بلال ثابت گینگ: جس کی دہشت سے پولیس اہلکار تبادلے میں ہی عافیت سمجھتے تھے

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پولیس
پاکستان کی وزارت داخلہ نے ایسے پولیس اہلکاروں اور سرکاری اداروں کے ان افراد کے خلاف تحققیات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو چند روز قبل راولپنڈی کے علاقے نصیر آباد میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے بلال ثابت کے ساتھ نہ صرف رابطے میں تھے بلکہ اس گینگ کے لیے مخبری کا کام بھی کرتے تھے۔

اس کے علاوہ وزارت داخلہ نے صوبوں کے محکمہ مال سے ان جائیدادوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں جو اس گینگ کے سرعنہ بلال ثابت اور اس گروہ کے دیگر ارکان کے نام ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق بلال ثابت اور اس گینگ کے دیگر ارکان سابق ڈی ایم جی افسر نعمان آفریدی کے علاوہ حساس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آٹھ اہلکاروں کو ہلاک کرنے اور متعدد کو زخمی کرنے کے واقعات میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ درجنوں ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث رہے۔

ایک ماہ قبل پشاور کے ایک مقامی تھانے کے ایس ایچ او کی ہلاکت کے علاوہ اسلام آباد میں مختلف ناکوں پر پولیس کے چار اہلکاروں کی ہلاکت میں بھی اس گینگ کے لوگ ملوث ہیں۔

اسلام آباد پولیس حکام کے مطابق آئی جے پی روڈ اور سیکٹر ڈی بارہ میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت میں یہی گینگ ملوث ہے۔

پولیس حکام کے مطابق بلال ثابت پشاور سے تعلق رکھتا تھا جبکہ اس کے والد حساس ادارے میں ملازم تھے۔

سنہ 2015 میں ثابت گینگ منظر عام پر آیا اور اس گینگ کے ارکان نے پہلے چھوٹی چھوٹی چوریوں سے کام شروع کیا اور پھر ایک منظم گینگ کی شکل میں وارداتیں کرنا شروع ہو گیا۔

گینگ

وزارت داخلہ میں خفیہ اداروں کی طرف سے بھیجی جانے والی رپورٹس کے مطابق اس گینگ کی تشکیل کے بعد اس گروہ کا سرغنہ بلال سرحد پار بھی جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ تعلقات ہونے کے ساتھ ساتھ کالعدم تنظیموں کے ساتھ بھی روابط میں تھا، جس میں افغانستان میں سرگرم تنظیم داعش بھی شامل ہے اور ان رپورٹس کے مطابق بلال نے اسی تنظیم سے شدت پسندی کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔

اس گینگ کی واردات کا طریقہ کار

پولیس ذرائع کے مطابق اس گینگ کے ارکان دس سے پندرہ دن تک ایک ہی شہر میں رہتے اور وہاں پر امیر لوگوں کے کوائف جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ریکی بھی کرتے تھے۔

پولیس ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اس گینگ نے جہاں واردات کرنا ہوتی تھی، اس شہر کی پولیس کے چند اہلکار گینگ کے ساتھ رابطے میں رہتے اور ان کے لیے مخبری کا کام کرتے تھے۔

پولیس حکام کے مطابق واردات کے وقت ایک گاڑی بلال ثابت کے آگے اور دوسری گاڑی اس کے پیچھے ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں پولیس اہلکاروں کی نقل وحرکت کے بارے میں بھی تمام معلومات حاصل ہوتی تھیں۔

پولیس حکام کے مطابق تین چار ماہ کے بعد یہ گینگ دوبارہ اسی شہر کا رخ کرتا جہاں پر انھوں نے پہلے بھی وارداتیں کی ہوتی تھیں۔

پولیس حکام کے مطابق بلال اور اس گینگ کے دیگر افراد ٹیکنالوجی سے بھی واقفیت رکھتے تھے اور وہ کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کے لاک وغیرہ کھول کر صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں لیکر جاتے تھے جہاں پر ان گاڑیوں کے انجن اور چیسز نمبر تبدیل کر کے انھیں لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں کار ڈیلروں کے ذریعے فروخت کر دیتا تھا۔

گینگ

پولیس ذرائع کے مطابق اس گینگ نے جتنی بھی وارداتیں کی وہ چوری شدہ گاڑیوں پر ہی کیں لیکن ایک گاڑی جس کو کسی واردات میں استعمال کیا جاتا، اسے دوسری مرتبہ کسی اور واردات میں استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اگر واردات کے دوران مزاحمت ہو جاتی تو اس گینگ کا سرغنہ اندھا دھند فائرنگ کرنے میں شہرت رکھتا تھا اور اس فائرنگ کی زد میں کوئی بھی آ سکتا تھا، جس کی وجہ سے وہ پولیس میں ‘ٹریگر لور‘ کے نام سے مشہور تھا۔

پولیس اہلکاروں پر اس گینگ کی دہشت

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق بلال اور اس گینگ کے دیگر ارکان قانون نافذ کرنے والے اور حساس اداروں کے ان اہلکاروں کو ٹارگٹ کرتے تھے جو اس گینگ کے خلاف کارروائی یا اس کی مخبری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق سویلین حساس ادارے انٹیلیجنس بیورو کے دو افسران کا قتل بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور یہ کام پولیس یا حساس اداروں کے کچھ اہلکاروں کی مدد یا معلومات کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہروں میں ماضی قریب میں جو بڑی بڑی ڈکیٹتی اور راہزنی کی وارداتیں ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر یہی گینگ ملوث ہے۔

ان شہروں کے متعدد تھانوں کے ایس ایچ اوز کو اس بارے میں معلوم ہوتا تھا کہ اس واردت کے پیچھے ‘ثابت گینگ‘ کا ہاتھ ہے لیکن وہ مبینہ طور پر اس گینگ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے گریزاں رہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

عاطی لاہوریا: وہ گینگسٹر جس کا تعاقب گوجرانوالہ پولیس کو سربیا کے جنگلوں تک لے گیا

ڈیرہ غازی خان کا سفاک ’لاڈی گینگ‘ اپنی کارروائیاں کیونکر جاری رکھے ہوئے ہے

پولیس کے نظام کو چیلنج کرنے والا اندھڑ گینگ جس پر بات کرنے سے ’پولیس بھی کتراتی ہے‘

پولیس

راولپنڈی پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اگر کسی علاقے میں واردات ہو جاتی اور پولیس اس گینگ کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دیتی تو یہ گروہ تفتیش کرنے والے پولیس اہلکاروں کو فون کر کے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے، جس میں ان کی خواتین کے ساتھ ریپ کی دھمکیاں بھی شامل ہوتی تھیں اور اسی وجہ سے اس مقدمے کی تفتیش میرٹ پر ہونے کی بجائے دخل دفتر کر دی جاتی تھی۔

پولیس اہلکاروں پر اس گروہ کے خوف کی وجہ سے نہ صرف اس گینگ کی گرفتاری کے بارے میں کوئی خاطر خواہ اشتہار دیے گئے اور نہ ہی اس گروہ کے سرغنہ کے سر کی قیمت مقرر کی گئی۔

پولیس اہلکار کے مطابق اس گروہ کا سرغنہ کچھ عرصہ پہلے سٹی پولیس افسر کو بھی ایک تقریب میں ملا تھا جبکہ ملاقات کرنے سے پہلے اس نے سٹی پولیس افسر کو کہا تھا کہ وہ اس سے ملاقات کرے گا۔ ملاقات کے بعد نہ صرف اس گینگ کے سرغنہ نے سی پی او کو فون کیا بلکہ اس ملاقات کی تصویر بھی پولیس افسر کو واٹس ایپ کی تھی۔

پولیس حکام کے مطابق اگر کسی تھانے کے ایس ایچ او کو اس گینگ کے خلاف کارروائی کے بارے میں کہا جاتا تو ان میں سے زیادہ تر ایس ایچ اوز اپنا تبادلہ کروانے میں ہی عافیت سمجھتے۔

پولیس حکام کے مطابق اس گروہ کے خلاف کراچی سے لے کر خیبر پختونخوا تک مختلف تھانوں میں درجنوں مقدمات درج ہیں جبکہ ایسے واقعات کی تعداد ان درج ہونے والے مقدمات سے کہیں زیادہ ہے جو تھانوں میں رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔

اس گروہ کو منطقی انجام تک پہہنچانے کا عزم

اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں کچھ عرصہ سے وارداتوں میں اضافے اور بلخصوص قانوں نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے متعدد واقعات کے بعد حساس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کے اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ اس گینگ کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے کیونکہ ان وارداتوں سے نہ صرف عوام بلکہ خود پولیس اہلکار بھی عدم تحفظ کا شکار ہو رہے تھے۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں شریک قانون نافد کرنے والے اداروں کے حکام اس بات پر متفق تھے کہ ایسے خطرناک گینگ کے ارکان کو زندہ گرفتار کرنا شاید ممکن نہیں۔

وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق جس روز راولپنڈی کے علاقے نصیر آباد میں پولیس مقابلہ ہوا جس میں بلال ثابت اور اس کا ایک ساتھی امتیاز عرف لنگڑا مارا گیا تھا، اس میں حساس اداروں کے اہلکاروں کی مدد بھی شامل تھی اور یہ ٹارگٹڈ آپریشن خفیہ معلومات کی بنیاد پر ہی کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments