علامتی افسانہ ۔ نجکاری


مجھے اچھی طرح یاد ہے جس گھر میں میری آنکھ کھلی تھی۔ یہ ایک اچھا خاصا کھاتا پیتا اور خوشحال گھرانا تھا۔ بہت سی زمینیں، جائیدادیں اور جاگیریں تھیں۔ اللہ کا دیا سب کچھ تو میسر تھا۔ ہم سارے اس بہت بڑے گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔ یہاں ابو کا اپنے بھائیوں سے اکثر اختلاف رہتا تھا۔ چونکہ وہ لوگ اکثر مکر و فریب سے کام لیتے تھے۔ کبھی کوئی شرارت کر دیتے اور کبھی علاقے پر قابض نئے چوہدریوں کی حمایت سے ہماری حق تلفی تک کر جاتے تھے۔

ہم سب بہن بھائیوں کی عادات و اطوار کچھ مختلف تھے۔ ہم کسی کے دباؤ میں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ ہمارے بزرگوں کا تو اس گھرانے پرایک عرصہ تک سکہ چلتا رہا تھا۔ پھر ہمارے کچھ بڑوں کی سستیاں اور غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے ہمارے گھر پر علاقے کے چوہدریوں کا اثر رسوخ بڑھنے لگا تھا۔ ہمارے چچا لوگ ان چوہدریوں کے کچھ زیادہ ہی گرویدہ تھے۔ یوں اب گھر کے اہم فیصلے بھی ان چوہدریوں کے ہاتھوں ہونے لگے۔ ابا اور ان کے چند مخلص دوستوں کو اس بات کا بڑا قلق رہتا تھا اور یہی ابو کی وجہ اختلاف بھی تھی۔

یہ چوہدری اپنی چالاکیوں اور چرب زبانیوں کی وجہ سے ہمارے گھر، جائیدادوں اور کاروبار پر عملاً قابض تھے ابو اور ہمارے بھائیوں کو یہ صورتحال بالکل پسند نہ تھی۔ وہ طبعاً آزاد پسند تھے۔ اور تایا چچا لوگ تو خوشامدی تھے اپنا ہر جائز ناجائز مطلب ان چوہدریوں سے نکلوا لینے میں بلا کے ماہر تھے۔ اس ساری صورت حال میں ہم نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جس کی بہت مخالفت بھی ہوئی۔ اور ابو اور ان کے ساتھیوں کو بڑے لالچ بھی دیے گئے پر ابو نے ان کی ایک نہ مانی اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

ابو اور چچا لوگوں کے درمیان ان چوہدریوں نے ہی تصفیہ کروا دیا۔ ہم نے اپنے حصے کی زمین جائیداد اور کاروبار الگ کر لیا۔ اس ساری کہانی میں گو کہ ہمیں نقصان بھی زیادہ اٹھانا پڑا۔ نوبت لڑائی جھگڑے، ہاتھا پائی اور قتل و غارت تک چلی آن پہنچی۔ یہ ایک الگ اور لمبی کہانی ہے۔ پھر کبھی سناؤں گی۔ ہماری بہت ہی خوبصورت اور زرخیز زمین کے ایک حصے پر تایا چچا لوگوں نے زبر دستی قبضہ جما لیا اور تا حال قابض ہیں۔ تایا چچا لوگ بٹوارا نہیں چاہتے تھے سو انہوں نے اس بات پر ہم سے پکی پکی دشمنی بھی رکھ لی۔

اب ایک بڑے گھر کے دو گھر بن گئے تھے۔ درمیان میں دیوار اٹھ گئی تھی۔ ساتھ ہی ہم میں سے وہ برائے نام محبت اور اعتماد بھی اٹھ گیا۔ اور یوں ہمارا آنا جانا بھی بہت کم ہو گیا۔ اب نیا گھر اور نئے مسائل تھے۔ بھائیوں میں اتفاق تھا۔ گھر کو بنانے اور کاروبار سیٹ کرنے میں ابو کے دوستوں نے بھی بڑی مدد کی بھائیوں نے بھی خوب محنت کی۔ ہماری جائیداد کی تقسیم کچھ اس طرح ہوئی کہ ہمارے حصے کا گھر اور جائیداد دو مختلف حصوں اور جگہوں میں تھا۔ درمیان میں چچا تایا لوگ اور ان کے دونوں طرف ہم۔

یوں ابو اور بھائیوں کی توجہ دو نوں طرف بٹ گئی۔ ابو ایک تو بڑھاپے میں تھے اور دوسرا دن رات کی محنت اور بھاگ دوڑ میں ان کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی۔ وہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ ابو نے اپنی اتنی بڑی بیماری ہم سب سے چھپائی ہوئی تھی۔ جس کا شاید چھوٹی پھپھو کو پتہ تھا پر ابو نے ان کو سختی سے منع جو کیا ہوا تھا کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ بھائی دونوں گھروں کو سنبھال رہے تھے ابو دونوں طرف آ جا رہے تھے۔ وہ ان دونوں گھروں کو بہت مضبوط اور اپنے کاروباروں میں ترقی کے خواہش مند تھے۔

وہ چاہتے تھے کہ اس گھر کی حکمرانی، پائیدار معیشت اور گھر کی حفاظت کے سلسلے میں کچھ اصول و ضوابط طے ہو جائیں تاکہ یہ گھر اپنی نئی بنیادوں پر مضبوطی سے استوار رہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بھائیوں کو اچھے اچھے مشورے بھی دیے تھے۔ اپنی زندگی میں جس کو جس چیز کے قابل سمجھا ان کو وہی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ ابو کی صحت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ یوں ہمیں تنہا چھوڑ گئے۔ پھر ہمارے گھر کے حالات بتدریج خراب ہونے لگے۔

بھائی اپنی اپنی جائیدادیں بنانے میں لگ گئے۔ ابو کے ایک اچھے دوست کو قتل کروا دیا گیا۔ پھر حالات اور خراب ہوئے۔ گھر کے مخلص افراد ایک ایک کر کے چلے گئے۔ پھر اس گھر میں دامادوں کی حکومت آ گئی۔ جو بھی آیا اس نے اپنا سکہ چمکایا۔ میں اکثر ابو کے خیالات اور خواہشات سے ان کو آگاہ کرتی رہتی تھی مگر میری سنتا ہی کون تھا۔ اتنے بڑے گھروں کو چلانے کے لیے ہر کوئی اپنے مطلب اور مفاد کے اصول اور ضابطے بناتا۔ ہماری اندرونی کمزوریوں اور اختلافات کو دیکھ کر تایا چچا لوگوں نے ہمارے گھر پر اچانک دھاوا بول دیا۔

مگر اللہ کا شکر کے میرے کچھ بیٹوں نے اپنی جان پر کھیل کر گھر اور اس کی ساکھ کو بچایا۔ دشمن سے اس اچانک ہونے والی لڑائی سے نمٹنے کے بعد ہم ایک بار اچھے خاصے مقروض ہو گئے تھے۔ وہ تو کچھ اچھے ہمسائے ابھی ساتھ دے رہے تھے۔ مگر گھر پر اپنا اپنا سکہ جمانے اور اپنے اپنے مفادات کے لیے ہر کوئی ایک دوسرے سے اختلاف رکھے ہوئے تھا۔ گھر کے افراد میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے سزا جزا کا اصول تو پہلے دن سے ہی وضع تھا۔ وہی پرانے چوہدریوں والے قوانین و ضوابط تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ لاگو تھے۔ جن کا غلط استعمال ہونے لگا تھا۔

گھر کے کچھ بڑوں اور مخلص افراد کو موجودہ کرتا دھرتاؤں نے بالکل ہی الگ تھلگ کر دیا تھا۔ چند افراد بد دل ہو کر گھر چھوڑ بھی گئے۔

میرے شوہر بدلتے رہے۔ اور میں عقد ثانی اور عدت کے مراحل سے گزرتی رہی۔

دامادوں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار چمکائے۔ قرضے اور مہنگائی کی وجہ سے گھر کی حالت اور خراب ہوئی کچھ نے تو یہاں کا پیسہ ٹکا چوری چھپے قریب اور دور کے ہمسائیوں اور دوسرے گھروں میں بھی رکھوانا شروع کر دیا۔ ہمارے چچیرے بھائی جن کی آنکھوں میں ہم روز اول سے ہی کھٹکتے تھے۔ وہ موقع کی تاڑ میں لگے رہتے تھے۔ کہتے ہیں ہمارے دوسرے گھر والے بھی چاہتے تھے اور افراد خانہ کی کثرت رائے اس حق میں بھی تھی کہ کچھ عرصہ یہ دونوں گھروں کے انتظامی معاملات چھوٹے بھائیوں کے حوالے کر کے دیکھا جائے۔

مگر دامادوں اور بڑے بھائیوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ اس سے پہلے ہمارے اس والے گھر میں سیلابی پانی آیا تھا۔ دیواریں ٹوٹیں۔ کمرے گرے بھائیوں کے بچے خوار ہوئے۔ مگر بڑے گھر والوں نے ان کی اتنی مدد نہ کی جتنی ضرورت تھی۔ یوں ہمارے دونوں گھروں کے درمیان بد اعتمادی بڑھی۔ تایا لوگوں کے بچوں نے ان کے اور کان بھرے اور ہمارے سے خوب خوب بد دل کیا اس ساری صورتحال میں ہمارے بڑوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اور چھوٹے بھائیوں کا بڑے بھائیوں سے اعتماد آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔

پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ چچیرے بھائیوں نے ایک بار بھر پور شدت سے ہمارے گھر پر حملہ کر دیا۔ چونکہ دونوں گھروں میں پہلے ہی دوریاں تھیں اور درمیان میں وہی پرانا دشمن۔ میرے کچھ بھائی بیٹوں نے جم کر مقابلہ تو کیا مگر اس لڑائی میں ہمارا بہت نقصان ہوا اور دشمن اپنی سازش میں کامیاب ہو گیا۔ ہمارا دوسرا گھر ہم سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو گیا۔ اس بڑے سانحہ پر ہم سب کے دل رنجیدہ تھے۔ سب سے زیادہ تکلیف ابو اور ان کے مرحوم ساتھیوں کی روح کو پہنچی تھی۔

وقت کے ساتھ ساتھ گھر کے بڑے اس سانحہ کو بھول گئے۔ ادھر گھر کی سرداری کے لئے آئے روز کشمکش بڑھتی گئی۔ ان کی عیاشیاں اور قرضے بھی بڑھتے گئے۔ دو بار کی لڑائیوں سے یہ سبق بھی سیکھا کہ دشمنوں کے ساتھ لڑنے کے لیے بڑے ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ یوں گھر کے چند بڑوں نے مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم بھی بڑے گھروں کی طرح بڑے ہتھیار بنائیں گے کہ جن کا فقط پاس ہونا ہی امن و سکون کی ضمانت ہوتا ہے۔ چنانچہ چند پڑھے لکھے اور سیانے بیٹوں نے اس پر کام شروع کر دیا۔

اس وجہ سے دوسرے گھر والے سارے کاروبار کے اچانک لٹ جانے سے اب ہمارے گھروں میں اچھا سالن تو نہیں بنتا تھا مگر گزر بسر کسی صورت ہو رہی تھی۔ البتہ گھر کے بڑے اپنی اسی موج مستی میں ہی رہتے تھے جس کی ان کو عادت تھی۔ گھر کی روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہم اکثر یار دوستوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹھگ لیتے تھے۔ جب قرض نہ ملا تو کوئی نہ کوئی قیمتی چیز گروی رکھ دی۔ اور غالب کا وہ شعر گنگناتے کہ

قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
وہ کہتے ہیں نا کہ جس کا کھاؤ اس کے گن گاؤ۔

یوں ہم بھی جس کا کھاتے تھے اس کو آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا گھر لوگوں کی سازشوں کا گھر بن گیا۔ میرے بیٹے دوسروں کے مفاد میں دوسروں کی زمینوں پر لڑنے لگے۔ ہمیں چند پیسوں کے ساتھ اپنی شان میں اچھی تعریفیں اور خوشامدیں سننے کو ملتی۔ اور ہمارے بڑوں کو یہی کچھ ہی تو چاہیے تھا۔ وہ بڑے گھروں سے اپنی تعریف سن کر ہی خوش رہتے تھے۔ گھر کے معاشی حالات پہلے ہی ابتر تھے اوپر سے بڑے گھرانوں کے ساتھ یاریاں دوستیاں اور آئے روز مہمانوں کا تانتا بندھنے لگا۔ وہ آتے چند دن رہتے، کھاتے، پیتے شکار کھیلتے اور جاتے ہوئے ہمارے بڑوں کو بھی اپنے ہاں آنے کی دعوت دیے جاتے۔

ہمارے بڑے جب ان کے گھروں کی طرف جاتے تو اپنے ساتھ پورا پورا ٹبر، کمی کاری، نوکر چاکر سب لے جاتے۔ اور یوں اس گھر کے اخراجات اور بڑھ جاتے۔ جس نے بھی ایک بار ان بڑے گھروں کا رستہ دیکھ لیا۔ پھر کیا۔ ہلکا سا سر دکھا۔ اور یہ جا وہ جا۔

ہمارے بچے اس صورتحال پر کڑھتے رہتے تھے کہ گھریلو وسائل کم اور خرچے زیادہ ہو رہے ہیں۔ ادھر ہمارے دامادوں پر داماد یا شوہروں پر شوہر بھی بدلتے رہے۔ جو کسی جھوٹے سچے یا مشکوک نکاح کی آڑ میں آتا ان میں سے کوئی دو سال کوئی تین سال اور کوئی چند دنوں تک بھی آیا۔ کوئی ایک آدھ پانچ سال رہا۔ یہ حالت تھی ہمارے نکاحوں کی۔ اور جو بغیر نکاح ہی رخیل بناتے وہ دس دس بارہ بارہ سال جان نہ چھوڑتے۔

قرض خواہ اب تقاضا کر رہے تھے۔ اب تو سود بھی قرض سے بڑھنے لگا تھا۔ پر ہم کیا کرتے۔ پے در پے نکاحوں کے اخراجات الگ تھے۔ بجائے مہر کی ادائیگی کے الٹا کچھ مجھ سے ہی بٹورتے۔ ہم نے پروگرام بنایا کہ کچھ قیمتی اثاثوں کو چند سالوں کے لئے بیچ دیتے ہیں یا گروی رکھتے ہیں یا چند چلتے ہوئے کاروباروں کی نجکاریاں کرتے ہیں۔ اب آئے روز کبھی گھر کے عقب والا پارک بیچنے کا پروگرام بنتا تو کبھی سامنے والی سڑک۔ پچھلے چند دنوں سے طبیعت کافی پریشان ہے۔

گھر قرضوں سے جکڑا ہوا ہے۔ گھر کے بڑوں کی عادتیں جوں کی توں ہیں۔ اوپر سے جن کا ادھار دینا ہے ان کی ہر جائز نا جائز فرمائش ماننی پڑتی ہے۔ کوئی کہتا ہے ہمیں گھر کا فلاں حصہ دے دو ہم نے اڈا بنانا ہے۔ کوئی گیراج اور اصطبل مانگتا ہے کہ اپنے جنگی گھوڑے باندھیں گے۔ اور تو اور ایک صاحب کہ رہے تھے کہ اگر فلاں گھر والوں سے ہمارا پیچا پڑ گیا تو آپ کی چھت اور صحن سے ہم راستہ بنائیں گے۔ ان قرضوں کی ادائی کرنے، گھریلو ضروریات کو پورا کرنے اور ان مفاد پرست سازشی ٹولوں سے جان چھرانے کے لیے اگر اک اک کر کے گھر کی ساری چیزیں بک گئیں تو پھر ایک دن تن پر داغدار کپڑے، پاؤں کے نیچے خاکی رنگ زمین اور سر پر نیلا آسمان رہ جائے گا۔ اب بتاؤ کہ کیا کل کو ان سب کی بھی نجکاری کرنا پڑے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments