عورت زہر کی پڑیا یا تجربات کا نشانہ بننے والی چوہیا؟


“یہ پھول گلدان میں لگا دو” وہ لال گلابوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ملازمہ کچھ ہچکچاتی ہے لیکن مالک کے اصرار پر پھول گلدان میں سجا دیتی ہے۔

اگلے دن مرجھائے ہوئے پھول دیکھ کر مالک کے ماتھے پر شکنیں پڑ جاتی ہیں۔ ملازمہ کو بلایا جاتا ہے اور کچھ ذاتی سوال پوچھے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک سوال ماہواری کے متعلق ہے۔

انیس سو انیس کا زمانہ ہے۔ یاد رہے کہ جراثیم اور وائرس دریافت ہو چکے ہیں۔ سائنس آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہی ہے۔ مشہور سائنس دان بیلا شک ایک جراثیم کی دریافت میں مدد دینے والا ٹیسٹ دنیا کے سامنے شک ٹیسٹ کی نام سے پیش کر چکا ہے۔

شک کے سائنسی ذہن میں صدیوں سے رائج وہ تصورات بھی موجود ہیں جو عورت کو عجیب و غریب مخلوق سمجھتے ہوئے توہمات کے عدسے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے رومن فلاسفر پلائنی کی کتاب نیچرل ہسٹری میں لکھی گئی تھیوری پر یقین ہے جس کے مطابق عورت کے جسم سے ایسے غلیظ مادوں کا اخراج ہوتا ہے جن سے پھول فورا مرجھا جاتے ہیں، درخت سوکھ جاتے ہیں اور فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔

اس داستان کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ بیلا شک کو ایک سہ پہر لال رنگ کے گلابوں کا گلدستہ ملا۔ اس نے ملازمہ کو کہا کہ انہیں گلدان میں سجا دے۔ ملازمہ نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد ایسا ہی کیا۔ اگلے دن جب اس نے پھولوں کو مرجھایا ہوا پایا تو پوچھ گچھ کے بعد دریافت ہوا کہ ملازمہ کو ماہواری آئی ہوئی تھی۔

بیلا شک نے اس کے بعد حائضہ لڑکیوں پہ اپنے تجربات کا آغاز کیا۔ یاد رہے کہ سائنس میں زیادہ تر تجربات چوہوں پر کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں سوال ماہواری کا تھا۔ شاید بہت سے لوگ نہ جانتے ہوں کہ ماہواری کا نظام عورتوں کے علاوہ بندریا میں بھی پایا جاتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ اگر کوئی تجربہ کرنا ہی تھا تو بندریا کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا؟ یا شاید غلام لڑکیوں پہ یہ تجربات کرنا آسان تھا۔

ان تجربات سے بیلا شک کو علم ہوا کہ ماہواری کے دوران عورت کی جلد سے ایک زہریلا مادہ خارج ہوتا ہے جو ارد گرد کی ہر چیز پر اثر انداز ہوتا ہے، اگر پھول نزدیک ہوں تو وہ مرجھا جاتے ہیں اور اگر لڑکی آٹا گوندھے تو وہ خراب ہو جاتا ہے۔

اس زہریلے مادے کو مینسسز کے ناتے سے مینو ٹاکسن کا نام دیا گیا اور یہ تھیوری بیلا شک نے انیس سو انیس میں پیش کی۔

مینو ٹاکسن کے بارے میں بیلا شک نے سائنسی رسالوں میں مضمون لکھ کر اسے ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ اسے اپنی تھیوری کی سچائی پر اس قدر یقین تھا کہ پچیس برس بعد 1954 میں اس نے اپنی بحث کو پھر دہرایا۔

1974 میں مشہور عالم میڈیکل جرنل لینسٹ میں مینو ٹاکسن کے بارے میں پھر سے بحث کا آغاز ہوا۔ اسے پڑھنے کے بعد یورپ بھر سے لوگوں نے اس کی تائید کرتے ہوئے لکھا،

عورت کو ان دنوں میں روٹی نہیں پکانی چاہئیے۔

گوشت کو ہاتھ نہیں لگانا چاہئے۔

کوئی چیز اگانے کے لیے بیج زمین میں نہیں ڈالنے چاہئیں۔

پھل کاٹنے نہیں چاہئیں۔

بالوں کو گھنگھریالا نہیں کروانا چاہئیے۔

ان لوگوں کا خیال تھا کہ ایسے وقت میں عورت عورت نہیں رہتی، زہر کی پڑیا بن جاتی ہے۔

(ویسے ہمیں تو یہ روٹی نہ پکانے والی پابندی اچھی لگی، کم از کم سات دن کے لیے عورت کو باورچی خانے سے تو چھٹی ملے) ۔

ان توہمات بھری فرضی معلومات کو لینسٹ کے اگلے شماروں میں چیلنج کیا گیا اور کچھ سائنس دانوں نے صورت حال کو سائنس کی روشنی میں واضح کرنے کی ٹھانی۔ ماہواری کا خون چوہوں کی رگوں میں انجکٹ کر کے اس بات کا ثبوت حاصل کیا گیا کہ مینو ٹاکسن کا کوئی وجود نہیں۔ کچھ چوہوں کی موت ضرور واقع ہوئی تھی لیکن ماہواری کا خون چوہوں کے جسم کے لیے ایک فارن باڈی تھا جس کے ری ایکشن سے چوہے مرے تھے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی انسان کو غلط گروپ کا خون لگا دیا جائے تو وہ مر جائے گا ۔

مرجھائے ہوئے پھولوں اور خراب ہوئے آٹے کی بنیاد پر اس طرح کی تھیوریز کو کیسے مانا جا سکتا ہے؟

‏Ernster, Lancet June 29, 1974, 1347

کس قدر عجیب بات ہے کہ پدرسری روایات نے سائنس دانوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگنے سے نہیں چھوڑا جو برسوں اپنا وقت اور توانائی عورت کو چوہیا سمجھتے ہوئےکچھ لایعنی باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ کاش عورت کو چوہیا یا زہر کی پڑیا سمجھنے کی بجائے اپنے جیسا انسان سمجھ لیتے کہ وہ خود بھی ماہواری کی پیداوار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments