سندھ میں دھاندلی زدہ، خونی بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ


سندھ میں پہلے مرحلے میں انتخابات کو پی پی مخالف جماعتوں نے مسترد کرتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور سندھ میں حکومت کے خلاف بڑی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن اور ایس ایس پیز، ڈپٹی کمشنرز آفسز کے سامنے دھرنے دیے جا رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام کا اصل مقصد نچلی سطح پر عوام کو اختیارات منتقل کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس کے الٹ ہے۔ بلدیاتی حکومت کا کام شہروں میں صفائی ستھرائی، پینے کے پانی کی فراہمی، نکاسی آب، ڈرینیج سسٹم بہتر کرنا۔

پارک بنانا، گلیاں راستے تعمیر کرنا، شہروں کی خوبصورتی گرینری اور دیگر نچلی سطح کے کام شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں ساری توجہ ماہانہ ملنے والی بجٹ اڑانے پر ہوتی ہے۔ ایم این ایز، ایم پی ایز بجٹ کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ منتخب نمائندوں کی این او سی کی وجہ سے کسی افسر کو پوسٹنگ نہی ملتی ہے۔ سندھ کے شہروں کی حالت تباہ شدہ ۾، کراچی سے لے کر کشمور ۾، سکھر، لاڑکانہ، حیدرآباد نوابشاہ سب شہر موہن جو دوڑ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

شہروں میں صفائی ستھرائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جو شہر دریائے سندھ کے کنارے آباد ہیں وہاں پر صاف پینے کے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ سندھ میں پہلے مرحلے میں 26 جون کو بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، 4 ڈویژن سکھر، لاڑکانہ، شہید بے نظیر آباد اور میرپور خاص پر مشتمل 14 اضلاع میں خونی الیکشن ہوئی ہے۔ دوسر مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد سمیت 16 اضلاع میں 26 جولائی کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

پہلے مرحلے میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے جس طرح کے انتخابات لڑے ہیں ماضی میں کراچی میں ایم کیو ایم کی یاد تازہ کردی گئی ہے۔ سندھ میں 15 سالوں سے پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہے، الیکشن کمیشن، پولیس، رینجرز، آر اوز، ڈی آر اوز، سرکاری مشینری اور بے تحاشا پیسے کا استعمال کیا گیا۔ رورل پولنگ اسٹیشن پر پولیس الیکشن کمیشن کی مدد سے ٹھپے لگائے گئے، ووٹرز کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی نہ ماننے پر لاٹھی گولی مار دھاڑ کا استعمال ہوا۔

سکھر اور ٹنڈو آدم میں دو افراد قتل ہوئے اور مجموعی طور پر 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ آپ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح مسلح افراد فائرنگ کر رہے ہیں، پریزائیڈنگ افسران پولنگ عملے پر تشدد کر رہے ہیں اور ٹھپے لگا رہے ہیں۔ پولیس یہ کردار تھا کہ وہ پی پی مخالفین کو گرفتار کرنے اے ٹی سی کے مقدمات درج کرنے تک محدود تھی۔ اپوزیشن جماعتوں جے یو آئی کے راشد محمود سومرو، مہر گروپ کے سردار علی گوہر مہر، جی ڈی اے کے سیکرٹری صفدر عباسی، ایس یو پی کے زین شاہ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں نے سندھ میں پہلے مرحلے میں انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے فوری طور پر دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جے یو آئی کی جماعت، جی ڈی اے اور مہر گروپ نے 28 جون 14 اضلاع میں الیکشن کمیشن آفسز کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور 29 جون کو تمام اضلاع میں ایس ایس پیز آفسز کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور دھرنے دیے گئے ہیں۔ جبکہ گھوٹکی اور دیگر اضلاع میں ڈپٹی کمشنر آفس کے باہر بھی احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔ وفاق میں حکومتی اتحادی جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل راشد محمود سومرو نے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ گھوٹکی سے کراچی وزیر اعلیٰ ہاؤس مارچ کرنے دھرنے دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

سندھ میں پی پی مخالفین بلدیاتی انتخابات قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جمہوریت کی دعوے دار حکمران جماعت نے جہا‍ں جھرلو الیکشن کرانے خود کو ایکسپوز کر دیا ہے وہیں پر پی پی مخالفین کو متحد ہونے کے لئے موقعہ/جواز بھی فراہم کیا ہے۔ راشد محمود سومرو نے اپنی جماعت جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان اور وزیر اعظم شہباز شریف سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی زیادتی دھاندلی نتائج تبدیل کرنے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت میں راشد محمود سومرو پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک چلا کر دراڑ ڈالیں گے۔ راشد محمود سومرو کے پاس سندھ میں اسٹریٹ پاور ہے۔ عمران خان کے خلاف تحریک میں جو سندھ کا کردار تھا وہ راشد محمود سومرو کا تھا۔ راشد محمود سومرو کے ساتھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، مہر گروپ کے سردار علی گوہر مہر، قومی عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو، لاڑکانہ عوامی اتحاد میں شامل جماعتیں مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف پریشر گروپ کی صورت بن سکتی ہیں۔

دیکھا جائے تو سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی سندھ راشد محمود سومرو کی جماعت 290 سے زائد نشستیں لے کر دوسرے نمبر پر آئی ہے، جی ڈی اے تیسرے، پی ٹی آئی چوتھے، آزاد پانچویں اور ایم کیو ایم 6 نمبر پر آئی ہے۔ نتائج کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کامیاب ہو گئی ہے۔ جے یو آئی نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مختلف حلقوں اور ٹاؤن پر اتحاد کر رکھا تھا۔ راشد محمود سومرو کے مطابق سکھر کے سابق میئر ارسلان شیخ، اس کی بیوی انعم ارسلان، سابق ڈپٹی میئر طارق چوہان، خورشید شاہ کے بیٹے زیرک شاہ، منظور وسان کے امیدواروں کو جے یو آئی نے بلامقابلہ کامیاب کرایا ہے۔

شکارپور میں چک کی ٹاؤن کمیٹی پیپلز پارٹی کے ایاز مہر نے جے یو آئی کے ساتھ مل کر جیتی ہے۔ جے یو آئی کی جانب سے اتنا تعاون کرنے کے باوجود بھی ان کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے من پسند حلقہ بندیاں کی گئی، من پسند آر اوز منعقد کرائے گئے۔ مخالفین کے نامزدگی فارم مسترد کرائے گئے۔ پولیس کے ذریعے امیدواروں کو ہراساں کیا گیا، گرفتاریاں ہوئی یہاں تک کہ مخالف امیدواروں کی خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کے باوجود 15 سالوں سے سندھ میں مسلسل اقتدار اور پولیس، سرکاری مشینری، رینجرز اور بے تحاشا پیسے کا استعمال کرنے پولنگ پر ٹھپے لگانے نتائج تبدیل کرنے کے باوجود حکمران جماعت 50 ٪فیصد لینے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ پی پی مخالف جماعتوں کو یکجا کیا جائے تو ان کا ووٹ بھی 50 ٪ فیصد بنتا ہے۔ پہلے یہ سب کچھ کراچی میں ایم کیو ایم کیا کرتی تھی۔ دھونس، دھاندلی، فائرنگ، مار دھاڑ، ٹھپا بازی، اب ایم کیو ایم سے پیپلز پارٹی کے پاس منتقل ہو گئی ہے۔ پاکستان کے تین صوبوں کی نسبت سندھ میں اس دفعہ کچھ منفرد دیکھنے کو ملا۔

لگ ایسے رہا تھا کہ حکمران جماعت نہیں چا رہی تھی کہ کوئی مخالف امیدوار سامنے کھڑا ہو، کوئی امیدوار ووٹ مخالفین کو نا دے، اس حد تک آ گئے تھے کہ پولیس کے معرفت لوگوں کو فون پر دھمکیاں دی جا رہی تھی کہ پی پی کے کسی امیدواروں کو ووٹ نہی دینا ہے ورنہ مقدمات درج ہوں گے گھوٹکی میں مہر گروپ نے 33 یونین کونسل جیتی، ایک جے یو آئی اور 32 پیپلز پارٹی نے جیتی۔ اتنی دھاندلی مار دھاڑ کے باوجود سکھر کی ٹاؤن کمیٹی صالح پٹ میں 6 وارڈ سے دو پی پی نے جیتے 4 آزاد اور پی ٹی آئی والے جیت گئے۔

پنوعاقل میونسپل کمیٹی میں دو ہندو امیدوار کتاب کے نشان پر الیکشن جیت گئے۔ شہداد کوٹ، باڈھ، لکھی غلام شاھ، خانپور مھر، خانپور ٹاؤن کمیٹیوں میں پی پی مخالف جماعتوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ سندھ میں پہلے مرحلے میں انتخابات کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات میں ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں بائیکاٹ کرتی ہیں یا پی پی مخالف جماعتوں کا الائنس بنا کر کوئی تحریک شروع کی جاتی ہے۔ اگر تحریک شروع ہوتی ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ پی پی مخالف جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ملے گا اور پیپلز پارٹی جو خود جمہوریت کی دعوے دار جماعت ہے اس کو کافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

ابھی بھی وقت ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں جہاں جہاں نتائج تبدیل ہوئے ہیں وہاں پر دوبارہ پولنگ کرائے۔ جہاں قتل و غارت ہوئی ہے اور درجن درجن لوگ فائرنگ سے زخمی ہوئے ہیں وہاں پر دوبارہ الیکشن کرائی جائیں۔ نہی تو آگے چل کر عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اس طرح انتخابات میں ہو سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو الیکشن اصلاحات اور الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر انتخابات کرانے کا عمران خان کا بیانیہ موقف بالکل درست ہے۔ یہاں تو بیگ بھر بھر کر ٹھپے لگائے جا رہے ہیں دعا ہے کہ دوسرے مرحلے کے انتخابات پرامن صاف شفاف ہو سکیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments