انتظامیہ اور وزارتِ خارجہ


پاکستان میں انتظامیہ کے زوال پر تحریروں کا سلسلہ، مرحوم ظفر الاحسن، آئی سی ایس کے حوالے سے شروع ہوا۔ قارئین کی دلچسپی دیکھ کر، اِسی موضوع پرایک اور کالم ’’انتظامیہ کا فولادی ڈھانچہ، نسلا ٹاور کیسے بنا‘‘ ،تحریر کیا۔ اِسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے، گزشتہ دنوں اُن آئی سی ایس افسران کا تذکرہ ہوا جو انتظامی عہدوں کو تیاگ کر عدلیہ کا حصہ بنے۔ قارئین کے رد عمل سے احساس ہوا کہ بیشتر کو علم نہیں تھا کہ جسٹس شہاب الدین، جسٹس کارنیلیس، جسٹس کیانی، جسٹس سعد سعود جان، جسٹس شفیع الرحمٰن، جسٹس انوارالحق اور جسٹس صمدانی انتظامیہ سے عدلیہ میں شامل ہوئے تھے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے آج اُن افسران کا تذکرہ ہو گا جو متحدہ ہندوستان کی آئی سی ایس سے فارن سروس (وزارتِ خارجہ) میں شامل ہوئے۔ سفارتی نمائندگی کو پسندیدہ شخصیات کے نوازنے کا وسیلہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ سفارت کاری ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے جس میں کامیابی، مخصوص تربیت اور مہارت کے بغیر ممکن نہیں۔ سفارت کار غیر ممالک میں تعیناتی سے پہلے، اُس علاقے کی زبان ، مقامی لوگوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور ملک کے تجارتی اور معاشی تعلقات کے علاوہ، اقتصادی صورت حال کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتے ہیں۔ انتظامیہ کے افسران کو سفارت کاری کی ذمہ داری دینے سے پہلے، اُن کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

اکرام اللہ 1934ء میں آئی سی ایس کے رُکن بنے اور پھر متحدہ ہندوستان کی فارن سروس میں شامل ہوئے۔ پاکستان وجود میں آیا تو قائد اعظم نے اُنہیں ملک کا پہلا فارن سیکرٹری مقرر کیا۔ بعد ازاں وہ کینیڈا، فرانس، پرتگال میں سفیر اور برطانیہ میں ہائی کمشنر تعینات رہے۔ اُن کی بیگم شائستہ اکرام اللہ پاکستان کی اوّلین قانون ساز اسمبلی کی رُکن تھیں اور پہلی مسلمان خاتون جنہوں نے لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ وہ ایک صاحب علم ادیبہ تھیں۔ مراکش میں پاکستان کی سفیر رہیں اور اُن کی بیٹی ثروت کی شادی، اُردن کے شہزادہ حسن بن طلال سے ہوئی۔ شاید کسی کو جناب جے اے رحیم کا نام یاد ہو۔ اِس بنگالی دانش ور کا پورا نام جلال الدین عبدالرحیم تھا۔ وہ 1930ء میں انڈین سول سروس کے رُکن بنےاورفارن سروس جائن کی۔ وہ مختلف ممالک میں سفارتی ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے۔ جب پاکستان میں محمد علی بوگرہ وزیر اعظم تھے تو وزارت خارجہ کے اعلیٰ ترین عہدے، فارن سیکرٹری پر فائز ہوئے۔ اِسی تعیناتی کے دوران ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات ہوئی اور وقت کے ساتھ باہمی تعلقات میں وسعت پیدا ہوتی رہی۔ ایک لحاظ سے وہ بھٹو کے اتالیق تھے۔ جب ایوب خان سے بغاوت کر کے بھٹو نے حکومت کو خیر باد کہا تو جے اے رحیم نے اُن کا ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو جے اے رحیم اِس نئی سیاسی جماعت کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔اِس سیاسی جماعت کا اوّلین منشور ترتیب دینے میں اُن کا کلیدی کردار تھا۔ پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو کابینہ میں ڈیفنس پروڈکشن کے وزیر بنے۔

وہ بھٹو سے عمر میں بڑے اور پرانے ساتھی تھے۔ شاید اِسی بنا پر ایک تقریب میں بھٹو کے دیر سے آنے پر مبینہ طور پر کہا ، ’’میں پرنس آف لاڑکانہ کا مزید انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کی انا، جے اے رحیم کی بے ادبی برداشت نہ کر سکی۔ اُسی رات جے اے رحیم جسمانی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد، جیل میں بند ہوئے۔ وزیر اعظم پاکستان کے رد عمل پرمنفی تبصرے ہوئے تو جے اے رحیم کی رہائی عمل میں آئی۔ وہ دوبارہ کابینہ کا حصہ تو نہ بنے مگر تلافی کےلئے، پاکستان کےسفیر بنا کر پیرس بھیج دیئے گئے۔

S.M. Burke ، سیموئل مارٹن برک، بھی A.R.Cornelius ایلون رابرٹس کارنیلیس کی طرح مسیحی تھے۔ کارنیلیس، آگرہ (یو پی) میں پیدا ہوئے اور الٰہ آباد یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ایس ایم برک نے وسطی پنجاب میں واقع،مسیحی آبادی پر مشتمل، ضلع لائل پور کے ایک گائوں مارٹن پور میں جنم لیا۔ دونوں ہم عصر آئی سی ایس کے رُکن بنے۔ کارنیلیس عدلیہ میں شامل ہوئے اور ایس ایم برک نے فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔ وہ سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک میں سفارت کے فرائض ادا کرنے کے بعد، کینیڈا میں پاکستان کے ہائی کمشنر تعینات رہے۔ ایوب خان کی حکومت میں اُنہیں ستارۂ پاکستان کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اُن کی وجۂ شہرت، سفارت کاری کے علاوہ، ایک صاحب علم پروفیسر اور متنوع موضوعات پر کتابیں لکھنے کی ہے۔ اُنہوں نے بہادر شاہ ظفر، شہنشاہِ اکبر، خارجہ پالیسی اور قائد اعظم کے افکار پر کتابیں تحریر کیں۔ 1961ء میں وہ امریکی یونیورسٹی (ریاست مینی سوٹا ) میں پروفیسر بنے اور 1975ء تک اِسی درس گاہ میں درس و تدریس سے منسلک رہے۔ اُنہوں نے ایک سو چار سال کی لمبی عُمر پائی اور 9 اکتوبر، 2010ء میں اُن کا انتقال ہوا۔

آغا شاہی اور آغا ہلالی، دونوں بھائیوں کا تعلق میسور (ہندوستان) سے تھا۔ وہ پہلے آئی سی ایس کے رُکن بنے اور پاکستان بننے کے بعد وزارتِ خارجہ میں شامل ہوئے۔ آغا شاہی، چین اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفارتی نمائندگی کرنے کے بعد، 1978ء سے 1982ء تک پاکستان کی کابینہ میں وزیر خارجہ رہے۔ اُن کی خدمات کے اعتراف میں اسلام آباد کی ایک مشہور شاہراہ، اُن کے نام سے موسوم ہے۔

آغا ہلالی، ماسکو اور مشرقی یورپ کے ملک چیکو سلواکیہ میں سفیر رہنے کے بعد 1966ء سے 1971ء تک امریکہ میں پاکستان کی سفارتی نمائند گی کرتے رہے۔ وہ ایک کھلے ذہن کے مالک تھے اور حکومت پاکستان کو غیر جانبدار خارجہ پالیسی اپنانے پر مائل کرتے رہے۔ اُن کی سفارشات پر عمل نہ ہوا اور بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان کا جھکائو امریکہ کی طرف رہا۔ آغا ہلالی کو بعد ازاں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مجموعی طور پر صرف آٹھ افسران، انتظامیہ سے وزارتِ خارجہ میں منتقل ہوئے، بعد ازاں یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments