NFHS-5: انڈیا میں پیدائش پر کنٹرول خواتین کی ہی ذمہ داری کیوں؟

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، دہلی


انڈیا میں بہت کم مرد کونسلنگ کے لیے جاتے ہیں
انڈیا میں بہت کم مرد کونسلنگ کے لیے جاتے ہیں
جب رنجنی شرما نے اپنے شوہر کو بتایا کہ وہ نس بندی کرانے پر غور کر رہی ہے، تو ابتدا میں ان کے شوہر نے انھیں اس سے باز رکھنے کی کوشش کی۔

تین بچوں کی 27 سالہ ماں رنجنی شرما نے مجھے شمالی انڈیا کے لکھنؤ کے مضافات میں اپنے گھر سے فون پر بتایا کہ ’انھوں (ان کے شوہر) نے کہا کہ اس سے تمہاری صحت پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔‘

لیکن رنجی شرما نے کہا کہ وہ تنگ آچکی ہیں۔ جوڑے نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ مزید بچے نہیں چاہتے ہیں اور وہ حمل سے بچنے کے لیے کنڈوم استعمال کر رہے تھے۔ لیکن یہ کوئی ’بالکل محفوظ طریقہ‘ نہیں تھا اور جب وہ احتیاط کے باوجود دو بار حاملہ ہوئیں تو انھوں اسقاط حمل کی گولیاں کھائیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے ’بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا، میرا سر چکراتا تھا، آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتا تھا اور میں ہر وقت بے جان اور تھکی ہوئی رہتی تھی۔ اس لیے میں نے ان سے کہا کہ نس بندی کرانا ان گولیوں کو لینے سے بہتر ہو گا۔‘

اور جوڑے نے اس بات پر بھی غور کیا کہ کیا نس بندی والا کام ان کے شوہر کو کرنا چاہیے۔

رنجی شرما نے کہا ’لیکن میں نے ان کے بارے میں نہیں کہا۔ وہ خاندان کے کمانے والا ہیں اور نس بندی انھیں کمزور کر دے گی، وہ بھاری وزن اٹھانے کے قابل نہیں ہوں گے۔‘

فیڈریشن آف اوبسٹریٹرک اینڈ گائناکولوجیکل سوسائٹیز آف انڈیا کی صدر ڈاکٹر ایس شانتھا کماری کہتی ہیں کہ اس طرح کی باتیں ’فسانہ اور غلط فہمیاں‘ ہیں کہ مردوں کو نس بندی کرانے سے کمزوری آتی ہے یا ان کی قوت پر اثر پڑتا اور اس کی وجہ سے مرد خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں سے دور رہتے ہیں اور مانع حمل کا بوجھ مکمل طور پر خواتین پر آجاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے چلائی جانے والی انڈیا کی خاندانی منصوبہ بندی کی مہمات بھی مکمل طور پر خواتین پر مرکوز ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ یہ مرد اور خواتین دونوں کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اس فیصلے میں شراکت دار ہوں۔ لیکن ذمہ داری ہمیشہ خواتین پر عائد ہوتی ہے۔‘

یہ دعویٰ تازہ ترین نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS-5) کے نتائج سے سامنے آیا ہے، جو حکومت کی طرف سے صحت اور سماجی اشاریوں کا سب سے جامع گھریلو سروے ہے اور یہ سنہ 2019-2021 کے درمیان کیا گیا ہے۔

سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سے 49 سال کی عمر کے 99 فیصد سے زیادہ شادی شدہ مرد اور خواتین مانع حمل کے کم از کم ایک جدید طریقہ کے بارے میں جانتے ہیں، جن میں مرد اور خواتین کی نس بندی، کنڈوم، گولیاں، انجیکشن اور انٹرا یوٹرن ڈیوائسز شامل ہیں اور یہ کہ ان کا استعمال سنہ 2015-16 میں 47.8 فیصد سے بڑھ کر سنہ 2019-21 میں 56.5 فیصد ہو گیا ہے۔

لیکن یہ وہ جگہ ہے جہاں باریک فرق مدغم ہو جاتا ہے۔

گراف

دس میں سے ایک سے بھی کم یعنی 0.95 فیصد مرد کنڈوم کا استعمال کرتے ہیں جبکہ خواتین کی نس بندی مانع حمل کا سب سے مقبول طریقہ ہے اور پچھلے پانچ سالوں میں یہ 36 فیصد سے بڑھ کر 37.9 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ مردانہ نس بندی، اگرچہ یہ زیادہ محفوظ اور آسان ہے لیکن یہ 0.3 فیصد ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

سروے میں اتر پردیش، بہار اور تلنگانہ ریاستوں میں 50 مردوں نے یہ بھی کہا کہ ‘مانع حمل سے خواتین کا سروکار ہے اور مرد کو اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’ آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال میں تین میں سے ایک مرد اور کرناٹک میں 45 فیصد مردوں نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔

ابھینو پانڈے کہتے ہیں کہ چیزوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے، سب سے پہلے اس رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے سنہ 2017-2019 کے دوران پانچ ریاستوں اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں خواتین کی منصوبہ بندی کے طریقے پر مبنی ایک تحقیقی پروجیکٹ کی قیادت کی تھی۔

ابھینو پانڈے کہتے ہیں ’تمام ریاستوں میں ہم نے پایا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں میں مردوں کی شمولیت بہت کم تھی، جس کی بنیادی وجہ بیداری کی کمی ہے۔‘

’نس بندی کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، مردوں کو لگتا ہے کہ وہ اپنی مردانہ قوت کھو دیں گے اور ایسی ملازمتوں میں کام نہیں کر پائیں گے جن میں محنت شامل ہوتی ہے۔ ان کے لیے کنڈوم زیادہ قابل قبول ہیں، لیکن بہت سے مردوں نے ہمیں بتایا کہ وہ انھیں پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ غیر آرام دہ ہے اور جنسی تعلقات کو کم خوشگوار بناتا ہے۔‘

بہار میں خواتین اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں

بہار کے ایک شہر میں خواتین اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں

خیال رہے کہ حکومتیں دیہاتوں اور شہر کی غریب آبادیوں میں سرکاری کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے حصے کے طور پر اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے تحفظ کے طور پر مفت کنڈوم تقسیم کرتی ہے ہیں۔

لیکن جی بی پنت انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز ان رورل ڈیولپمنٹ کی آکانشا یادو، جو دیہی صحت کے کارکنوں اور گاؤں کی کونسل کے ارکان کو محفوظ اسقاط حمل کے طریقوں کی تربیت دیتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین کنڈوم کی خرابی یا صحیح طریقے سے استعمال نہ ہونے یا ان کے شوہر کو رات کو نشے میں گھر آنے اور تحفظ کا استعمال کرنے سے انکار کی صورت میں حاملہ ہو جاتی ہیں۔

اور پھر یہ عورت کا درد سر بن جاتا ہے۔ مز یادو کہتی ہیں کہ بہت کم خواتین کو معلوم ہے کہ اندیا میں اسقاط حمل قانونی ہے اس لیے وہ رنجنی شرما کی طرح اسقاط حمل کی گولیوں یا مستقل نس بندی کی طرف جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مانع حمل پر بات کرنے کی ایک دشوار لڑائی

کیا کنڈوم کے استعمال نے خواتین سے خاندانی منصوبہ بندی کا بوجھ کم کر دیا؟

مردانہ مانع حمل گولیاں بازار تک کیوں نہیں آ رہی ہیں؟

ڈاکٹر کماری کہتی ہیں کہ پہلے پہل وہ مستقل نس بندی کے بجائے صرف ایسے طویل المدتی مانع حمل کی وکالت کرتی ہیں جسے واپس کیا جا سکے۔

‘ایک جوڑے کے دو بچے ہونے کے بعد، میں ان سے کہتی ہوں کہ وہ عارضی لیکن طویل مدتی نس بندی کے لیے جائیں اور چند سال بعد، وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ مستقل نس بندی کرانا چاہتے ہیں؟’

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے طویل المدت مانع حمل رحم کے اندر لگانے والے آلات یا گولیوں کی شکل میں آتا ہے، لیکن مردوں کے لیے اس جیسی کوئی چیز دستیاب نہیں ہے۔

کنڈوم کے استعمال کا طریقہ

'دنیا بھر میں مردوں کے لیے طویل المدت ریورسیبل مانع حمل تلاش کرنے کے لیے تحقیق جاری ہے، لیکن اس وقت اس ضمن میں کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔'

مسٹر پانڈے کہتے ہیں کہ جب تک ایسا نہیں ہوتا، خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں کو مردوں تک پہنچنے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ اس ضمن میں کسی معجزے کی توقع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تبدیلی سست رفتار ہوگی۔

"مرد کھلے عام جنسی تعلقات کے بارے میں بات کرنے میں آرام محسوس نہیں کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں سرکاری صحت کے کارکنان تقریباً تمام خواتین ہیں جو لوگوں کے گھروں تک کنڈوم پہنچاتی ہیں اور مردوں تک ان کی رسائی بہت کم ہے۔ اس لیے ہم نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی ہے مردوں کو خاندانی منصوبہ بندی پر متحرک کرنے کے لیے مرد رضاکار بھرتی کیے جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2016 میں انڈیا بھر کے 148 اضلاع میں ایک ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا جہاں ساس اور بہوؤں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں بات کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ سنہ 2019 میں ریاست راجستھان نے شوہروں کو ان ملاقاتوں میں بلانا شروع کیا اور ایک سال بعد اسے اتر پردیش میں بھی متعارف کرایا گیا۔

‘اس سے کچھ حد تک مردوں کی شمولیت کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ مردوں نے اپنی بیویوں کے ساتھ کونسلنگ سیشن کے لیے جانا شروع کر دیا، لیکن وہ پھر بھی مانع حمل کے طریقوں کے استعمال سے گریزاں تھے۔’

ڈاکٹر کماری کہتی ہیں کہ اس رویے تبدیلی کے لیے حکومت، ڈاکٹروں اور میڈیا کو ایک مہم کے لیے ہاتھ ملانے کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو اس بات پر قائل کرے کہ نس بندی محفوظ اور آسان ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب تک ایسا نہیں ہوتا مرد خاندانی منصوبہ بندی کی ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کرتے رہیں گے اور مانع حمل کا بوجھ عورتوں پر ہی رہے گا۔

گرافکس: شاداب نظمی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments