وٹہ سٹہ: دلہن مبادلے کی ایک قسم


وٹہ سٹہ یعنی اشغار دلہن مبادلے کی ایک قسم ہے جو پاکستان اور افغانستان میں عام ہے۔ ہمارے ہاں معاشرہ میں شریعت سے ناواقفیت کی بنا پر بعض لوگ جاہلانہ رسم و رواج کو بایک عرصے سے تھامے ہوتے ہیں ان میں سے ایک رسم نکاح وٹہ سٹہ ہے جسے عربی زبان میں نکاح شغار بھی کہا جاتا ہے ۔ بلاشبہ یہ نکاح دور جاہلیت کی پیداوار ہے۔ نہ صرف اسلام میں بلکہ کسی بھی معاشرے میں اس کو پzیرائی حاصل نہیں۔ دین اسلام میں بھی نکاح وٹہ سٹہ کو پسند نہیں کیا گیا۔

وٹہ سٹہ یا شغار میں دو مختلف گھرانوں سے بیک وقت بھائی بہن جوڑی کی شادی میں ادلا بدلی ہوتی ہے۔ کچھ معاملوں میں رشتوں کی شادیاں جیسے چچا اور بھتیجی کی، ماموں بھانجی کی شادی بھی انجام پاتی ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کے رشتے عموماً بین الزمرہ شادیاں ہوتی ہیں، جس میں 75 % شادیاں خون کے رشتوں پر مبنی ہوتی ہیں، جبکہ 90 % وٹہ سٹہ کی شادیاں ایک ہی گاؤں یا قبیلے (ذات، برادری) میں ہوتی ہیں۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں وٹہ سٹہ شادیاں تقریباً 30 فی صد انجام پاتی ہیں۔ وٹہ سٹہ کی شادیاں خواتین کی ادلہ بدلی سے کہیں زیادہ خاندانوں اور قبیلوں کے بیچ دھمکی اور خوف کا ماحول پیدا کرتی ہیں۔ ایک شوہر جو اس شادی میں اپنی بیوی کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے وہ لازماً توقع کر سکتا ہے کہ اس کا بردار نسبتی بھی اسی طرح اس کی بہن کے ساتھ سلوک کرے گا۔ وٹہ سٹہ کو جہاں کچھ گھرانوں میں معمولی نوعیت کے گھریلو تشدد کی وجہ مانا گیا ہے، وہیں اس کے برعکس اسے کچھ جگہوں پر انتہائی سطح کے جوابی تشدد کا سبب مانا گیا ہے۔

وٹے سٹے کی روایت محض دیہات تک محدود نہیں ہے، بلکہ شہروں میں بسنے والے بعض روایتی گھرانے بھی ایسی شادیوں کو کامیاب ازدواجی زندگی کی گارنٹی سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہونے والی ستر سے اسی فیصد شادیاں وٹہ سٹہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ آج بھی معاشرے میں عورت کو جانور کی طرح اپنی ملکیت سمجھنا ہے۔ وٹہ سٹہ کی شادیوں کے رواج کے باعث بہت سے معاشرتی، سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔

اپنی ذات یا برادری میں ہی شادی کرنے کی غرض سے اکثر فیصلے خواتین کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں وٹہ کی شادیوں میں اکثر جائیداد بھی مسئلہ بنتی ہے اپنی زمین اپنے خاندان میں رہے اس لیے بھی دیہاتی لوگوں میں یہ سلسلہ عام ہے۔ وٹہ سٹہ کے تحت ہونے والی شادیاں اکثر انتہائی بے جوڑ ہوتی ہیں، ”وٹہ سٹہ کے تحت لڑکیوں کا رشتہ طے کرتے وقت نہ تو لڑکوں کی عمر دیکھی جاتی ہے، نہ تعلیم اور نہ ہی روزگار۔ بعض اوقات نہایت کم عمر لڑکیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے شادیاں بھی طے پا جاتی ہیں جن میں ان کی مرضی شامل نہیں ہوتی۔

اور اگر لڑکیاں انکار کرنا چاہیں تو خاندان کی عزت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اسی باعث چودہ سے پندرہ برس کی لڑکیاں چالیس یا اس سے بھی زیادہ عمر کے مردوں سے بیاہ دی جاتی ہیں۔ وٹے سٹے کی ایسی شادیوں کے لیے اکثر اوقات شیرخوار بچوں کے رشتے بھی آپس میں طے کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کر دیا جائے کہ اسے کس کے ساتھ بیاہنا ہے، اس سے کئی مسائل و پہلے یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح لڑکی کو سیکیورٹی مل جاتی ہے۔

“ کیونکہ اگر ایک جوڑے کے تعلقات خراب بھی ہوں تو وہ اس لیے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں کہ دوسرے جوڑے کا رشتہ اور خوشیاں بھی برباد نہ ہوں۔ مگر بعض دفعہ اس وجہ سے بہت تکلیف دہ صورت حال بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک خاندان میں شادی ہو کر جانے والی لڑکی خوش نہیں تو دوسرے خاندان میں اس کے بدلے جانے والی لڑکی کو تکلیف یا طعنے دیے جاتے ہیں۔ اگر ایک گھر کی لڑکی اپنے سسرال میں نہ رہنا چاہے تو دوسری کو بھی زبردستی اس کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسی شادیوں میں ذہنی ہم آہنگی بھی نہیں پائی جاتی۔ یہ صورتحال خصوصاً لڑکیوں کے لیے شدید ذہنی اذیت کا باعث بنتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کی قدیم اور خطرناک حد تک فضول رسومات سے اس معاشرے کو آزادی دلائی جائے۔ وٹہ سٹہ کی شادی پر پابندی سرکاری طور پر لگائی جائے۔ تاکہ نفرتوں کو فروغ دینے والی اس رسم سے معاشرے کی جان چھڑائی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments