پیغمبرِ اسلام سے متعلق بیان پر نوپور شرما پوری قوم سے معافی مانگیں: بھارتی سپریم کورٹ


فائل فوٹو

بھارتی سپریم کورٹ نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبرِ اسلام کے خلاف ان کا بیان یا تو سستی شہرت کے لیے تھا یا پھر مذموم سرگرمیوں والے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تھا۔ ۔ ۔نوپور شرما سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں اور اُدے پور میں ہونے والے قتل کی ذمہ دار بھی وہی ہیں۔

نئی دہلی — بھارت کی سپریم کورٹ نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی معطل ترجمان نوپور شرما کے خلاف سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بیان سے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کی تنہا ذمہ دار ہیں، انہیں پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سوریہ کانت نے جمعے کو نوپور شرما کی اس جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی جس میں انہوں نے اپیل کی تھی کہ ان کے خلاف مختلف ریاستوں میں درج مقدمات کو دہلی منتقل کیا جائے۔

عدالت نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انہیں ریلیف دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نوپور شرما نے کس طرح ٹی وی مباحثے میں اشتعال انگیزی کی۔ اتنا سب کچھ کہنے کے بعد وہ کہتی ہیں کہ وہ قانون دان ہیں، یہ شرم ناک ہے۔

عدالت نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبرِ اسلام کے خلاف ان کا بیان یا تو سستی شہرت کے لیے تھا یا پھر مذموم سرگرمیوں والے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تھا۔

عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا اور ہدایت کی کہ وہ اس معاملے میں ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔

یاد رہے کہ نوپور شرما نے 26 مئی کو مقامی ٹی وی چینل ‘ٹائمز ناؤ’ پر ہونے والے مباحثے میں پیغمبرِ اسلام کے خلاف متنازع بیان دیا تھا۔ ان کے اس بیان کے بعد خلیجی ملکوں اور عالم اسلام کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا اور تقریباً 15 ملکوں نے اس پر احتجاج کیا۔ کئی ملکوں نے بھارتی سفیروں کو طلب کر کے احتجاج کیا تھا بعض ملکوں نے بھارت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں جمعے کو سماعت کے موقع پر نوپور شرما کے وکیل منندر سنگھ نے کہا کہ ان کی مؤکل کو دھمکیاں مل رہی ہیں اور ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ اس پر جج نے کہا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے یا انہوں نے پورے ملک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

وکیل نے دلائل کے دوران کہا کہ نوپور شرما نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ کس سے معافی مانگی؟۔ انہیں ٹی وی پر جا کر پورے ملک سے معافی مانگی چاہیے۔

عدالت کے مطابق نوپور شرما سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں اور اُدے پور میں ہونے والے قتل کی ذمہ دار بھی وہی ہیں۔

جسٹس سوریہ کانت نے مزید کہا کہ “نوپور شرما سرکش اور مغرور ہیں۔ وہ کسی پارٹی کی ترجمان ہیں تو کیا ہوا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں حکومت کی حمایت حاصل ہے اور ملکی قوانین کا احترام کیے بغیر کوئی بھی بیان دے سکتی ہیں۔”

سپریم کورٹ میں جمعے کو سماعت کے دوران نوپور شرما کے وکیل نے کہا کہ ٹی وی مباحثے کے دوران نوپور شرما اینکر کے سوال کا جواب دے رہی تھیں۔جس پر عدالت نے کہا کہ پھر تو اینکر کے خلاف بھی کیس قائم کیا جانا چاہیے۔

یاد رہے کہ اس مباحثے کی اینکر ٹی وی چینل کی ایڈیٹر ناویکا کمار تھیں۔ انہوں نے نوپور شرما کے متنازع بیان سے خود کو الگ کر لیا تھا اور فوری طور پر بحث بند کر دی تھی۔ بعدازاں نیوز چینل نے بھی اپنا پروگرام ویب سائٹ ہٹا دیا تھا۔

حکمراں جماعت بی جے پی نے متنازع بیان کے بعد نوپور شرما کو پارٹی سے نکال دیا تھااور ایک بیان میں کہا تھا کہ بی جے پی تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔

سماعت کے دوران نوپور شرما کے وکیل نے کہا کہعوام کو اس معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ جمہوریت میں ہر شخص کو بولنے کا حق ہے۔ جمہوریت میں گھاس کو پھلنے پھولنے اور ایک گدھے کو اسے چرنے کا بھی حق ہے۔

عدالت نے اس معاملے میں نیوز چینل کے سلسلے میں پولیس کی خاموشی پر بھی نکتہ چینی کی اور کہا کہ پولیس نے معاملے میں کیا کیا؟ٹی وی چینل پر کس بات پر مباحثہ ہو رہا تھا۔ صرف ایک ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا رہا تھا۔

یاد رہے کہ نوپور شرما اس وقت روپوش ہیں۔ ان کے خلاف کئی ریاستوں میں ایف آئی آر درج ہیں۔ ممبئی اور کلکتہ کی پولیس نے انہیں بیان دینے کے لیے طلب کیا تھا لیکن وہ نہیں پہنچیں۔

ممبئی پولیس کا ایک وفد ان کو لے جانے کے لیے دہلی آیا اور چار روز تک تلاش کے بعد واپس خالی ہاتھ روانہ ہو گیا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ دہلی پولیس نے ممبئی پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی پولیس نے ان کی اس شکایت پر کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، انہیں سیکیورٹی فراہم کردی ہے۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی بڑی سیاسی جماعت کانگریس نے سپریم کورٹ کے ریمارکس پر ردعمل میں کہا کہ عدالت نے بالکل درست کہا ہے کہ پورے ملک کے جذبات کے بھڑکنے کی تنہا ذمہ دار بی جے پی رہنما نپور شرما ہیں۔ عدالت کے ان ریمارکس کے بعد بی جے پی کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔

کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے ریمارکس پورے ملک کے خیالات کے ترجمان ہیں۔ عدالت نے حکومت کو آئینہ دکھایا ہے اور اس سے حکومت کے اقدامات کی بدصورتی واضح ہوئی ہے۔

حکومت یا بی جے پی کی جانب سے عدالت کے ریمارکس پر تادم تحریر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

تقریباً دو درجن جماعتوں پر مشتمل بھارتی مسلمانوں کی ایک وفاقی تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت سمیت متعدد مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے سپریم کورٹ کے ریمارکس کا خیرمقدم کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ نوپور شرما کو فوراً گرفتار کیا جائے۔

مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نہ صرف نوپور شرما کو بلکہ بی جے پی کو بھی پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جو لوگ بھی ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے خلاف رپورٹ درج کرکے ان کو گرفتار کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے نوپور شرما اور مذکورہ نیوز چینل کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر دہلی پولیس کی بھی سرزنش کی ہے اور دہلی پولیس وزیرِ داخلہ امت شاہ کے ماتحت آتی ہے لہٰذا امت شاہ کو بھی معافی مانگنی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کا یہ فیصلہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک انتباہ ہے جو مذہب کے نام پر ملک میں نفرت انگیزی کر رہے ہیں۔

نوید حامد کے مطابق مذکورہ فیصلے کے بعد پولیس کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرے جو دوسرے مذاہب کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے ہوں خواہ وہ کسی بھی مذہب سے کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں۔

جمعرات کو وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے ادے پور کے کنہیا لال کے قتل کے خلاف گروگرام میں ایک جلوس نکالا تھا۔ اس جلوس سے متعلق ویڈیوز وائرل ہیں۔

نوید حامد نے بتایا کہ انہوں نے اس نعرہ بازی کے خلاف پولیس میں شکایت کی ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

بعض مبصرین کے مطابق بھارت کی مختلف ریاستوں میں نوپور شرما کے خلاف مقدمات قائم ہونے کے باوجود ان کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ جب کہ ان کے متنازع بیان کو سامنے لانے والے صحافی محمد زبیر کو ایک گمنام ٹوئٹر ہینڈل سے شکایت کیے جانے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

عدالت نے محمد زبیر کی گرفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک رپورٹ پر ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور آپ کے خلاف اتنی رپورٹس درج ہیں پھر بھی پولیس آپ کو گرفتار نہیں کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments