پائے کوب: بھارت، چین اور امریکہ


امریکہ کا رخ ایشیا کی طرف موڑنے کا ایک سبب چین بھی ہے، اس کی اشتراکی قیادت نے امریکہ کو چین سے بے دخل کیا، پھر روس کی مدد سے اور بعد میں روس کی مدد کے باوجود بلکہ مخالفت کے علی الرغم، اس نے ایسی ترقی کرلی کہ وہ عالمی طاقت بن گیا، امریکہ یہ بالکل گورا نہیں کر سکتا تھا اور پھر اس نے ہر جتن کر کے چین کا راستہ روکنا شروع کر دیا، اس کے راستے گو کہ کٹھن تھے مگر وہ اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے۔ امریکہ کا استعمار نئے روپ میں ظاہر ہوا، آئینے کے ایک ٹکڑے میں پورے تاج محل کا عکس دیکھ کر وہ مصر ہے کہ تاج محل وہ عظیم الشان عمارت نہیں بلکہ آئینے کا حقیر ٹکڑا ہے۔ بحرالکاہل میں اس کے جگہ جگہ اڈے موجود ہیں۔ یہ عالمگیر نام نہاد دفاعی تیاریاں ساری کی ساری چین کے خلاف ہیں، چین سے بے دخل ہوکے امریکہ کے پندار کا خم کدہ کچھ ایسا ویران ہوا کہ وہ اب تک طواف کوئے ملامت سے باز نہیں آ سکا۔

اس طواف نے کوریا کا راستہ بھی تلاش کیا، ویت نام اور اس کے گرد و نواح میں بھی امریکہ کو چین دکھائی دیتا تھا، حالاں کہ وہاں چین کا ایک بھی سپاہی نہیں تھا، اس کے برعکس جگہ جگہ امریکہ نے اپنے فوجی اڈے قائم کر دیے۔ ویت نام کے اندر ایک تحریک ابھری تھی، یہ تحریک اپنے ملک کی تشکیل نو کرنا چاہتی تھی، ہزاروں میل دور بیٹھا امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ ویت نام میں برسراقتدار وہ طبقہ آئے جو نظریے کے اعتبار سے اشتراکی ہے یا جسے امریکہ اشتراکی سمجھتا ہے۔ امریکہ کو یہ حق تو ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے نظام کو پسند یا ناپسند کرے لیکن اپنا لاؤ لشکر لے کر اس ملک میں پہنچ جانا اور لڑنا شروع کرنا، کسی بھی آزاد ملک کے خلاف امریکہ کی مداخلت کا انجام وہی ہوتا آیا ہے جیسے ویت نام یا افغانستان کے خلاف برسوں برس کی لاحاصل جنگ کا ہوا۔

امریکہ کی اپنی ایک فلاسفی ہے کہ جب تک میرا کہنا نہیں مانو گے، یا جیسا میں کہتا ہوں ویسا نہیں کرو گے تو تمہارے ملک کے خلاف لڑوں گا۔ یہ بڑا سنگین بین الاقوامی مسئلہ ہے اور یہ پیدا بھی اسی لیے ہوا کیونکہ امریکہ خوفناک جنگی طاقت ہے۔ چین اور روس کا رویہ بالکل امریکہ کے الٹ ہے، وہ حکومتوں کی مدد کرتے ہیں اس لیے جس ملک کی وہ مدد کرتے ہیں، اس کی ہمدردیاں حاصل کرلیتے ہیں بلکہ وہ مدد نہ بھی کریں تو امریکہ کا رویہ اتنا اشتعال انگیز اور قومی خودی کے منافی ہے کہ وہ جس ملک کا رخ کرتا ہے، وہاں کی رائے عامہ اس کے خلاف ہوتی چلی جاتی ہے۔

جو سہارے وہ ملک کے اندر ازرہ بے خردی قائم کرتا ہے وہ کرم خوردہ لاٹھی کی طرح جواب دیتے جاتے ہیں۔ کوریا میں ڈاکٹر سنگمین ری نے امریکہ کا ساتھ دیا تو وہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے اور ملک سے جلا وطن ہونا پڑا۔ چین میں چیانگ کائی شیک جیسا سرکردہ سربراہ حکومت امریکہ کی پشت پناہی کی بنا ء پر بے وقار و بے آبرو ہو کر چین سے بھاگ نکلنے پر مجبور ہوا۔ ویت نام میں حکومتیں ریت کے گھروندوں کی طرح بنتی اور بگڑتی رہیں۔ افغانستان میں کٹھ پتلی حکومتیں بنائیں، امریکی سنگینوں کے سہارے بے جان لاشے کھڑے تو ہو جاتے لیکن انہی کے زور سے گر بھی جاتے۔

بھارت نے چین سے جنگ کی طرح ڈالی، اس تصادم کا آغاز ہوا ہی تھا کہ امریکہ یوں بھارت میں آن موجود ہوا جیسے بھارت اس کا اپنا علاقہ اور چین اس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ بھارت میں ہر طرح کا جنگی سامان بے دریغ پہنچایا، بھارت کو امریکہ کے عالمی جنگی اڈوں سے اس طرح ملا دیا گیا کہ اسے ہر طرح کی امداد پہنچانے میں مشکل نہ ہو، امریکہ نے بھارت سے کلکتہ میں ایک طاقت ور ٹرانسمیٹر نصب کرنے کا معاہدہ بھی کیا کہ اپنا پراپیگنڈا نشر کیا کرے گا، لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد اس لیے نہ ہوسکا کیونکہ اندرون و بیرون بھارت مخالفت بڑی شدت اختیار کر گئی تھی، بھارت نے امریکہ کی کمزور رگ دیکھ لی تھی، اس نے چین کا نام لے لے کر اور اس کا ہوا کھڑا کر کے امریکہ سے ہر طرح کی مراعات بے دریغ لینے لگا۔

بھارت یہ سمجھتا آیا ہے کہ روس اور امریکہ میں امداد کا مقابلہ پیدا کر کے وہ زبردست فوجی طاقت بن جائے گا اور اس کے ہمسائے اس کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ بھارت اس کا آلہ کار اور بھارت اپنے عمل سے ثابت کرتا رہا کہ امریکہ اس کا آلہ کار ہے، کون کس کا آلہ ٔ کار ہے اس کا فیصلہ مشکل نہیں۔ تاہم اس عمل سے امریکہ کے راستے میں اور مشکلات پیدا ہونا شروع ہو گئی، بھارت کے ہمسائے امریکی عزائم سے متوحش تو تھے ہی، وہ بھارتی عزائم کو برائی العین دیکھنے لگے۔

امریکہ یوں تو بین الاقوامی میدان میں کھل کر جنگ عظیم کے دھماکے سے آیا لیکن برطانیہ نے بھی اسے گھسیٹ لانے میں بڑے جتن کیے ، دو جنگوں میں برطانیہ کا بھلا اسی میں تھا کہ اسے امریکہ کا ساتھ میسر آ جاتا، چنانچہ اس کے لیے اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے اور اس کی مراد بر آئی۔ جنگ کے بعد بھی برطانیہ کا مفاد امریکی تعاون کا متقاضی رہا اور ہے، دوسری جنگ نے برطانیہ کو پہلے کی طرح صف اول کی طاقت نہیں رہنے دیا تھا اور اوپر سے اس کی سلطنت ختم ہو جانے سے اس کی عالمی حیثیت کو اور بھی دھکا لگا لیکن اس کی استعماری رسی کا بل جل جانے کے باوجود نہیں گیا،

اس نے اپنا بل بھی برقرار رکھا اور امریکہ کی رسی میں بھی ویسے ہی بل ڈال دیے، اس وقت استعماری تجربہ امریکہ کو نہیں تھا، اس کمی کو انگریز نے پورا کیا۔ شعلہ استعمار کو بھڑکانے میں ان عناصر نے ایندھن کا کام دیا جو امریکہ کی مختصر سی تاریخ نے اس کی نہاد میں پوشیدہ کر دیے تھے۔ نسلی برتری، امتیاز رنگ اور اقدار فراموشی کے ملے جلے احساسات نے امریکہ کو استعماری کردار کے لیے خاصا تیار کر دیا۔ برطانیہ کی ضرورت مندانہ انگیخت نے ان احساسات کو ایسی ہوا دی کہ آزادی کی نیلم پری دیو استبداد بن کر کرہ ٔ ارض پر پائے کوب ہو گئی۔ یہ دیو اب دنیا کے سارے سمندروں کے سینوں پر ناچ رہا ہے، ناچے جا رہا ہے اور دنیا حیران کہ اس ’کا بوس‘ کا بالآخر کیا بنے گا۔

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments