بڑی شہ سرخیاں شائع ہوئیں کہ اسلم قریشی کیس کی تحقیقات وسیع ہوتے ہی مرزا طاہر احمد لندن چلے گئے۔

آخرکار 12 جولائی 1989 کا دن آن پہنچا۔ جب شام کی خبروں کا وقت ہوا تو یکلخت سکرین پر پویس کی معیت میں بیٹھے ہوئے ’مولانا اسلم قریشی‘ صاحب نظر آئے۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں یہ ان کی نعش مبارک نہیں تھی بلکہ زندہ اور سالم مولانا اسلم قریشی صاحب تھے۔ ہاں وہی اسلم قریشی شہید جن کے متعلق یہ دعوے تھے کہ احمدیوں نے بلکہ جماعت احمدیہ کے سربراہ نے انہیں قتل کروا دیا ہے۔ ہاں وہی حضرت مولانا اسلم قریشی صاحب جن کے متعلق یہ اشتہار دیا گیا تھا کہ اگر احمدیوں سے اس کا پتہ نہ ملے تو ہمیں چوک میں گولی مار دینا۔ ہاں وہی اسلم قریشی صاحب جن کے اغواء اور شہادت کی وجہ سے پورا ملک ایک ہیجان میں مبتلا رہا تھا۔ آج وہی ”اسلم قریشی شہید ہمیں سکرین پر زندہ سلامت جلوہ افروز نظر آ رہے تھے۔

اب ان ’مولانا‘ کی کہانی ان کی اپنی زبانی سنیں۔ ان صاحب فرمایا کہ ملک سے چلا جانا اصل میں میری اسلامی سوچ کا نتیجہ تھا۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور یہاں توہین رسالت ہوتی تھی۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اس طرح جانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔ غائب ہونے کے بعد 4 یا 6 ماہ پاکستان میں رہا۔ اور اپنے گم ہونے پر تقریریں بھی سنتا رہا۔ اور پھر ایران کی سرحد کے قریب ایک گاؤں میں مزدوری کرنے لگا لیکن یہ مشقت کا کام تھا اور مجھے مشقت کی عادت نہیں تھی۔ چنانچہ میں ایران آ گیا۔ اور وہاں سیستان میں امام کی نوکری مل گئی۔ پھر فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اور عراق کے خلاف جنگ میں بھی شامل ہوا۔ اور پھر وہاں سردی لگنے لگی میرے پاؤں شل ہو جاتے تھے۔ چنانچہ وہاں بھی نہیں ٹک سکا اور پاکستان واپس آ گیا۔

ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو اپنے اہل خانہ کا خیال نہ آیا کہ انہیں بھی اطلاع کر دیں۔ فرمانے لگے میں اللہ کے بھروسے پر انہیں چھوڑ گیا تھا۔ ایک دو سال پہلے میں نے اپنے بیٹے کو خط بھجوایا تھا۔ ان کے صاحبزادے سے پوچھا گیا کہ آپ نے وہ خط ایجنسیوں کو کیوں نہیں دکھایا۔ تو وہ فرمانے لگے میں نے ایک ہینڈ رائیٹنگ کے ماہر کو دکھایا تھا تو اس نے کہا تھا کہ یہ اسلم قریشی صاحب کی تحریر نہیں ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کی گمشدگی کی وجہ سے لوگ ایک اقلیت کو مارنے پر تل گئے تھے۔ کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں تھی؟ تو اسلم قریشی صاحب نے کہا کہ میرے خیال میں تو انہیں نیست و نابود ہی ہو جانا چاہیے۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ انہیں یقین تھا کہ اسلم قریشی صاحب قتل نہیں ہوئے اور کچھ عرصہ سے خبریں مل رہی تھیں کہ وہ ایران میں زندہ موجود ہیں۔

[نوائے وقت 13 جولائی، 1988، جنگ 13 جولائی 1988 ]

اب مولانا جیل کی کوٹھری میں چیخیں مار رہے ہیں کہ میری جنگ قادیانیوں کے ساتھ ہے۔ اب اس ملک میں یا میں رہوں گا یا قادیانی رہیں گے۔ پھر یہ خبر شائع ہوئی کہ وہ صرف ڈبل روٹی کھا رہے ہیں۔ یا دینی مطالعہ کر رہے ہیں۔ کمزور بہت ہو گئے ہیں۔ پھر یہ پرچا بھی لگا کہ مولانا اسلم قریشی صاحب کے اہل خانہ ان کی ضمانت اور رہائی کے لئے کوئی کوشش نہیں کر رہے بلکہ انہیں گھر سے کھانا بھی نہیں بھجوا رہے۔ اور جیل کا کھانا کھانے پر مولانا تیار نہیں ہو رہے۔

ایک دن ایک اخبار نے یہ تشویشناک خبر شائع کی کہ جب مولانا کو کھانے کے لئے دال پیش کی گئی تو انہوں نے دال کھانے سے صاف انکار کر دیا اور فرمائش کی کہ مجھے مرغ کا گوشت پیش کیا جائے۔ اتنا لمبا عرصہ پوری قوم کو دھوکہ دینے کے بعد بھی کیفیت یہ تھی کہ دال حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی۔ پھر یہ بھی انکشاف ہوا کہ مولانا نے ایک شادی ایران بھی کی تھی اور اس سے ایک بیٹی بھی تھی۔ ان کی ایرانی بیوی کا نام فاطمہ تھا اور اس سے بیٹی کا نام سمیرا تھا۔ پہلے ایک بیوی سے اولاد کو پاکستان میں چھوڑ کر بھاگے اور پھر ایک اور بیوی سے اولاد کو ایران میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

[امروز 6 اگست 1988، امروز یکم اگست 1988، مرکز 8 اگست 1988، نوائے وقت یکم اگست 1988 ]

کچھ دنوں بعد مولانا اسلم قریشی [جو اب شہید نہیں رہے تھے ] رہا کر دیے گئے تھے۔ ان پر جو داغ لگ چکا تھا اس کو دھونے کے لئے انہوں ایک مرتبہ پھر چھری کا سہارا لیا۔ اور ایک احمدی وکیل پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ یہ حملہ بھی ناکام ہوا۔ پاکستان میں بعض شہریوں کو سات خون معاف ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا کیا ناٹک کر کے ملک کو تقسیم کیا گیا۔ نفرت کو ہوا دی گئی۔ اور ضیاء صاحب نے گیارہ سال قوم کو جبر و استبداد کے پنجے میں گرفتار رکھ کر اپنے نوے دن پورے کیے ۔ جہاں تک ممکن تھا میں نے مولانا اسلم قریشی صاحب کے سیرت و سوانح مرتب کر دیے ہیں۔ جب اسلم قریشی صاحب نے ایم ایم احمد پر قاتلانہ حملہ کیا تو راجہ ظفر الحق صاحب نے ان کا مفت مقدمہ لڑا تھا۔ راجہ صاحب جنرل ضیاء صاحب کے وزیر اطلاعات رہے اور اب مسلم لیگ نون کے شامل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ تفاصیل ان کے علم میں ہوں اور وہ اس موضوع پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments