ماہی گیروں کے مسائل


پاکستان کے جس شعبے پر بھی نظر ڈالو، مصحفی کی طرح یہی کہنا پڑتا ہے کہ ہم تو سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم۔ تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا۔ ماہی گیری کے شعبے کی بھی یہی صورت حال ہے۔ بدلتے ہوئے رجحانات اور منڈی کی قوتیں اس شعبے پر حاوی ہو گئی ہیں۔ عورتیں زیادہ تر جسمانی محنت والے کام کرتی تھیں اور سب سے پہلے وہی آمدنی کے ذرائع سے محروم ہوئیں۔ ماہی گیروں کے بارے میں تحقیق کرنے والے معظم خان کو شکایت ہے کہ پاکستان کی ماہی گیر عورتیں اس شعبے میں بالکل غیر فعال ہیں جب کہ بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں مرد صرف مچھلی پکڑ کے لاتے ہیں باقی پروسیسنگ اور پیکجنگ کا سارا کام عورتوں نے سنبھالا ہوا ہے۔

معظم خان نے غربت کے خاتمے کے جنوبی ایشیائی الائنس کے لئے جو تحقیق کی اس کے مطابق ماہی گیری کوئی تین چار ہزار سال پرانا پیشہ ہے۔ 1932 میں برطانوی حکومت نے سندھ میں ماہی گیری کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی تھی۔ اس میں اور آج 2022 کی صورتحال میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ تجاویز بھی وہی ہیں اور مسائل بھی وہی۔ غربت، استحصال، افراط زر، تیل کی قیمت اور کشتیوں کے انجن کے مسئلے۔ ہمارے ہاں آبی ثقافت پروان نہیں چڑھی۔

فش فارمنگ کا ابھی تک آغاز نہیں ہو پایا۔ 2016 میں بھی ماہی گیری کے بارے میں ایک اسٹڈی سامنے آئی تھی جس میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ کشتیوں کی تعداد کو آدھا کر دیا جائے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ ایسا کیوں؟ تو اس کا جواب ہے کہ سمندر میں جا کے مچھلی پکڑنے والی لانچوں اور کشتیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہوں نے مچھلی پکڑ پکڑ کے بڑی مچھلیاں ختم کر دی ہیں اور اب وہ چھوٹی مچھلیاں پکڑی جا رہی ہیں جو دراصل ان بڑی مچھلیوں کی خوراک تھیں۔

کئی جگہ تو وہ چھوٹی مچھلیاں بھی ختم ہو گئی ہیں اور وہ کیڑے مکوڑے بچے ہیں جو ان چھوٹی مچھلیوں کی خوراک تھے۔ مارکس کی قدر زائد کی تھیوری کی ہم صنعتی مزدوروں کے حوالے سے بہت بات کرتے رہے ہیں۔ لیکن ماہی گیروں پر بھی اس کا اتنا ہی اطلاق ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں جو مچھلی ہم سات آٹھ سو روپے کلو خریدتے ہیں، ماہی گیروں کو اس کے صرف ستر یا اسی روپے ملتے ہیں۔ ماہی گیر جو اتنے اتنے دن سمندر میں رہتے ہیں، ان کو اپنی محنت کے مقابلے میں بہت کم آمدنی ہوتی ہے۔

ویسے بھی اپریل مئی اور اکتوبر نومبر میں مچھلیاں پکڑے پر پابندی ہے۔ اس دوران ماہی گیروں کو اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لئے بہت محنت کری پڑتی ہے اکثر وہ سود خور مہاجن سے قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایجنٹ حضرات بھی انہیں اس شرط پر قرضہ دیتے ہیں کہ وہ اپنا شکار صرف انہیں فروخت کریں گے۔ یوں ماہی گیر خود اپنی پکڑی ہوئی مچھلی کسی اور کو بیچنے کی آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ کمیشن ایجنٹ بھی دراصل ماہی گیر ہوتے ہیں لیکن پیسے والے ہوتے ہیں۔

یہ امیر ماہی گیر ان غریبوں کی اقتصادی زندگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ سود تو نہیں لیتے لیکن دوسرے طریقوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور کم قیمت پر ان غریبوں سے مچھلی خرید لیتے ہیں۔ اس وقت ماہی گیروں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی، قرضوں کا بوجھ اور نا برابری جس میں زندگی امتیاز بھی شامل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہی گیری کی ویلیو چین میں صرف مالی فائدے کو نہیں بلکہ انسانی اقدار کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔

ہمارے پالیسی سازوں کو، سول سوسائٹی کی تنظیموں، کاروباری اداروں، کثیر الجہتی ایجنسیوں کو سی فوڈ کی ویلیو چین کو منصفانہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لئے اس ویلیو چین کے سب سے نچلے حصے پر موجود چھوٹے ماہی گیروں اور مزدوروں کی سماجی امنگوں اور توقعات کو کاروباری اصولوں کے ساتھ مربوط کرنا ہو گا۔ ابھی تک تو سی فوڈ کے شعبے کی ویلیو چین نے صرف بڑے کاروبار کے منافع میں اضافہ کیا ہے۔ جب کہ چھوٹے ماہی گیر اور مزدور کو اس کی محنت کا جائز منافع بھی نہیں ملتا۔ دوسری طرف امیر اور غریب اور طاقتور اور کمزور کے درمیان سماجی اور اقتصادی نا برابری جتنی آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اتنے برسوں میں مردوں اور عورتوں کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

جہاں تک ماہی گیر عورتوں کا تعلق ہے تو میں نے انہیں بہت بڑی تعداد میں پریس کلب کے سامنے یا کشتیوں میں ریلیاں نکالتے اور نعرے لگاتے اور اور ایک آدھ کو کشتی میں لوک رقص کرتے دیکھا ہے اور ان کی بے خوفی اور اعتماد کو سراہا ہے لیکن اب ان سب کے سامنے معاشی بدحالی کا بھوت رقص کر رہا ہے۔ ایسی پالیسیاں اور قوانین بنانے کی ضرورت ہے جن سے غریب ماہی گیر مردوں اور عورتوں کو اقتصادی اور سماجی تحفظ حاصل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments