بوسنیا کی چشم دید کہانی۔۔۔ چوتھی قسط


سٹولک کی سمت رواں ہماری گاڑی چھوٹے چھوٹے قصبوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ایک بڑے قصبے کونئیک پہنچی۔ یہاں سے ہرزیگووینا کا ریجن شروع ہوتا تھا۔ جیکوبا کے پہاڑی سلسلے سے پھوٹنے والے ان گنت چشمے جب اس قصبے میں پہنچتے ہیں تو لذت وصل سے آشنا ہو کر دریائے نرٹوا کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ دریا دو سو بیس کوس کی مسافت طے کرتے ہوئے یبلانیسہ، موسطار، چپلینا اور مٹکووچ نامی شہروں سے گزرتے ہوئے ایڈریاٹک میں گم ہو جاتا ہے۔

کونئیک سے ہم آگے بڑھے تو نرٹوا اب ہمارا ہمسفر تھا۔ یبلانیسا تک اس کا پاٹ وسیع ہوتا گیا اور پھر یہ سکڑنا شروع ہوا۔ راستے میں ایسے گاؤں بھی آئے جن میں موجود مساجد کے ابھرتے مینار یہ گواہی دے رہے تھے کہ یہ مسلمان اکثریتی آبادیاں ہیں۔ ایک طرف دریا اور دوسری طرف سرسبز درختوں سے ڈھکی پہاڑیاں، ہر موڑ پر حسن بے حجاب ہمیں اپنے آپ میں کچھ یوں گم کرتا چلا گیا کہ سفر کی طوالت کا احساس ہی نہ ہوا۔ ہم ہرزے گووینا کے صدر مقام موسطار سے گزرتے ہوئے تقریباً ساڑھے تین گھنٹہ بعد میجی گوریا پہنچ گئے۔

یہاں سٹولک سٹیشن کا قیام عارضی طور پر عمل میں لایا گیا تھا۔ یہاں سے سٹولک کا فاصلہ لگ بھگ تیس کوس تھا۔ یہ قصبہ جنگ سے بری طرح متاثر ہوا تھا اور کوشش کے باوجود سٹیشن قائم کرنے کے لیے کوئی موذون عمارت نی مل پائی تھی۔ چنانچہ وقتی طور پر میجی گوریا میں ایک دفتر کرائے پہ لے لیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسی بڑی عمارت کا حصہ تھا جس میں مالک کا خاندان بھی آباد تھا اور یہاں رہائش کے لیے کرائے کے کمرے بھی دستیاب تھے۔ اقبال اور میں نے ایک کمرہ مشترکہ طور پر حاصل کر لیا۔

اگلے دن اس سٹیشن میں پہلے سے موجود افسران سے تعارف ہوا۔ کرس اور بولک کے علاوہ یہاں چار افسران عملے کا حصہ تھے۔ ان میں سے ٹامس اور ہنرک کا تعلق ڈنمارک سے جبکہ پریم اور شیوا کا تعلق نیپال سے تھا۔ وہ ہم زبان نکلے۔ ہندی اور اردو کا بھلا سا مرکب ان کی زبان تھی جو اس زبان سے کچھ ایسی مختلف نہ تھی جس کے بارے میں داغ نے یہ دعوٰی کیا تھا کہ۔

ع۔ ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔

دوسرے ساتھیوں کے لیے یہ بڑے اچنبھے کی بات تھی کہ پاکستان اور نیپال میں اتنی جغرافیائی دوری کے باوجود ایسی لسانی مماثلت پائی جاتی ہے۔

شیوا اور پریم دونوں سب انسپکٹر کے عہدے کے افسر تھے۔ پریم بظاہر سادہ مگر ہوشیار بندہ تھا۔ نوکری بڑے محتاط انداز سے کرتا تھا اور فارغ وقت گھر پہ ہی گزارنے کو ترجیح دیتا تھا۔ اس کے مقابلے میں شیوا کا معاملہ۔

ع۔ ہم اور طرح کے ہیں جناب اور طرح کے۔ والا تھا۔

نشہ کے حوالے سے وہ چچا کے مکتبہ فکر کا پیروکار تھا، یعنی جب تک آنکھوں میں دم ہے ساغر و مینا سے دوری قابل قبول نہیں۔ اس کا نشہ جب عروج پر ہوتا تو وہ ایشیائیوں کے مقابلے میں گوروں کے نا اہل ہونے پہ تقریر جھاڑتا جس میں گوروں کی شان میں جنوبی ایشیا کی تمام کلاسیکی گالیاں بڑی فراخدلی سے شامل کی جاتیں۔ اس طرح کی تقریر کا آغاز ہمیشہ، یہ سالا لوگ آخر اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔ سے کیا جاتا۔ اگرچہ ابھی تک ہمیں جن گوروں سے واسطہ تھا وہ دوستانہ مزاج والے ساتھی تھے اور خدا لگتی کہی جائے تو اتنے ہی سادہ بھی تھے جتنا میر نے اپنے آپ کو عطار کے لونڈے والے شعر میں بیان کیا ہے۔

لیکن شیوا کسی گورے کے لیے رواداری کا قائل نہ تھا۔ چنانچہ اس تقریر کے لگے بندے ابتدائیہ کے بعد مضامین غیب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا جس کا اختتام تب ہوتا جب شیوا کی زبان نشے کے زیر اثر لڑکھڑانے لگتی۔ وہ ایسی تقریر کبھی بھی انگریزی میں نہیں جھاڑتا تھا جس پہ اقبال کہتا تھا کہ مدہوشی میں بھی ہوشمندی کا خیال کوئی ہندو ہی رکھ سکتا ہے۔ گائیکی بھی اس کا شوق تھا اور گلا بھی سریلا پایا تھا۔ وہ گیت کو اس کی اصل دھن میں کبھی بھی نہیں گاتا تھا۔ وہ دھن کے کسی حصے کو اپنی مرضی سے آہنگ نو دیتا جو اجنبی تو ضرور محسوس ہوتا لیکن ناگوار ہرگز نہیں۔ گھنگھرو ٹوٹ گئے اس کا پسندیدہ گیت تھا۔ وہ یہ گیت جب بھی گاتا بس سماں ہی باندھ دیتا۔ اس لمحے میں اکثر یہ سوچتا کہ خوشی کی وجدانی کیفیت کا یہ مضمون جس نے بھی باندھا، کیا خوب باندھا۔

پریم اور شیوا کے مقابلے میں ٹامس اور ہنرک بالکل مختلف طبیعتوں کے مالک تھے۔ ٹامس قدرے پکی عمر کا افسر تھا جبکہ ہنرک جوان اور غیر شادی شدہ۔ ان کی سب سے نمایاں قدر مشترک ان کی یکساں طور پر غیر سنجیدہ طبیعتیں تھیں۔ ٹامس کو اس بات پر بڑی حیرت تھی کہ نہ میں گاڑی چلا سکتا ہوں اور نہ مجھے کھانا پکانا آتا ہے۔ اس کی وجہ اگرچہ کچھ اور تھی لیکن میں نے ڈینگ ماری اور بولا۔ میں ایک افسر ہوں۔ ہمارے ہاں افسران کو ڈرائیور اور باورچی سرکاری طور پر مہیا کیے جاتے ہیں چنانچہ میرے لیے یہ سہولت یہاں بھی اقبال کی صورت میں موجود ہے۔

پاکستانی افسران کو حاصل سہولتوں کا جب ذکر چلا تو اس نے مجھ سے بالا عہدے کے افسران کو مہیا کی جانے والی سہولیات کے بارے میں استفسار کیا۔ میں جوں جوں عہدہ بہ عہدہ ان سہولیات کی تفصیل بیان کرتا گیا اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب بات آئی جی تک پہنچی تو اس نے ان معلومات کو قابل یقین ماننے سے مکمل انکار کر دیا اور سوال اٹھایا آخر اتنی سہولیات کس لیے ۔ میں نے کہا تمہیں کیا پتہ ہم تو اس قدر مزے میں ہونے کے باوجود بھی سرکار سے شاکی رہتے ہیں کہ یہ سہولیات ہمارے عہدے کے شایان شان نہیں۔

جس دن ہم سرائیوو سے سٹولک کے لیے روانہ تھے اسی دن ریجنل ہیڈکوارٹر نے ہمارے سٹیشن کے لیے چار خواتین ترجمان بھرتی کی تھیں۔ اس طرح سٹولک میں کار سرکار کی انجام دہی کا آغاز ہم نے اور ان ترجمان خواتین نے ایک ساتھ ہی کیا۔ ان کے اصل نام تو اس قدر طویل اور پیچیدہ تھے کہ ان کی ادائیگی کے لیے ش، ق کی درستگی بھی ناکافی تھی لیکن ان ناموں کے سہل ممتنع اختصاریے یاد رکھنا بہر حال نسبتاً کم کٹھن کام تھا۔ یہ اختصاریے سیکا، لیپا، لیجا اور سلاجہ تھے۔

ان چار خواتین کو بھرتی کرتے وقت اگر کسی امر کا خصوصی طور پر خیال رکھا گیا تھا تو وہ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی کسی پولیس افسر کے لیے اس کے فرائض منصبی سے توجہ ہٹانے کا کسی طور باعث نہ بن پائے۔ اقبال کو یقین تھا کہ ان کو منتخب کرنے والی ٹیم میں اگر کوئی دیسی افسر بھی ہوتا تو یہ اس طرح باجماعت ماٹھی ہر گز نہ ہوتیں۔

ہم آٹھ پولیس افسران میں کرس سٹیشن کمانڈر ہونے کے ناتے افسران بالا اور یو این کے دوسرے اداروں سے رابطہ رکھنے کا ذمہ دار تھا۔ ٹامس ڈپٹی سٹیشن کمانڈر تھا اور وہ سارا دن اپنی جولاں گاہ دفتر میں زیر چھت رکھنا ہی پسند کرتا تھا۔ ہنرک زیادہ تر اسی کے ارد گرد پایا جاتا تھا۔ بولک سٹیشن کا تفتیشی افسر تھا۔ وہ ہر صبح دفتر میں زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کے لیے نظر آتا تھا۔ اس کے بعد اگلی صبح ہی اس کا دیدار ہوتا تھا۔

اس کے پاس ایک خاکی رنگ کا پرانا سا بیگ تھا جسے وہ اپنی بغل میں بڑی احتیاط سے دبائے رکھتا تھا۔ اس بیگ کو دیکھ کر شہر یاراں راولپنڈی کے کچھ دوست یاد آ جاتے تھے جن سے دوستی کا رشتہ اب بھی قائم ہے اور یہ نصف صدی کا قصہ ہو چلا ہے۔ ایسا ہی نیم بوسیدہ بریف کیس کالج کے دنوں میں قیوم کے پاس ہوا کرتا تھا۔ اس کی حالت گواہی دیتی تھی کی اگر زیادہ نہیں تو یہ تین چار پیڑھیوں سے حضرت کے خاندان کے بزرگوں کا شریک سفر ہونے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔

اس بریف کیس کے بارے میں ایک دفعہ خلیل نے اسے کہا تھا کہ اگر تم اس کے ساتھ بیرون ملک جانے لگو تو مجھے یقین ہے کہ کسٹمز والے تجھے نوادرات پار کرنے کے جرم میں ضرور دھر لیں گے۔ پولینڈ کے کسٹمز حکام نوادرات کو پار کرنے کے حوالے سے پاکستان کسٹمز کی طرح اگر قومی ورثے کے وفادار ہوتے تو شاید بولک کے بیگ سے زیادہ انہیں بولک کو باہر بھیجے جانے پہ اعتراض ہوتا۔ خیر دل لگی والی بات اپنی جگہ یہ ایک حقیقت تھی کہ آئندہ ایک سال کیدوران سٹیشن کا عملہ تین درجن نفوس تک پہنچ گیا لیکن جو ہر دل عزیزی بولک کو آغاز سے حاصل تھی، اس اللہ لوک کو ویسی ہی بلا مقابلہ آخر تک حاصل رہی۔ اگرچہ اس نے ایسا دعویٰ بھی کبھی نہ کیا کہ

ع۔ ہم سا ہو تو سامنے آئے

سٹولک کی ٹیم ابھی تک چار گوروں اور چار بھورے افسران پر مشتمل تھی۔ ان افسران کا کام سٹولک میں شفٹوں میں گشت کرنا تھا۔ دوران گشت ہماری ذمہ داری کیا ہو گی اس بارے میں نہ تو سٹیشن کمانڈر اور نہ ہی کسی اور نے ہمیں بریف کرنا ضروری خیال کیا۔ روزانہ ایک گاڑی اور ایک فائل دے کر ہمیں گشت پہ روانہ کر دیا جاتا تھا۔ یہ فائل ہمارے علاقہ ذمہ داری یعنی سٹولک کے نقشے، گشت رپورٹ کے فارم اور ڈیٹن سمجھوتے کے باب 11 کی نقل پر مشتمل تھی۔ اس نقل کے مطالعہ سے جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کی ہم نے مقامی پولیس پر نظر رکھنی ہے کہ وہ بلاوجہ ناکے لگاتے ہوئے شہریوں کو نسلی بنیادوں پر تفریق کا نشانہ بنا کر ہراساں نہ کرے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض سے آگاہی اور علاقہ سے واقفیت بہتر ہوتی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments