شریف، زرداری، مولانا، اور جرنیل سب اس حمام میں ننگے ہیں


چند دن قبل وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے وزارت منصوبہ بندی کی تقریب ٹرن اراؤنڈ پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مفتاح اسماعیل نے صبح کو میسج بھجوایا، ہمیں اب آئی ایم ایف سے ایک ارب نہیں دو ارب ملیں گے۔ میں نے جواب دیا۔ ہماری اصل منزل خود انحصاری ہے۔

میں اپ کو یقین دلاتا ہوں جو 230 ارب روپے سپر ٹیکس سے آئیں گے وہ پیسہ ضائع نہیں ہو گا بلکہ ملک کی ترقی، معیشت اور خوشحالی کے لیے استعمال ہو گا۔ اتحادیوں کے تعاون سے ہماری حکومت وجود میں آئی ہے۔ ہمارے ہر فیصلے پر ان کی سپورٹ مہر ہے کہ ہم مشکل فیصلے کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہم اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ریکوڈیک میں اربوں کا خزانہ دفن ہے۔ جس سے ہم نے ابھی تک ایک دھیلا بھی نہیں کمایا، الٹا ہم نے اپنے اربوں مقدمات پر ضائع کر دیے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا پاکستان آج قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ میں آج اپ کے سامنے ایک پاکستانی کی حیثیت سے کھڑا ہوں۔ ہماری 73 سالہ تاریخ کی بیلنس شیٹ دیکھ لیں، ایسٹ اور لائبلٹی کتنی بنتی ہے۔ ہمارے ہمسائے ممالک دیکھیں کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ بنگلہ دیش کو دیکھ لیں، ایران کو دیکھ لیں۔ ایران کی حکومت نے ٹرانسمیشن لائن کو مکمل کر لیا اور ہم چھبیس کلومیٹر کی لائن نہیں بچھا سکے۔ ہم گوادر میں اسپتال اور ائرپورٹ تک نا بنا سکے۔ مجھے بتائیں اس کا جواب ہم کس سے تلاش کریں؟

وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں پچھلے پچھتر سالوں میں دعوے تو بہت کیے گئے، مگر عمل نہیں ہوئے۔ ہم نے اگر ذاتی مفاد نا چھوڑا تو سرکس میں گھومتے رہیں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی جذباتی باتیں سن کر بے دھیانی میں میرا ہاتھ ٹشو باکس کی طرف بڑھا، ٹشو پکڑا اور آنسو صاف کرنے کے لئے انکھیں صاف کرنے لگی، پھر احساس ہوا انکھوں میں آنسو ہی نہیں ہیں۔ لبوں نے سرزنش کی، بس کر پگلے اب رلائے گا کیا؟

وزیراعظم شہباز شریف اب عوام یہ جذباتی چورن، فلمی ڈائیلاگ سن کر مزید بے وقوف نہیں بن سکتے۔ کیونکہ پچھتر سالوں میں اپ کی پارٹی کی تین بار حکومتیں آئیں۔ اور پنجاب میں تو ہمیشہ سے ہی اپ کا راج رہا۔ دوسرے رہے اپ کے اتحادی پی پی پی والے وہ بھی تین بار پاکستان پر حکومت کر چکے اور سندھ تو جیسے ان کی صدیوں سے جاگیر ہے۔ ان کے علاوہ آج تک وہاں کوئی حکومت نہیں بنا سکا۔ باقی بچے کچھے اتحادی بھی ہمیشہ ہر حکومت کا حصہ رہے۔

باقی رہ گئے اپ سب سیاستدانوں اور اس وطن کے سب سے بڑے حصے دار اور اصلی مالک جنرلز، اپ سب مل کر اس ملک اور غلام عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قرضے لیتے رہے۔ لیکن وہ قرضے کہاں اور کن فلاح و بہبود میں لگے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ کیونکہ عوام تو پہلے بھی ہر سہولت سے محروم تھے اور آج بھی اسی محرومی میں جی رہے ہیں۔

آپ سب سیاستدان اس جمہوریت کے حسن کے سائے تلے ترقیاں کرتے رہے، ککھ پتی سے ارب پتی بنتے رہے، لیکن پاکستان ہر وہ شہری بھی مقروض ہوتا چلا گیا جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا۔

اپ سوال کرنے کا حق کھو چکے ہیں۔ اپ نے تو سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے پہلے کہا تھا ہم عوام کو اس مہنگائی کی سونامی سے بچانے آ رہے ہیں۔ پھر اپ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام کو مہنگائی کی سونامی میں ڈبو کیوں دیا؟ جو قرضے آپ لوگوں نے لئے وہ پاکستانی عوام کیوں چکائیں؟

یہ کیسی بدنما جمہوریت ہے جس میں صرف بھلا سیاستدانوں، صحافیوں اور جنرلز کا ہی ہوتا ہے؟ ویسے اس میں قصور بزدل عوام کا بھی ہے جو گدھوں کی طرح سر جھکائے بس جیے جا رہے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں یہی ان کا مقدر ہے۔ تبھی تو مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہمارے مہنگائی کرنے کے باوجود عوام باہر نہیں نکلے مطلب وہ ہمارے ساتھ ہیں۔

جس ملک میں سیاستدان اپنے فیصلے کرنے کا اختیار جنرلز کو دے دیں وہ خاک قوم کی قسمت بدلیں گے۔ جو خود طاقتور کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بنے بیٹھے ہوں۔ اپ سب مجرم ہیں اس قوم کے جو اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کو گرا کر، این آر او لے کر، ڈیل کر کے اقتدار میں آتے ہیں؟

وزیراعظم شہباز شریف صاحب اپ نے درست کہا اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں۔ اس حمام میں اپ ہی نہیں جنرلز بھی ننگے ہیں۔ اپ سب مجرم ہیں اس قوم کے، سب کو مسیحا بننے کا خبط سوار ہے۔ کوئی اپنے بڑے بڑے محل بنواتا ہے۔ کوئی اس پاکستان کو اپنی سلطنت سمجھ کر اپنے بچوں کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ اور کوئی بادشاہ بن کر سب سے منفرد نظر آ کر آمر ہونا چاہتا ہے۔

صدیوں پہلے ایک بادشاہ کو منفرد نظر آنے کا بھوت سوار ہو گیا۔ وہ روز مختلف قسم کے لباس زیب تن کرتا۔ اس رنگیلے بادشاہ کو انوکھے لباس پہننے کا ایسا خبط طاری ہوا، کہ اس نے منادی کروائی اور حکم جاری کیا کہ مجھے ایسا لباس چاہیے جو آج تک کسی نے نا پہنا ہو، نا وہ رنگ اور نا ہی وہ کپڑا اور نا ہی وہ ڈیزائن کسی نے پہنا ہو۔ جو بھی کہتا ایسا لباس دنیا میں ناممکن ہے۔ بادشاہ اس کا سر قلم کروا دیتا۔ سلطنت میں ایک درزی بچا، اس درزی نے سوچا میں نے انکار کیا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔

چند دنوں بعد درزی ایک صندوق کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ بولا حضور کا اقبال بلند ہو، لباس میں نے بنا لیا ہے مگر ایک شرط ہے اپ غسل کے بعد اکیلے میں زیب تن کریں، کیونکہ یہ لباس دنیا میں واحد ایسا لباس ہے جس کی خوبیاں بے شمار ہیں۔ یہ دنیا کے مہنگے اور نایاب دھاگے سے بنا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ یہ صرف عقلمند اور دوراندیش لوگوں کو ہی نظر آئے گا۔

بادشاہ نے بڑے جوش و خروش سے صندوق پکڑا اور کمرے میں جا کر جب صندوق کھولا، کیا دیکھا صندوق تو خالی ہے۔

بادشاہ کو درزی کی بات یاد آ گئی کہ یہ لباس صرف عقلمند اور دوراندیش ہی دیکھ سکتے ہیں۔ بادشاہ اپنی عزت بچانے کے لئے ننگا ہی ایک ہاتھ کمر پر رکھے دوسرا ہاتھ لباس کا پلو سنبھالنے کی اداکاری کرتا ہوا دربار میں آ گیا۔

خوشامدی درباری، وزیروں اور مشیروں نے اپنی جان بچانے کے لئے لباس کی تعریف میں زمین و آسمان کرنے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے لگے۔

شہر میں منادی کروا دی گئی کہ بادشاہ سلامت دنیا کا انوکھا لباس پہن کر اپنی سلطنت کا دورہ کریں گے۔ اور لباس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف عقلمندوں کو ہی نظر آتا ہے۔ اگلے دن عوام نے کیا دیکھا بادشاہ ننگا گھوڑے پر سوار سب کو ہاتھ ہلا رہا ہے۔ اور اردگرد چاپلوس اور خوشامدی وزیر مشیر واہ واہ کر رہے ہیں۔ عوام خوف کے عالم میں سب دیکھ تو رہے تھے لیکن بول کچھ نہیں رہے تھے کیونکہ جان سب کو عزیز تھی۔ پاس کھیلتے کچھ بچوں میں سے ایک بچے نے زور سے آواز لگائی

” ارے دیکھو! ہمارا بادشاہ ننگا ہے“

ایسا ہی کچھ آج کل پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ حکمران، سیاستدان شریف، زرداری، مولانا، چوہدری، فیض، راشد، باجوہ ننگے تو سب ہیں لیکن ایک دوسرے کو بتانے کی ہمت نہیں کر پا رہے۔ عوام کو مہنگائی کا لباس پہنا کر اپنی عقلمندی کے چرچے کر رہے ہیں۔

اپنی انا اور ایک دوسرے کی عداوت میں ادارے تباہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے آئین کو تماشا بنایا ہوا ہے۔ سب کو اپنی اپنی فکر ہے۔ ہمارا گھر سلامت رہے ہمارا سر سلامت رہے۔ پھر چاہے یہ ریاست تباہ ہی کیوں نا ہو جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments