ترک سیاست میں اردوان کا مستقبل


ترکی میں دو ہزار کے بعد سے چمکتا طیب اردوان کا باب اگلے الیکشن میں بند ہو سکتا ہے۔ اردوان کو پاکستان میں مسلم دنیا کے ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے، سراہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق پر آواز اٹھانے پر پاکستانی اردوان پر صدقے واری جاتے نہیں تھکتے۔ اسرائیل کے حوالے سے اردوان کی گھن گرج جذباتی پاکستانیو کو مزید جذباتی کر دیتی ہے۔ ان کے لیے عرض ہے کہ ترکی کی اسرائیل کے ساتھ گالم گلوج پر مت جائیں۔  کیوں؟ وہ بھی سن لیں۔

ترکی کی اسرائیل کو ایکسپورٹ 35 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

گزشتہ مالی سال میں 6 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ دو ارب ڈالر کی امپورٹ چیخ چیخ کر بتا رہی ہے۔ مال اے لال۔اے۔ مال اے لال۔ اے۔ خیر یہ تو اپنے جذباتی دوستوں کے لیے تھا۔

آگے بڑھتے ہیں۔

اردوان صاحب۔ اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ مہنگائی فل جوبن پر ہے۔ بے پناہ مہنگائی نے اردوان صاحب کی حمایت گرا کر رکھ دی ہے۔ جو حالیہ سرویز میں پچاس فیصد سے تیس فیصد پر آ چکی ہے جس کی اہم وجہ مہنگائی ہے۔

 ترکی کے محکمہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح 70 فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ آزاد جائزے اسے 120 فیصد کے قریب بتا رہے ہیں۔ اردوان کی پالیسی کا کمال ہے کہ۔ ترکی لیرا پچھلے سال سے اب تک 40 فیصد تک گر چکا ہے۔

استنبول اے کے پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ یہی وہ شہر ہے جو اردوان کو شہری سیاست سے نکال کر ملک کی صدارت تک لایا۔۔ وہاں صورت حال یہ ہے کہ 2019 میں یہاں سے اے کے پارٹی کو ملنے والی شکست نے اردوان کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔

رہی سہی کسر ترک صدر کے بیٹے پر لگنے والے کرپشن کے الزامات ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ نے 2021 کی کرپٹ ترین شخصیات کی فہرست طیب اردوغان کو بھی شامل کیا۔ اس ساری صورتحال نے ترک صدر کو ہاتھ پاؤں مارنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ چند سال پہلے تک جو اردوان نئے اسلامی بلاک کے لیے ہر تول رہا تھا۔ محمد بن سلمان کی محبت میں گرفتار ہو کر گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ جمال خشوگی کے ترکی میں قتل پر سیخ پا اردوان اب اچھا بچہ بن کر سعودی عرب سے پیار کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔

سعودی عرب کے دورے کے بعد محمد بن سلمان بھی ترکی کا دورہ کر چکے ہیں خیر۔ انرجی کرائسز نے پوری دنیا کی کمر توڑ رکھی ہے۔ ترکی کیا چیز ہے۔

سب سے اہم پیش رفت فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شرکت کے حوالے سے ہے جس کی ترکی مخالفت کرتا تھا۔ فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر اردوان کی گرتی مقبولیت کو تازہ ہوا کا جھونکا میسر آیا ہے ۔ ترکی نے سب سے پہلے امریکا اور یورپ کو منوا لیا ہے کہ کردوں کی باغی تنظیم دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھی جائے گی۔ اور فن لینڈ اور سویڈن شام میں جن ترک مخالف گروپ کی سرپرستی کر رہے تھے اس سے مکمل گریز کیا جائے گا۔

اس سارے اقدام کو ترک کی قوم پرست جماعتیں جو عام طور پر اردوان کی مخالف تصور کی جاتی ہیں، سراہ رہی ہیں۔ اس کے علاؤہ ایف 35 جنگی طیاروں کے پیسے دے کر بھی نا ملنے پر اب پیش رفت سامنے آئی ہے۔ جو بائیڈن نے آج ہی بیان دیا ہے  کہ ترکی کو ایف 16 ملنے چاہییں۔۔ اس پر کیا پیش رفت ہو گی، یہ بعد کی بات ہے۔ مگر اس ساری صورتحال ہو ترک عوام اپنے لیے بہتری کے طور پر دیکھ رہی ہے۔۔

ورنہ تو روس سے ایس 400 ڈیفنس سسٹم خریدنے کے بعد پابندیوں کا سامنے کرنے والے ترک خارجہ محاذ پر اردون سے سخت اکتائے اکتائے نظر آتے تھے۔ باقی رہی سہی کسر سینتیس لاکھ شامی مہاجرین نے نکال رکھی تھی۔ جسے ترک عوام غیر ضروری بوجھ تصور کرتے ہیں اب دیکھیں۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

مگر اگلی بار ترکی میں اردوان سرکار کا قیام ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments