پاکستانی مزاح کو ایکسپورٹ کریں


پہلا تعارف:کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک مزاحیہ ویڈیو میری نظر سے گزری، وہ ویڈیو ایک خاتون نے بنائی تھی جس میں وہ ڈاکٹر بن کر خواتین کو مشورے دیتی ہے اور پھر مریض عورتوں کا روپ دھار کر ان کی نقالی بھی کرتی ہے، ان میں شرمیلی کنواری لڑکی سے لے کر دیہات کی بے باک عورت تک سب شامل تھیں۔ وہ ویڈیو کلپ جراثیم کی طرح پھیلا، گویا بہت وائرل ہوا۔ اس کلپ میں ہمارے سماجی رویوں کی شاندار عکاسی کی گئی اور دکھایا گیا کہ مختلف طبقے کی عورتیں ایک لیڈی ڈاکٹر کے سامنے اپنے زنانہ امراض کو کس طرح خود ساختہ ’کوڈ ورڈز‘ میں بیان کرتی ہیں۔

پہلے تو لیڈی ڈاکٹر کو ان کے تخلیق کردہ کوڈ ورڈز کی سمجھ ہی نہیں آتی اور جب سمجھ آتی ہے تو وہ کیا جواب دیتی ہے، یہ سچوایشن دیکھنے کے لائق ہے۔ یہ کلپ ایک ہی خاتون نے بنایا، اسی نے تمام کردار نبھائے، مکالمے لکھے اور ایڈیٹنگ کر کے سوشل میڈیا پر ڈال دیا، خاتون کی گفتگو کرنے کا انداز اور پنچ لائنز اس قدر شاندار ہیں کہ ہر جملے پر قہقہے لگانے کو دل کرتا ہے۔ اس خاتون کا نام تمکنت ہے اور یہ حقیقی زندگی میں بھی ایک ڈاکٹر ہی ہیں۔ ان کی حس مزاح کے بارے میں مزید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں، آپ یوں سمجھیں کہ یہ چلتی پھرتی مزاح نگار ہیں اور ایسی بے باک گفتگو کرتی ہیں کہ مجھ ایسا بندے کے کان بھی سرخ ہو جاتے ہیں۔

دوسرا تعارف: علی آفتاب سعید سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ جیو کے پروگرام چوراہا کے ہدایتکار تھے، ٹی وی پر میری رونمائی بھی اسی پروگرام کے ذریعے ہوئی تھی، علی آفتاب اس وقت بھی ایک مختلف لڑکا اور آج بھی بالکل اپنے مزاج کا نوجوان ہے، علی کی بنیادی وجہ شہرت گلوکاری ہے، پہلے اس کا گانا ’آلو انڈے‘ مشہور ہوا اور پھر ’یہ قوم بڑی جذباتی ہے‘ نے مقبولیت حاصل کی۔ علی کے گانے روایتی نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ ان میں ایک خاص باغیانہ پن ہوتا ہے، ان گانوں میں علی ایسے سوال اٹھاتا ہے جو بندہ عام گفتگو میں بھی نہیں کر پاتا۔

علی کو اس باغیانہ پن کی قیمت چکانی پڑی ہے، کوک سٹوڈیو جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں علی آفتاب اپنے پروگرام میں نہیں بلاتیں، تاہم علی آفتاب پروا نہیں کرتا، اس نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ مزاح میں بھی ہاتھ ڈالا ہوا ہے اور طنز و مزاح پر مبنی وی لاگ بناتا ہے، اس کا ایک وی لاگ تو ایسا ہے جو فیس بک پر پندرہ لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اب وہ باقاعدگی کے ساتھ سوشل میڈیا پر حالات حاضرہ پر طنزیہ تبصرہ کرتا ہے، اپنے یو ٹیوب چینل کے لیے مزاحیہ پروگرام کرتا ہے اور پچھلے کچھ عرصے میں بہت تیزی کے ساتھ نوجوانوں میں مقبول ہوا ہے۔ علی آفتاب کی شخصیت بھی بہت خوبصورت ہے، پاکستان میں اگر فلمیں بننی شروع ہو جائیں تو علی ان فلموں کے لیے ایک بنا بنایا ہیرو ہے۔

تیسرا تعارف: یہ نوجوان پیدا تو کراچی میں ہوا مگر پڑھائی لاہور میں کی، لمز سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کراچی واپس جا کر طنز و مزاح کے پروگرام کرنے شروع کر دیے، یہ نوجوان خود کو ’سٹینڈ اپ کامیڈین‘ بلکہ بھانڈ کہنے میں بھی نہیں ہچکچاتا، اخبارات میں طنزیہ کالم لکھتا ہے اور وہ بھی انگریزی میں، ان کالموں میں وہ ان موضوعات پر نشتر چلاتا ہے جن کے جواب میں یار لوگ تلوار نکال لیتے ہیں۔ اس نوجوان کا نام شہزاد غیاث شیخ ہے۔

ٹویٹر پر اکثر جب مجھے کسی شخص کی چہکاریں متواتر پسند آئیں تو میں اس کا تعاقب کرنا شروع کر دیتا ہوں، شہزاد غیاث کو بھی میں نے اس کی ٹویٹس کی وجہ سے ہی فالو کیا تھا، اس کی ٹویٹس ایسی ہوتی ہیں جیسے کوئی شخص چاقو سے گدگدی کر رہا ہو۔ میں نے شہزاد غیاث کے مزاحیہ پروگرام دیکھیں ہیں، خدا کو جان دینی ہے مجھے ہنسانا مردے میں جان ڈالنے کے مترادف ہے، مگر شہزاد کے جملوں پر میں قہقہے لگا کر ہنسا ہوں۔ اس نوجوان کا ہاتھ پاکستانی قوم کی نبض پر ہے اور بندہ چونکہ پڑھا لکھا ہے اس لیے اس کے جملے نہ صرف تخلیقی ہیں بلکہ ان میں معاشرے کے دوغلے معیارات پر بھرپور طنز بھی ہے اور یہی بات اسے باقی کامیڈینز سے ممتاز کرتی ہے۔

ان تین لوگوں کا تعارف کروانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ان تینوں سے میں میری ملاقات گزشتہ ہفتے آئی بی اے کراچی کے سینٹر فار ایکسیلنس ان جرنلزم میں ہوئی جہاں کی ڈائریکٹر عنبر شمسی نے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ اس کانفرنس میں عنبر نے نہ صرف پاکستان کے ممتاز صحافیوں اور کالم نگاروں کو مدعو کر کے ان سے آزادی اظہار سے جڑی بندشوں اور پاکستان میں صحافت کے معیار پر رائے لی بلکہ سوشل میڈیا میں طنزو مزاح پر بھی ایک علیحدہ مجلس کا اہتمام کیا جس میں ان تین نوجوانوں کے ساتھ یہ خاکسار بھی مدعو تھا۔

عنبر شمسی اس کانفرنس پر مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے حامد میر سمیت پاکستان کے کئی جید صحافیوں کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا کر کے بٹھا دیا جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو ٹی وی پروگرام میں اکثر آپس میں جھگڑا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مزاح کے سیشن میں ان تین نوجوانوں کے ساتھ ڈان کے کالم شہزاد شرجیل بھی شامل تھے جنہوں نے کافی عالمانہ گفتگو کی۔ علی آفتاب نے البتہ ’یہ قوم بڑی جذباتی ہے‘ گا کر میلہ لوٹ لیا۔ شہزاد غیاث اور تمکنت سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور یہ میری دیانتدارانہ رائے ہے کہ ان تینوں کو اکٹھے مل کر طنزومزاح کا کوئی باقاعدہ پروگرام کرنا چاہیے۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں مزاح کے پروگراموں کی کمی ہے، یہ شاید واحد شعبہ ہے جس میں ہمارا ملک اس قدر خود کفیل ہے کہ اگر مزاح کو ایکسپورٹ کر کے زر مبادلہ کمایا جا سکتا تو آج پنجاب پاکستان کی سیلیکون ویلی ہوتا۔ سوشل میڈیا پر نا معلوم لوگ بھی حالات حاضرہ پر ایسی ایسی اعلیٰ جگت لگاتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اس قدر ٹیلنٹ کہاں چھپ کر بیٹھا ہے بلکہ کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ان شوقیہ اور گمنام مزاح نگاروں کا درجہ کسی طرح بھی ہمارے مستند مزاح نگاروں سے کم نہیں۔

تمکنت، علی آفتاب اور شہزاد غیاث میں یہ خاص بات ہے کہ یہ تینوں نہ صرف پڑھے لکھے ہیں بلکہ ان کا سوچنے سمجھنے کا انداز بھی مختلف ہے، انہیں اچھی طرح علم ہے کہ معاشرے میں نا انصافی، جبر اور ظلم کا ذمہ دار کون ہے اور کیسے اس پر طنز کے تیر چلانے ہیں، یہی نہیں بلکہ ’بولڈ‘ مزاحیہ جملے کہاں سنانے ہیں، کہاں رک جانا ہے اور کہاں سرحد عبور نہیں کرنی۔

جب کوئی معاشرہ تنزلی کا شکار ہوتا ہے تو ہر شعبے میں ہی زوال آتا ہے، پھر اس معاشرے میں ٹیلنٹڈ لوگوں کا بھی مول نہیں پڑتا۔ وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جہاں سے ہمارے سٹینڈ اپ کامیڈینز اب اچھا خاصا کما رہے ہیں لیکن یہ کمائی اب بھی بھارتی کامیڈینز کے مقابلے میں بہت کم ہے، کپل شرما اور امیت ٹنڈن نیٹ فلکس کے لیے پروگرام کر رہے ہیں جبکہ ہمارے اداکار صرف سٹیج یا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام تک محدود ہیں۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ کوک سٹوڈیو کی طرز پر کوئی کمپنی سٹینڈ اپ کامیڈی کا پروگرام شروع کرے جس میں نہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو سامنے لایا جائے جو اردو اور انگریزی ملا کر مقامی اور بین الاقوامی ناظرین کے لیے نیٹ فلکس کے معیار کا شو بنا کر پیش کریں بلکہ سٹیج کے ان پڑھ مگر بے پناہ ٹیلنٹڈ اداکاروں کو بھی موقع دیا جائے جن کے سامنے دنیا کا بڑے سے بڑا کامیڈین بونا لگے گا۔ پاکستانی مزاح کو ایکسپورٹ کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے، اس میں کمپنی کا سودا بھی بک جائے گا اور گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہے گا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments