آئی ایم ایف قرض پروگرام کی ممکنہ بحالی؛ کیا معاشی بحران حل ہونے کی امید ہے؟


فائل فوٹو
کراچی — عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کئی ہفتوں کے مسلسل مذاکرات اور پھر حکومت کی بجٹ میں کئی بار تبدیلیوں کے بعد پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی بحالی پر نیم رضامندی ظاہر کی ہے۔آئی ایم ایف کی اس رضامندی کے بعد قرض کی ساتوں اور آٹھویں قسط کے لیے پاکستان کو میمورینڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز بھیج دیا گیا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھیجے گئے میمورینڈم پر اگر پاکستان نے بھی اتفاق کر لیا تو اسلام آباد کو ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز کےقرض کی قسط ملنے کی راہ ہم وار ہو جائے گی۔ یہ قرض چین کی جانب سے دو ارب 30 کروڑ ڈالرز کے قرض کو رول اوور کرنے کے پاکستان کے کم ہوتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں دوسرا بڑا اضافہ ہوسکتا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ میمورینڈم میں حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے طے کردہ شرائط، ہدایات، عملی نکات، اہداف اور دورانیہ وغیرہ دیا جاتا ہے اور اس پر دونوں فریقین کے اتفاق رائے کے بعد حکومت کا قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہوجائے گا، جس کے بعد اس کی منظوری آئی ایم ایف بورڈ سے لی جائے گی۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ جولائی کے آخر تک یہ رقم پاکستان کو مل سکتی ہے۔

حکومت کو اور کیا کرنا ہوگا؟

کئی ماہرینِ معیشت کے بقول ابھی مشکلات اور بھی باقی ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق حکومت کو پہلے ہی مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے جہاں تیل اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنی پڑی۔ وہیں بجٹ میں پرسنل انکم ٹیکس پر کم آمدنی والوں کو دی جانے والی چھوٹ کا نہ صرف خاتمہ کرنا پڑا بلکہ ان پر زیادہ ٹیکس عائد کرنا پڑا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لیٹر لیوی ٹیکس عائد کرنے کی حامی بھرنی پڑی جب کہ ٹیکس کی وصولیوں کا ہدف سات ہزار 472 ارب روپے کرنا پڑا۔

اسی طرح مزید ریونیو حاصل کرنے کے لیے امیر طبقے اور اداروں پر غربت ٹیکس کا نفاذ عمل میں لانا پڑا جب کہ 13 شعبوں میں منافعے پر ایک سال کے لیے سُپر ٹیکس نافذ کیا گیا۔

ابھی اس بجٹ کو قومی اسمبلی سے منظور کرانے اور پھر صدر مملکت کی جانب سے اس پر دستخط کرنے کے مراحل باقی ہیں۔ صدر مملکت پہلے ہی موجودہ حکومت کی جانب سے بھیجے گئے بلز پر قدغنیں لگاچکے ہیں۔ اگر یہی عمل فنانس بل کے ساتھ بھی ہوا تو اس میں مزید کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔

’یہ عارضی ریلیف ہی ثابت ہوسکتا ہے‘

ماہر معیشت اور شجر کیپٹل کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ریحان عتیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے میمورینڈم کو اہم پش رفت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے معاشی بحران کسی حد تک کم تو ہوگا لیکن یہ عارضی ریلیف ہی ثابت ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی چوں کہ کوشش ہے کہ وہ موجودہ قرض پروگرام کو مزید توسیع دلائے اس کے لیے پاکستان کو طے شدہ اہداف حاصل کرنا ضروری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مزید قرض کا حصول ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان نظر آتا ہے۔آئی ایم ایف کی رائے یہ ہے کہ پہلے بھی پاکستان نے وعدے کیے، قرض حاصل کیا اور پھر ان اہداف کو پورا کرنے کے بجائے بھاری سبسڈی دے دی گئی، جس سے مالیاتی اہداف کا حصول نہ ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ مالیاتی فنڈ سے معاہدہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ ریاست سے ہوتا ہے اور پروگرام میں آنے کے بعد وعدے توڑنا تعلقات کو بے حد نقصان پہنچاتا ہے۔

ریحان عتیق کے مطابق یہی وجہ ہے کہ دیگر مالیاتی ادارے بھی آئی ایم ایف سے پاکستان کی ڈیل کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے بغیر وہ بھی فنڈنگ کرنے کو تیار نظر نہیں آتے جب کہ حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے، ابھی اس کی منظوری کے مراحل باقی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ مضبوط حکومت ہو اور پالیسیوں میں تسلسل نظر آئے جب کہ آنے والے ایک سال میں بھی حالات یونہی نظر آتے ہوں۔

معاشی بحران میں سخت فیصلے اور پھر تسلسل درکار

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش معاشی بحران میں سخت فیصلے اور پھر ان میں تسلسل درکار ہے جب کہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کو قلیل مدتی پالیسیوں کے ساتھ طویل المدت پالیسیاں بناکر ان پر عمل درآمد ممکن بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ انفراسٹرکچر کو بہتر بناکر ملک میں بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ نجکاری کے ذریعے بھی پیسے حاصل کرنا ہوں گے۔ برآمدات کو بڑھانا ہوگا جب کہ اس کے ساتھ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے ترسیلات زر کو مزید بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔

اس دوران پاکستان کے فرانس کے ساتھ جی20 ڈیبٹ سروس سسپینشن انیشی ایٹیو (ڈی ایس ایس آئی) فریم ورک کے تحت 10 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے قرضوں کی معطلی کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے ہیں، جس سے اب یہ رقم ایک سال کی رعایتی مدت میں سالانہ قسطوں میں ادا کی جائے گی۔

پاکستان کی وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ جی20 فریم ورک کے تحت پاکستان قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے 21 دوطرفہ قرض دہندگان کے ساتھ 93 معاہدوں پر دستخط کر چکا ہے، جس سے مجموعی طور پر تین ارب 25 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی میں رعایت حاصل ہوئی ہے۔

معاشی ماہرین اور حکومت پاکستان کا بھی کہنا ہے کہ ملک کو آئندہ مالی سال میں بین الاقوامی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی سمیت دیگر بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے تقریبا 41 ارب ڈالرز کی رقم درکار ہے۔

’پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے‘

ادھر وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی مالیاتی ادارے سے دو ارب ڈالر حاصل کرے گا تاہم ہماری حتمی منزل خود انحصاری کا حصول ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آزادانہ سیاسی اور معاشی فیصلے کرنے کی یہ واحد ضمانت ہے۔

دوسری جانب وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ پاکستان کو اب دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں ملک کے بنیادی بجٹ خسارہ 1600 ارب روپے کو آئندہ مالی سال میں نہ صرف ختم کیا جائے گا بلکہ اسے 125 ارب روپے سرپلس میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت کوشاں ہے۔

ایک تقریب سے خطاب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ملکی معیشت کو درست راستے پر گامزن کرنے کے لیے ہر پاکستانی کو ٹیکس دینا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے معیشت کے استحکام کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں اور وہ اس سلسلے میں مزید فیصلوں سے بھی گریز نہیں کرے گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments