گھڑمَس


ابھی آئی ایم ایف کی ٹیم آ رہی ہے، اس کی حکومت پاکستان کی طرف سے تسلیم کی جا چکیں شرائط پر ”پکی ضمانتی دستاویز“ لینے کے لیے، کہ آئندہ کوئی حکومت بھی ان شرائط کو واپس نہیں کر سکے گی، اور اس کی ضمانت ہمارا وہ ادارہ دے گا، جس پر وہ، اور ہم، بلکہ سب ہی مکمل اعتماد کرتے ہیں، پھر دو ارب ڈالر ملیں گے، یہ دستاویز شہباز شریف اور مصباح اسماعیل کی طرف سے دستخط ہونے کے بعد ، ان شرائط کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدید اور ناقابل برداشت مہنگائی کے خلاف، اسی بہانے وسیع پیمانے پر پرتشدد عوامی مظاہرے کروا کر، جن کا آغاز کراچی سے کروا دیا گیا ہے، اور باقی ملک کے عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف مزید اشتعال میں لانے کے لیے شدید ترین گرمی میں ہر چند منٹ کے بعد بجلی بند کر دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، یاد رہے کہ یہ بریک ڈاؤن علانیہ اور غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کے علاوہ کروائے جا رہے ہیں، عوام کی طرف سے پرتشدد مظاہروں کے بعد اس حکومت کو معزول کر کے ایک ”منتظر“ عبوری سیٹ اپ کے تحت نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا، گویا ہمیشہ کی طرح، تعمیر میں ہی تخریب کا امکان رکھ دیا گیا ہے۔

ان دو ارب ڈالر جو مبینہ طور پر مل رہے ہیں، ان میں اگلے الیکشن کے انعقاد کے لیے دی جانے والی رقم بھی شامل ہے، اور پھر بقول جنرل (ر) ظہیر الاسلام ”اپنے پراجیکٹ“ کو دوبارہ ”باعزت“ طریقے سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ ری لانچ کروایا جائے گا، خان صاحب دوبارہ اقتدار میں آ کر یہی ”ضمانتی دستاویز“ عوام کے سامنے لہرا لہرا کر بتائیں گے، کہ یہ شرائط اور ان پر ناقابل تنسیخ ضمانت تو سابق حکومت اور شہباز شریف دے گیا تھا، لہذا مجبوراً موجودہ پالیسیاں اور مہنگائی برقرار رہے گی، اور اس کا ذمہ دار شہباز حکومت بتائی جائے گی۔

اس کے بعد آئین میں ترمیم کی جائے گی، اٹھارہویں ترمیم ختم کروائی جائے گی، نومبر میں یا اس سے بھی کچھ قبل ”نئی تقرری“ عمران نیازی صاحب کی خواہش کے مطابق ہی ہو گی، اس میں اب کوئی شک شبہ باقی نہیں رہ گیا، اور پھر ”گرینڈ پلان کے عین مطابق ملک میں آئندہ دس سال کے لیے“ اسلامی صدارتی نظام ”نافذ کیا جائے گا،“ حقیقت ٹی وی ”دوبارہ پوری آب و تاب سے آن ائر ہو گا، مسلم لیگ نون کی اعلیٰ ترین قیادت ماضی ہی کی طرح یا“ اندر ”ہو گی یا“ باہر ”ہو گی، البتہ یہ چوبیس کروڑ سے زیادہ“ بھیڑ بکریاں ”یہیں رہیں گی، اور اسی طرح اشاروں پر یا تو ممیاتی رہیں گی، یا خاموش رہیں گی، اب تو زیادہ مناسب یہی ہے کہ ان کو“ عوام ”کہنے کے بجائے ایک زیادہ متعلق اور مناسب نیا نام دے دیا جائے، تاکہ سمجھنے، برتنے اور پہچاننے میں آسانی ہو سکے، لہذا انھیں آئندہ لائیو سٹاک یعنی“ زندہ ذخیرہ ”کے نام سے پکارنے کا قانون یا آرڈیننس آئندہ دوبارہ سے مکمل نئے“ مملکت اسلامی پاکستان ”کے صدر محترم اپنی“ نیشنل سیکورٹی کونسل ”کے مشورے ( ویسے تو یہاں مشورے اور حکم میں زیادہ فرق باقی نہیں چھوڑا گیا ) سے جاری فرمائیں، کہ یہ جاہل، غیر منظم، میلا کچیلا، آپس میں لڑتا، آپس میں سینگ پھنساتا اور تڑواتا، بدنصیب ریوڑ اسی قابل ہے۔

اسی منصوبے کی تکمیل کے ایک حصے کے طور پر ”ٹی ٹی پی“ کے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کر کے ان کو بھی پاکستان کے عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے ”ری لانچ“ کروائے جانے کی کارروائی بھی ساتھ ساتھ جاری ہے، جیسے بھیڑ بکریوں کے ساتھ ان کو خوفزدہ اور ”راستے“ پر رکھنے کے لیے بھی تو نوکیلے دانتوں والے خونخوار کتوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے، تو ”ٹی ٹی پی“ کا مثبت استعمال بھی کچھ اسی طرح ہو گا، ویسے، بقول، ہمیشہ تو حالت جنگ میں نہیں رہا جا سکتا، نہ جانے ”کمر“ کس کی توڑ دی گئی تھی، جیسے بقول مشتاق احمد یوسفی ہر شرعی عیب کے حامل، ان کے ایک شاعر دوست نے ”تائب“ تخلص رکھ لیا، مرشد یوسفی لکھتے ہیں، کہ سمجھ نہیں آئی کہ موصوف تائب کس سے ہوئے ہیں، کیونکہ دنیا کا ہر اخلاقی عیب تو موصوف میں موجود تھا، پھر خیال آیا، اس تخلص سے موصوف کی مراد شاید نیکیوں کی طرف ہو، تو اس ”کمر“ جس کا بارہا ذکر قوم بلکہ ریوڑ نے سنا تھا، وہ شاید اپنی ہی کمر کی جانب اشارہ ہو، تائب صاحب کی طرح۔ اسے کہتے ہیں ”جامع منصوبہ“ کیا اب بھی کسی کو اعلیٰ ”پیشہ ورانہ“ صلاحیتوں پر کوئی شک باقی ہے، یا آوے غوری؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments