نفسیات پر روشنی ڈالتی بالی ووڈ فلم: فرانزک


مثال کے طور پر بابائے نفسیات سگمنڈ فرائڈ کو ہی لے لیں۔ انہوں نے جب پہلی بار ہسٹیریا کے متعلق اپنی تحقیق پیش کی کہ ہسٹیریا میں مبتلا خواتین کا ماضی خاص کر بچپن کوئی خوشگوار تاثر لیے نہیں ہوتا اور جب زیادہ گہرائی میں جا کر انہوں نے تحقیق کی تو ان کو پتہ چلا کہ ہسٹیریا میں مبتلا خواتین زیادہ تر وہ ہیں جن کو بچپن میں ناپسندیدہ جنسی عمل کا تکلیف دہ تجربہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس موضوع پر انہوں اٹھارہ سو پچانوے میں عظیم سائنسدان ارنسٹ بروک کے ساتھ مل کر ایک کتاب سٹڈیز ان ہسٹیریا بھی لکھی۔

کئی سال کی پریکٹس اور تحقیقات کے بعد انہوں نے ایک رپورٹ میڈیکل سوسائٹی آف ویانا میں پیش کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہسٹیریا کوئی عضویاتی مرض نہیں بلکہ یہ ایک اعصابی اور ذہنی مرض ہے۔ اور یہ مرض صرف خواتین میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ مرد بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ علامات، عوامل اور اشکال مختلف ہو سکتی ہیں لیکن بہر طور یہ مرض ہر دو اصناف میں پایا جا سکتا ہے۔

میڈیکل سوسائٹی آف ویانا نے نا صرف ان کی اس رپورٹ کو رد کر دیا بلکہ سوسائٹی کے ارکان اور فرائیڈ کے معاصرین کی جانب سے اس رپورٹ کا ٹھیک ٹھاک مذاق بھی اڑایا گیا۔ درغ بر گردن راوی مگر کہا یہ جاتا ہے کہ اس پہلی شکست کے بعد وہ مایوس تو نہیں ہوئے البتہ کچھ نہ کچھ ڈپریشن کا شکار ہو گئے کیونکہ ان کو اس رپورٹ کی کامیابی اور پذیرائی سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔ بعض جگہوں پر یہ بھی تذکرہ ملتا ہے کہ آخری وقتوں میں جب فرائیڈ کی بیٹی ان کے کام میں ان کی معاونت کر رہی تھیں فرائیڈ اکثر ڈپریشن میں چلے جاتے تھے اور ان کی بیٹی اینا فرائیڈ ہی ان کی مدد کر کے انہیں ڈپریشن سے نکلنے میں مدد فراہم کرتی تھیں۔

سید اقبال امروہوی اپنی کتاب ”نفسیات کے معمار“ میں لکھتے ہیں بقراط سے لے کر ارسطو، شینزر، ڈیکارٹ، جان لاک، سپینوزا، گیلٹن، ولہیم وونٹ، ولیم جیمس اور بیولوف تک تمام نفسیات دانوں میں فرائیڈ ہی وہ اولین نفسیات دان سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے بچوں کی نفسیات پر گراں بہا کام کیا۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ بچوں کی نفسیات پر جس قدر کام فرائیڈ نے کیا ہے شاید اتنا آج تک نہیں کیا جا سکا اور فرائیڈ ہی کو بچوں کی نفسیات پر سیر حاصل تحقیق کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اکثر مفکرین کی جانب سے سمجھا یہ جاتا ہے کہ اگر فرائیڈ اس کی ابتدا نہ کرتے تو کیا معلوم آج بھی بچوں کی نفسیات پر اتنی توجہ ہی نہ دی جا رہی ہوتی۔

بھارت کے رہائشی سید اقبال امروہوی نفسیات کے وہ استاد ہیں جن کی ایک کتاب ”اصطلاحات نفسیات: تشریح و تفہیم“ کو اتنی پذیرائی ملی کہ ہندوستان کی کچھ جامعات میں اس کتاب کو باقاعدہ نصاب کے طور پر شامل کیا گیا۔ ایک پاکستانی پبلشر نے بلا اجازت ہی اس کتاب کو نام بدل کر ”نفسیات کا انسائیکلو پیڈیا“ کے عنوان سے چھاپ دیا۔ یہی نہیں بلکہ اردو انسائیکلو پیڈیا کی ویب سائٹ پر بھی اس کتاب کو بلا اجازت ہی اپلوڈ کر دیا گیا جہاں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم پچاس ہزار افراد نے اس کتاب سے استفادہ حاصل کیا۔

تھرڈ ورلڈ اور ترقی پذیری کی فہرست میں شمار ممالک میں تو بڑوں کی نفسیات یا ذہنی صحت پر ہی توجہ نہیں دی جاتی کجا بچوں کی نفسیات پر توجہ دی جائے البتہ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کی نفسیات اور ان کی ذہنی صحت کو بنیادی سہولت فراہم کرنے جتنی ترجیح دی جاتی ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ انسانی نفسیات اور دماغ انتہائی پیچیدہ نظام ہیں جن کو مکمل طور پر سمجھنا تاحال تو ممکن نہیں ہو سکا مگر زمانہ حال کی سائنسی ترقی دیکھتے ہوئے موہوم سی امید لگائی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں اس پر مکمل دسترس حاصل کی جا سکے گی۔

انسانی ذہن ایک ایسی مشین ہے جس پر آپ جو کچھ چھاپنا چاہیں سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں چھاپ سکتے ہیں، ادھر آپ نے سوچا اور ادھر ذہن میں وہی کچھ چھپ گیا۔ اور یہی کسی بھی قسم کی چھاپ اگر بچپن میں لگ جائے اور وہ بھی منفی نوعیت کی تو ساری زندگی اس سے چھٹکارا پانا قریب قریب محال ہو جاتا ہے اور یہ انتہائی نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔

ایسی ہی ایک کہانی پر مشتمل یہ بالی ووڈ فلم ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک بچہ نا موافق و نا مساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے محرومی اور ذلت سے دوچار ہوتا ہے اور بڑا ہو کر وہی بچہ بچپن میں ہوئی زیادتیوں اور محرومیوں کا بدلہ کیسے لیتا ہے وہ بھی ایسے لوگوں سے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کی محرومیوں سے جڑے بھی نہیں ہوتے۔

رادھیکا آپٹے، وکرانت میسی، ونود سنگھ رندھاوا، پراچی دیسائی اور روہیت رائے کی سٹار کاسٹ میں پل پل ہلچل مچاتی اس فلم میں نفسیات خاص کر بچوں کی نفسیات اور نفسیات دان کی اہمیت پر بہترین روشنی ڈالی گئی ہے۔ مرزا پور سیزن میں گڈو بھیا کے چھوٹے بھائی کا کردار ادا کرنے والے وکرانت میسی ایک قابل ترین فارنزک افسر کے کردار میں ہیں اور رادھیکا آپٹے ایک ایماندار فرض شناس پولیس افسر کے کردار میں جبکہ پراچی دیسائی بیک وقت دو کردار ادا کر رہی ہیں۔ کون سے دو کردار ہیں اب یہ تو آپ کو فلم دیکھ کر ہی پتہ چلے گا۔ ونود سنگھ رندھاوا سپورٹنگ کریکٹر میں ہیں اور روہیت رائے ایک نسبتاً کمزور اور مختصر کردار میں دکھائی دیتے ہیں۔

اس فلم کا مرکزی خیال دو ہزار بیس میں ملیالم زبان کی اسی نام سے بننے والی فلم سے لیا گیا ہے مگر دستیاب معلومات کے مطابق کہانی یکسر مختلف اور منفرد ہے۔ اس فلم کی کہانی کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بہت سے کرداروں پر شک بھی ہوتا ہے اور بعض جگہوں پر لگتا ہے کہ بعض کردار غیر ضروری ہیں مگر جس طرح سے آخر میں کہانی کی جڑت کی گئی ہے وہ دیکھنے اور سمجھنے لائق ہے اور واضح محسوس ہوتا ہے کہ ہر کردار اپنی جگہ پر فٹ بیٹھتا ہے۔

جلد ہی اسی نام اور اسی موضوع پر بننے والی ملیالم فلم ڈھونڈ کر دیکھتے ہیں کیونکہ نفسیات اور تاریخ دو ایسے موضوع ہیں جن میں مجھے ہمیشہ سے ہی انتہا کی دلچسپی رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments