کیا پاکستان بھی کبھی کاوربار کیلئے موزوں ہوسکتا ہے؟


جب ہم موزوں کاروباری ماحول کی بات کر رہے ہیں تو ہمیں اس ماحول یا ایکو سسٹم کی نشاندہی کرنی ہوگی جو کسی بھی ملک کو کاروبار کے لیے موزوں یا سازگار ملک یا معیشت بناتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم ”بزنس ایکو سسٹم“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ 1930 کی دہائی میں، برطانوی ماہر نباتات آرتھر ٹینسلے نے ماحول میں موجود عوامل کا ایک دوسرے اور ان کے ماحول کے ساتھ تعامل کرنے والے جانداروں کی کمیونٹی کی وضاحت کے لیے ایکو سسٹم کی اصطلاح متعارف کروائی۔

کاروباری تجزیہ کار جیمز مور نے ماحولیاتی نظام کے اس حیاتیاتی تصور کو اپنے 1993 کے ہارورڈ بزنس ریویو آرٹیکل ”پریڈیٹرس اینڈ پرے : ایک نئی ایکولوجی آف کمپیٹیشن“ میں اپنایا، جس میں اس نے کامرس کی بڑھتی ہوئی باہم مربوط دنیا میں کام کرنے والی کمپنیوں کو اپنی بقا کے لیے ایک کمیونٹی سے متوازی کیا۔ مور نے تجویز پیش کی کہ کسی کمپنی کو کسی صنعت میں واحد فرم کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، بلکہ ایک کاروباری ماحولیاتی نظام کے رکن کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس کے شرکاء متعدد صنعتوں میں پھیلے ہوئے ہوں۔

اس کے بعد آنے والے محققین نے اس کے اوپر بہت زیادہ تحقیق کی اور مختلف قسم کے ماڈلز اور فریم ورک نکالنے کی کوششیں کیں۔ ان میں جو سب سے زیادہ مشہور شخصیت ہیں وہ ہے ایرک اسٹام (Eric Stam) ۔ اور اس کا جو 2015 اور 2018 کا ماڈل ہے وہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس نے یہ ماڈل اپنے ایک مضمون ”انٹرپرینیورئل ایکو سسٹمز اینڈ ریجنل پالیسی“ میں بیان کیا جو یورپی پلاننگ اسٹڈیز نامی تحقیقی جریدے میں شائع ہوا۔ اب ہم اس ماڈل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور پھر ہم یہ بھی سمجھ پائیں گے کہ پاکستان کن کن عوامل میں کمزور ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے کاروبار کے لئے ایک سازگار ماحول نہیں بن پاتا۔ اس ماڈل میں بہت سارے عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے اوپر ہم اگلے کچھ کالمز میں علیحدہ علیحدہ تحریر کریں گے۔

سب سے پہلا جو جزو ہے وہ ہے صحت مند مقابلہ۔ سب سے پہلے ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ صحت مند مقابلہ سے مراد کیا ہے۔ منصفانہ یا صحت مند مقابلہ کا مطلب ہے کہ تمام کمپنیوں کے پاس مقابلہ کرنے کا یکساں موقع ہے۔ کسی کو اضافی مراعات یا کوئی پابندی نہیں ہے۔ مارکیٹ کھلی ہے اور حکومت یا سرکاری ادارے ریگولیٹری باڈی کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ کسی کی حمایت یا حوصلہ شکنی نہیں کر رہے ہیں۔

مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ دیکھنے میں تو پاکستان کی مارکیٹ ایک کھلی مارکیٹ کے طور پر نظر آتی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ اگر مثال کے طور پر پاکستان کے عسکری اداروں کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں جیسے ایف ڈبلیو او ہے کسی کاروباری مقابلے میں حصہ لیتی ہے تو وہ سب سے کم قیمت کے اوپر اس کام کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ مگر دوسری طرف کوئی پرائیویٹ کمپنی اس لاگت کے اوپر سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جو نیم سرکاری کمپنی ہے اس کی فکسڈ لاگت جیسے مشینری کی خرید و فروخت اور ملازمین کی تنخواہیں وغیرہ ہیں وہ گورنمنٹ کے سرکاری خزانے یا دوسرے الفاظ میں عوام کے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہیں۔

دوسری طرف پرائیویٹ کمپنی کو یہ کام خود سر انجام دینا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی فکسڈ لاگت اور ویری ایبل لاگت ملا کر لاگت کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ تب وہ پرائیویٹ کمپنیاں اس بزنس کمپٹیشن میں حصہ لینے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔ ظاہری طور پر تو اس سے کوئی نقصان نظر نہیں آتا۔ مگر تمام نقصانات کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے تمام پرائیویٹ کمپنیاں یا پرائیویٹ سیکٹر مقابلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتا اور اس وجہ سے وہ زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہی کام چائنیز کمپنیز پوری دنیا میں کر رہی ہیں اور دنیا کے کاروباری ماحول کو متاثر کر رہی ہیں جس کی وجہ سے باقی ماندہ دنیا کا پرائیویٹ سیکٹر زبوں حالی کا شکار ہے وہی کام ہمارے عسکری اداروں کے ویلفیئر ٹرسٹ کر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ مارکیٹ میں تو پرائیویٹ کمپنی کے طور پر داخل ہوتی ہیں لیکن اس کی پشت پناہی ایک حکومت کر رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی بنیادی لاگت بہت کم ہوتی ہے باقی دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں وہ تمام پروجیکٹس کم آفر دے کر لے جاتی ہیں۔

جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر آہستہ آہستہ اس ملک میں ڈوبنا شروع ہو گیا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں بزنس اور پرائیویٹ سیکٹر زوال کا شکار ہیں۔ ایک طرف ملک میں افراط زر ہے جس کی وجہ سے پیداوار کی لاگت میں کافی اضافہ نظر آ رہا ہے تو دوسری طرف مارکیٹ میں منصفانہ مقابلہ بھی رائج نہیں ہے۔ تو مجبوراً پرائیویٹ سیکٹر اور بزنسز پاکستان سے دوسرے ممالک میں اپنا بزنس منتقل رہے ہیں۔

اس سے اگلے کالم میں ہم دوسرے عامل یعنی بنیادی اداروں کے اوپر گفتگو کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments